جسٹس صاحب! احتیاط کیجیے


میں نے جب اپنے تاریخ کے اتالیق سے پوچھا کہ سر گیلانی کو جب 30 سیکنڈ کی سزا سنائی گئی تو آپ کے خیال میں فیصلہ درست تھا یا نہیں؟ ظاہر سی بات ہے وہ تاریخ کے استاد تھے ، اپنی رائے ہی دے سکتے تھے کہ فیصلہ درست تھا یا غلط۔ تو جواب ملا بیٹا! ان چکروں میں نہ پڑو ، کہیں مجھے نوکری سے فارغ نہ کروا دینا۔ میں اس سوچ میں پڑگیا کہ میرے سوال میں ایسا کیا ہے جو کسی کی نوکری کو لے ڈوبے۔

الطاف گوہر اپنی کتاب ”لکھتے رہے جنوں کی حکایت“ میں لکھتے ہیں کہ شیخ عبداللہ دس سال اسیری کے بعد جب رہا ہوئے تو انہیں پاکستان بھیجا گیا کہ وہ ایوب خان سے کشمیر کے بارے میں بات کریں کہ وہ کشمیر کی کانفیڈریشن بارے سوچیں اور رائے دیں نہ کہ استصواب رائے کی بات کی جائے۔ الطاف گوہر لکھتے ہیں اس بات پہ ڈکٹیٹر ایوب سخت غصہ ہوئے اور شیخ عبداللہ سے کہا کہ تم ، تمہارا کشمیر اور انڈیا جانے ہمیں جینے دو۔ ہمارے ذہن کو اس کشمیر نے مفلوج کر رکھا ہے۔ الطاف گوہر اور مجھے شاک لگا کہ صدر یہ کیسے بات کر سکتے ہیں کہ کشمیری اور انڈیا جانیں ہمارا کشمیر سے کیا تعلق؟

جب جنرل اکبر خان کو کشمیر پالیسی پہ قائداعظم سے ڈانٹ پڑی کہ تم نہیں بلکہ ہم سویلین ملکی قانون اور پالیسی بناتے ہیں، تم سویلینز کے نوکر ہو ، تمہیں صرف سرحد کی نگہبانی کرنی چاہیے نہ کہ پالیسی میکر بننا چاہیے۔ ان دونوں باتوں سے مجھے لگا کہ دونوں کو یعنی قائداعظم اور ڈکٹیٹر ایوب کو ان باتوں پہ لاپتا ہونا چاہیے تھا مگر خدا کا شکر ہے دونوں ہی اغوا اور لاپتا ہونے سے بچ گئے ، وگرنہ دنیا میں ناک کٹ جاتی کہ گورنر جنرل اور صدر کو لاپتا کیا گیا ہے۔

قاضی فائز عیسی صاحب بہت درویش صفت آدمی ہیں ، وہ آج کل ان لوگوں کو پالیسیز میں مداخلت نہ کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں جنہیں بہت پہلے قائداعظم نے ٹوکا تھا۔ وہ یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ دراصل یہ ملک کن کی گرفت میں ہے ، حقیقی حاکم کون ہیں، عدلیہ پہ کن لوگوں کا دباؤ ہے ، میڈیا کو ڈی ٹریک کون کر رہا ہے، حمود الرحمن کمیشن رپورٹ کیونکر نامکمل اور دیر سے جاری کی گئی اور چیئرمین سینیٹ کے الیکشن میں کن بااثر لوگوں کی جیت ہوئی ہے۔

جناب عالی عرض یہ ہے کہ آپ کا بہت زیادہ طوطی بول رہا ہے جو کہ آپ کی صحت کے لئے مفید نہیں ہے۔ اس لئے اپنے دائرے میں رہا جائے۔ عدلیہ میں اپنا کام کیجیے، فیصلے سنائیے، جسٹس ثاقب نثار نہ بنیں۔ اپنے فیصلے حق و سچ کے ساتھ کریں، خدا مدد فرمائے گا۔

ہاں ایک بات یاد آئی ، نواب آف کالا باغ مشرقی پاکستان کے گورنر جنرل تھے۔ بڑی بڑی مونچھیں تھیں۔ وہ انہیں بناتے سنوارتے رہتے تھے۔ اسی زمانے میں ایم خورشید نامی چیف سیکرٹری مشرقی پاکستان میں متعین کیے گئے، ان کی بھی بڑی بڑی مونچھیں تھیں۔ وہ صبح سے شام تک مونچھوں کو تاؤ دیتے اور سنوارتے رہتے تھے۔ تین چار مہینے تو نواب آف کالا باغ نے جیسے تیسے جھیلے مگر پانچویں مہینے میں یہ کہہ کر فارغ کر دیا کہ ایک جگہ دو مونچھیں نہیں چل سکتیں۔

جناب جسٹس فائز صاحب،  چلنا ہے تو احتیاط سے چلیں وگرنہ باہر نکال دیے جائیں گے۔ ایک مشورہ ہے کہ فیصلے میرٹ پہ زیادہ کرو باتیں کم، خدا مدد کرے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments