23 مارچ قرارداد پاکستان اور اصل حقائق


23 مارچ 1940 ء کو لاہور کے منٹو پارک میں آل انڈیا مسلم لیگ کے تین روزہ سالانہ اجلاس کے اختتام پر یہ تاریخی قرارداد منظور کی گئی تھی۔ اس کی بنیاد پر مسلم لیگ نے برصغیر میں مسلمانوں کے لئے ایک علیحدہ وطن کے حصول کے لئے تحریک شروع کی پھر 7 برس بعد اپنا مطالبہ منظور کرانے میں کامیاب رہی۔ شیربنگال ابوالقاسم فضل الحق قائداعظم کے قریبی رفیق جنہوں نے تحریک پاکستان اور مسلم لیگ میں نمایاں اور قابل رشک کردار ادا کیا۔ آپ نے ہی 23 مارچ 1940 ء کو لاہور کے تاریخی اجلاس میں یہ قرارداد پیش کی تھی۔ یاد رہے لاہور کے اس تاریخی اجلاس میں پورے برصغیر سے لاکھوں افراد شریک ہوئے تھے اور اس اجلاس کی صدارت بابائے قوم حضرت قائد اعظم نے فرمائی تھی۔

یہاں ان کی 23 مارچ 1940 ء کی قرارداد پاکستان کے اصل حقائق کی حیثیت کے حوالے سے ذکر کر رہا ہوں۔ قائداعظم نے 1929 ء دہلی میں آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس میں نہرو رپورٹ کے جواب میں 14 نکات پیش کیے جو کہ تحریک پاکستان میں سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس میں ایک علیحدہ مملکت ریاست کا ذکر قابل ستائش ہے۔ 23 مارچ 1940 ء میں قرارداد پاکستان لاہور پیش کی گئی جس نے مسلمانوں کے لئے ایک علیحدہ ریاست بنام پاکستان کی بنیاد ڈالی اور اس کے لئے مصروف عمل ہو گئے۔ قرارداد پاکستان کس نے لکھی تھی؟ پاکستانیوں کو علم ہی نہیں کہ حصول آزادی میں ”قرارداد پاکستان“ کا کیا کردار تھا۔ اہل علم اور قائد کے ساتھیوں کو اس کا بخوبی علم ہے۔ البتہ ہماری نئی نسل کے لئے یہ ضروری ہے۔ اس ضمن میں پاکستان کے پہلے وزیر خارجہ سر محمد ظفراللہ خان صاحب فرماتے ہیں۔

”میں پورے وثوق سے کہتا ہوں کہ لارڈ لینتھ گو کے 12 مارچ کے خط میں میرے اس کا حوالہ دیا گیا ہے وہ اس حقیقت پر مبنی تھا کہ ہندوستان میں مسلمان ایک واضح طور پر علیحدہ قوم ہیں اور یہ کہ آئینی مسئلے کا واحد تسلی بخش اور قابل قبول حل یہ ہے کہ شمال مشرقی اور شمال مغربی علاقوں پر مشتمل فیڈریشن قائم کی جائے اور یہ بالکل وہی مطالبہ تھا جو کچھ دنوں بعد 23 مارچ 1940ء کی مسلم لیگ کی قرارداد میں پیش کیا گیا۔ دو قومی نظریہ شمال مشرقی اور شمال مغربی فیڈریشن کے قیام کی سکیم میرے نوٹ میں تفصیل اور وضاحت سے پیش کی گئی ہے جو میرے ہم عصروں یا مجھ سے پہلے لوگوں میں سے کسی دستاویز یا بیان میں قطعاً نہیں۔“ (بحوالہ پاکستان ٹائمز 13 فروری 1982 ء)

سر محمد ظفراللہ خان کا وہ نوٹ جو انہوں نے لارڈ لینتھ کو بھجوایا تھا اس کے بارے میں فرماتے ہیں :

”میرا یہ نوٹ ماہ فروری 1940 ء کے آخری نصف میں تیار کیا گیا تھا تاکہ اسے سرکاری ڈاک والے تھیلے میں شامل کر دیا جائے جو لارڈ لینتھ گوکہ 12 مارچ والے خط سے پہلے جانا تھا اس خط اور میرے نوٹ کے بغور مطالعہ سے یہ بات کسی شک و شبہ کے بغیر واضح ہوجاتی ہے کہ یہ نوٹ میں نے ذاتی طور پر پہل کر کے خود تیار کیا تھا اور میں اس کے مندرجات کے ہر حصے کا اکیلا ذمہ دار تھا۔“ (بحوالہ پاکستان ٹائمز 13 فروری 1982 ء)

چوہدری سر محمد ظفراللہ خان صاحب نے یہ بات بھی واضح کی کہ لارڈ لینتھ گو نے 12 مارچ کو اپنے مضمون میں 1940 ء کے مکتوب بنام سیکرٹری آف سٹیٹ برائے انڈیا میں خاص طور پر ذکر کیا ہے۔ میرے نوٹ کی ایک کاپی پہلے ہی قائداعظم کو بھیج دی گئی تھی۔ جس نوٹ کی کاپی لارڈ لینتھ گو نے قائداعظم کی خدمت میں بھجوائی تھی چند دن بعد وہی سکیم ”قرارداد پاکستان“ کی شکل میں مسلم لیگ کے اجلاس میں 2 مارچ 1940 ء میں پاس کی گئی ہے۔ ”قرارداد پاکستان“ کے مسودے کی وضاحت بیان کرنے کے بعد سر ظفراللہ خان صاحب اپنے عجز کا ان الفاظ میں اظہار کرتے ہیں۔

”میں نے ہمیشہ بار بار زبانی اور تحریری طور پر اس حقیقت کو واضح کیا ہے کہ جہاں تک انسانی رشتوں کا تعلق ہے پاکستان صرف ایک شخص کی مخلصانہ اور بھرپور کوششوں سے معرض وجود میں آیا اور وہ قائد اعظم محمد علی جناح تھے۔ انہوں نے اکیلے ہی دم توڑتی ہوئی آل انڈیا مسلم لیگ کو پھر سے زندہ کیا اور اسے ایک فعال اور موثر سیاسی تنظیم میں مربوط کر دیا اور وہ اس کے مسلم اور متحرک قائد تھے۔ ناقابل قبول نظر آنے والی مشکلات کے باوجود انہوں نے مقصد کو پالیا جو انہوں نے اپنے سامنے رکھا تھا اور اگرچہ متعدد لوگوں نے وفاداری اور صدق کے ساتھ ان کا ساتھ دیا تھا لیکن حصول پاکستان میں کامیابی کا کریڈٹ اکیلے محمد علی جناح کو جاتا ہے۔ اس بارے میں کسی جہت سے شک و شبہ کی گنجائش نہیں۔“ (پاکستان ٹائمز 13 فروری 1982 ء)

چوہدری سر محمد ظفراللہ خان قوم کے وہ خوش بخت سپوت تھے جن کو دیانت، محنت اور اعلیٰ قابلیت کی وجہ سے غیرمنقسم ہندوستان میں بھی اعلیٰ ذمہ داریاں سونپی گئیں جن کی انجام دہی میں وہ ہر لحاظ سے نہایت کامیاب و کامگار ثابت ہوئے۔ تحریک آزادی پاکستان اور قرارداد پاکستان کے حوالے سے بھی چوہدری ظفر اللہ خان کو نہایت ہی موثر اور دوررس نتائج کی حامل خدمات انجام دینے کی توفیق ملی۔ یاد رہے متحدہ ہندوستان میں چوہدری صاحب موصوف نے مختلف اوقات میں ایک کامیاب وکیل، وائسرائے کونسل کے ممبر، آج کے دور میں مرکزی وزیر، فیڈرل کورٹ (یعنی سپریم کورٹ) کے معزز جج۔

ان سب سے بڑھ کر مسلم لیگ کے ایک فعال اور کامگار لیڈر کے طور پر مسلمانان ہند کی نمایاں خدمات انجام دیں جن کی وجہ سے انہیں خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے۔ ان کی متحدہ ہندوستان اور قیام پاکستان کے بعد کی اہم اور نمایاں خدمات اور کامیابیوں کا تذکرہ تاریخ ماضی بعید کا حصہ بن چکا ہے۔ چودھری صاحب موصوف نے آل انڈیا مسلم لیگ کے ایک اجلاس کی صدارت فرمائی اور کئی مرتبہ ہندوستان کی طرف سے عالمی سطح پر نمائندگی کرتے رہے علاوہ ازیں آپ جنرل اسمبلی اقوام متحدہ کے اجلاس کی بھی صدارت فرماچکے ہیں۔ آپ پرنسز آف انڈیا چیمبر کے مشیر، انڈیا میں چین کے ایجنٹ جنرل، صدر انٹرنیشنل جسٹس کورٹ آف ہیگ (ہالینڈ) اور 1937 ء میں کنگ جارج ششم کی تقریب تاج پوشی میں برٹش انڈیا اور وائسرائے آف انڈیا کی نمائندگی کرچکے ہیں۔

آج ہمیں ان رہنماؤں کو خراج تحسین پیش کرنا چاہیے جنہوں نے اس قرارداد کو تحریر کیا اور پیش کیا۔ ان کی خدمات اور تعلیمات کو نصاب تعلیم کا حصہ بنانا چاہیے تاکہ طالبعلم نظریہ پاکستان کے اصل حقائق اور اس کی روح سے روشناس ہوں۔ بعد میں آنے والوں نے اس حقیقت کو فراموش کر کے اصل حقائق سے روگردانی کی ہے اور وہ قوم کے مجرم ہیں۔

اللہ تعالیٰ ہمیں نظریہ پاکستان اور بابائے قوم حضرت قائد اعظم کے اصولوں پر صحیح معنوں پر چلنے کی توفیق دے آمین۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments