جنرل قمر جاوید باجوہ کا خطاب: سوشل میڈیا پر آرمی چیف اور نواز شریف کے بیانات میں موازنہ اور بحث


’ماضی کو دفن کیا جائے اور آگے بڑھا جائے‘ اور ’ہمیں احساس ہو گیا تھا کہ جب تک ہم اپنے گھر کو ٹھیک نہیں کرتے ہم باہر سے کوئی توقعات نہیں رکھ سکتے‘۔

یہ دونوں باتیں جمعرات کو پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی جانب سے اسلام آباد سکیورٹی ڈائیلاگ 2021 کی تقریب میں تقریر کے دوران کی گئیں جس کے بعد جہاں کئی افراد ان کے بیانات کو سراہتے نظر آئے وہیں سوشل میڈیا پر صارفین سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کے ’بیانیے‘ اور ’ڈان لیکس‘ کا ذکر کرتے بھی نظر آئے۔

جنرل باجوہ نے پہلی بات انڈیا پاکستان تعلقات اور کشمیر کے مسئلے کے تناظر میں کی اور کہا گیا کہ بامعنی مذاکرات سے قبل ہمارے پڑوسی ملک کو خاص طور پر انڈیا کے زیرانتظام کشمیر میں ماحول کو سازگار بنانے کے لیے اقدامات کرنا ہوں گے۔

تاہم دوسری بات خطے میں معاشی و اقتصادی استحکام کو یقینی بنانے والے چار ستونوں سے متعلق ہے۔

ان میں اندرونی و بیرونی امن کی بحالی، اپنے ہمسایوں اور خطے کے ممالک کے معاملات میں کسی قسم کی مداخلت سے گریز کرنا، خطے میں تجارت اور آمدورفت کی بہتری کو فروغ دینا، سرمایہ کاری اور اقتصادی مراکز کے قیام کے ذریعے پائیدار ترقی کو یقینی بنانا شامل ہیں۔

ان نکات کا ذکر کرتے ہوئے جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ ’ہمیں احساس ہو گیا تھا کہ جب تک ہم اپنے گھر کو ٹھیک نہیں کرتے ہم باہر سے کوئی توقعات نہیں رکھ سکتے‘۔

جنرل باجوہ کے ان بیانات کے تناظر میں سابق وزیرِ اعظم میاں نواز شریف کے ذکر کی وجہ ماضی میں ان کی کشمیر پالیسی سے متعلق دیے گئے بیانات اور ’ڈان لیکس‘ کے معاملے میں فوجی افسران سے ہونے والی مبینہ بات چیت قرار دی جا رہی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

انڈیا اور پاکستان کے مستحکم تعلقات خطے میں ترقی کی چابی: جنرل باجوہ

ڈان لیکس میں کب کیا ہوا

کیا پاکستانی سیاست پر اب بھی ڈان لیکس کا سایہ ہے؟

’ڈان لیکس‘: طارق فاطمی نے الزامات مسترد کر دیے

اس حوالے سے سوشل میڈیا پر اکثر صارفین یہ سوال پوچھتے نظر آ رہے ہیں کہ جب یہی باتیں، ان کے مطابق، نواز شریف اور ان کی حکومت کے دیگر عہدیدار کیا کرتے تھے تو انھیں ’مودی کا یار‘ جیسے خطابات سے نوازا جاتا تھا اور ڈان لیکس جیسے تنازعات سامنے آتے تھے۔

کشمیر پالیسی سے متعلق جنرل باجوہ کے بیان پر روشنی ڈالتے ہوئے صحافی کامران یوسف نے لکھا کہ ’یہی پالیسی تو پاکستان مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی کی حکومتوں نے اپنائی تھی تو اب اس میں فرق کیا ہے۔‘

خیال رہے کہ گذشتہ روز اسی تقریب کے پہلے روز خطاب کرتے ہوئِے وزیر اعظم عمران خان نے کہا تھا کہ پاکستان سے تعلقات بحال کرنے کے لیے انڈیا کو پہلا قدم اٹھانا چاہیے۔ اس ضمن میں رواں برس فروری میں ہونے والی یہ پیش رفت بھی اہم ہے جس میں انڈیا اور پاکستان نے ایک دوسرے کے بنیادی معاملات اور تحفظات کو دور کرنے اور ایل او سی پر جنگ بندی پر سختی سے عمل کرنے پر اتفاق کیا تھا۔

لیکن ان تمام بیانات سے ڈان لیکسسے کیا تعلق ہے؟

اس سوال کا جواب جاننے کے لیے ہمیں چھ اکتوبر 2016 کے واقعات کو سمجھنا ہوگا۔ یہ وہ دن ہے جب انگریزی اخبار ڈان میں سیرل المیڈا نے وزیر اعظم ہاؤس میں ہونے والے ایک اہم اجلاس سے مبینہ طور پر لیک ہونے والی معلومات پر مبنی ایک خبر دی تھی۔

اس خبر میں غیر ریاستی عناصر یا کالعدم تنظیموں کے معاملے پر فوج اور سول حکومت میں مبینہ اختلاف کا ذکر کیا گیا تھا اور حکومت کی جانب سے ان عناصر کے خلاف فوری کارروائی کرنے کے مطالبے اور بصورتِ دیگر بین الاقوامی منظر نامے میں تنہا رہ جانے کا خدشہ ظاہر کیا گیا تھا۔

یہ خبر ایک سکینڈل کی شکل اختیار کر گئی جسے بعد میں ’ڈان لیکس‘ کا نام دیا گیا۔ اس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ حکومت کی جانب سے فوجی افسران کو پٹھان کوٹ حملے کے حوالے سے تحقیقات میں معاونت کرنے اور عسکریت پسند تنظیم جیش محمد کے خلاف کارروائی کرنے کا کہا گیا تھا۔

حکومت اور فوج دونوں نے اس خبر کو من گھڑت اور بے بنیاد قرار دیا تھا۔

نواز شریف کا وہ انٹرویو

عدالت کی جانب سے نااہل قرار دیے جانے کے بعد بھی نواز شریف کی جانب سے جنوری سنہ 2018 میں ایک بیان میں ’اپنا گھر ٹھیک کرنے‘ کے بارے میں بات کی گئی تھی۔ انھوں نے کہا تھا کہ ’ہمیں خود فریبی کے چنگل میں نہیں پھسنا چاہیے اور یہ سمجھنا چاہیے کہ دنیا میں پاکستان کے حوالے سے منفی تاثرات کیوں پائے جاتے ہیں۔‘

اس کے بعد مئی دو ہزار اٹھارہ میں ڈان اخبار میں نواز شریف کا سرل المیڈا کو دیا گیا ایک انٹرویو شائع ہوا تھا جس میں اخبار کے مطابق جب نواز شریف سے پوچھا گیا کہ انھیں عوامی عہدے سے ہٹانے کی کیا وجوہات ہوسکتی ہیں تو نواز شریف نے براہ راست جواب دینے کے بجائے اس کا رخ خارجہ پالیسی اور قومی سلامتی کی جانب موڑ دیا تھا۔

ڈان اخبار کے مطابق نواز شریف نے کہا تھا کہ ‘ہم نے خود کو تنہائی کا شکار کر لیا ہے۔ ہماری قربانیوں کے باوجود ہمارے موقف کو قبول نہیں کیا جاتا۔ افغانستان کے موقف کو قبول کیا جاتا ہے، لیکن ہمارے نہیں۔ ہمیں اس جانب توجہ دینا ہوگی۔’

ڈان میں شائع ہونے والے انٹرویو کے مطابق نواز شریف نے کہا تھا کہ ‘عسکری تنظیمیں فعال ہیں۔ انھیں غیرریاستی عناصر کہا جاتا ہے، کیا ہم انھیں اجازت دے سکتے ہیں کہ وہ سرحد پار جا کر ممبئی میں 150 لوگوں کا قتل کریں؟’

اس کے بعد انھیں شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا اور قومی سلامتی کونسل کا اجلاس بھی منعقد ہوا جس میں اس بیان کو گمراہ کن قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی گئی تھی۔

خیال رہے کہ پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنماؤں کی جانب سے ایف اے ٹی ایف کی جانب سے پاکستان کو گرے لسٹ میں رکھنے اور کالعدم تنظیموں کے رہنماؤں کے خلاف کارروائیاں تیز ہونے پر اکثر ڈان لیکس کا تذکرہ کیا جاتا رہا ہے۔

جنرل باجوہ کی تقریر پر ردعمل

آرمی چیف کی جانب سے دیے گئے بیان کے حوالے سے بات کرتے ہوئے صحافی طلعت حسین نے کہا کہ ’بڑا سوال یہ ہے کہ کیا یہ دونوں اہداف موجودہ زہر آلودہ اور انتقام زدہ سیاسی ماحول میں ہو سکتے ہیں؟ کیا عناد، بغض اور انا کے ڈھیر ہٹائے بغیر کوئی بھی قومی مقصد حاصل ہو سکتا ہے؟‘

جنوبی ایشیا کے معاملات پر نظر رکھنے والے مائیکل کوگلمین کا کہنا ہے کہ ’میرے اندازے کے مطابق یہ پہلا عالمی ڈائیلاگ ہے جو پاکستان کی جانب سے منعقد کروایا گیا ہے اور اس کی میزبانی کرنے کا یہی صحیح وقت تھا۔ اس کے ذریعے انتہائی اہم پالیسی تقاریر سامنے آئی ہیں جن میں سب سے اہم جنرل باجوہ کی ہے۔‘

تاہم دیگر صارفین یہ پوچھتے دکھائی دیے کہ، ان کے مطابق، یہی باتیں کہنے پر نواز شریف ’غدار‘ کیوں قرار پائے تھے۔ ایک صارف نے لکھا کہ ’نواز شریف کہے تو غداری، باجوہ کہے تو وفاداری، کیا بات ہے۔‘

ایک صارف سید علی جعفری نے لکھا کہ جنرل باجوہ نے اچھی تقریر کی۔ وزیرِ اعظم عمران خان اور جنرل باجوہ کی تقاریر کا لب لباب یہ ہے کہ اب یہ دوسروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ خطے میں امن کے کاوشیں کریں، پاکستان اس حوالے سے قدم بڑھانے کے لیے تیار ہے۔

بعض صارفین اسے انڈیا کی جانب سے اپنے زیرِ انتظام کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت تبدیل کرنے کے بعد پاکستان کی جانب سے رویے میں تبدیلی کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔

اکثر صارفین جنرل باجوہ کی جانب سے دیے گئے بیانات کو خطے میں امن و استحکام کے لیے خوش آئند قرار دیتے بھی دکھائی دیے۔

اداکار فخرِ عالم نے جنرل باجوہ کی آج کی تقریر سے متعلق خبر شیئر کرتے ہوئے کہا کہ ’مجھے یقین ہے کہ انڈیا میں اچھے، ترقی پسند خیالات کے حامل اور سلجھے ہوئے افراد اس بات کو سن کر اس حوالے سے کام بھی کریں گے۔‘

ایک اور صارف نے قدرِ تلخ الفاظ کا استعمال کرتے ہوئے کہا کہ ’باجوہ صاحب اپنا گھر ٹھیک کرنے کی ذمہ داری آپ کی نہیں بلکہ عوام اور عوام کے منتخب نمائندوں کی ہے۔ آپ کا کام گھر کی حفاظت کرنا ہے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp