عورت مارچ کی ’جعلی ویڈیو‘ کی تحقیقات کا معاملہ: ’ایف آئی اے کو ابھی تک کوئی احکامات جاری نہیں کیے گئے‘


پاکستان کے شہر کراچی میں اس سال آٹھ مارچ کو ہونے والے عورت مارچ کے حوالے سے ایک تحریف شدہ ویڈیو کو بنیاد بنا کر توہین مذہب کے الزامات سامنے آئے جس کے بعد اعلی حکومتی عہدے داروں نے اس کے خلاف اقدامات لینے کا عندیہ دیا تھا تاہم دس روز گزرنے کے بعد بھی اب تک کسی قسم کے ٹھوس اقدامات سامنے نہیں آئے ہیں۔

اس حوالے سے وزارتِ داخلہ کے ترجمان نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کی وزارت کی جانب سے ایف آئی اے کو اس بارے میں ابھی تک کوئی احکامات جاری نہیں کیے گئے اور اگر وزارت مذہبی امور کی جانب سے انکوائری کا کہا گیا ہے تو اس حوالے سے بھی ان کے پاس کوئی معلومات نہیں پہنچی ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ضوابط کے تحت درخواست یا تحریری حکم کے بغیر کارروائی کا آغاز نہیں ہوتا۔

یاد رہے کہ نہ صرف منتظمین بلکہ سوشل میڈیا صارفین کی ایک بڑی تعداد کے مطابق بھی تحریف شدہ ویڈیو میں لکھی گئی عبارت وہ الفاظ نہیں تھے جو مارچ کے شرکا کی جانب سے ادا کیے گئے بلکہ صوتی تاثر یکساں ہونے کی وجہ سے ان الفاظ کو ویڈیو پر لکھ کر حقائق تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

عورت مارچ کے خلاف عدالت میں درخواست

’عورت مارچ کی شرکا بھی مسلمان ہیں، ہم بھلا ایسا کیوں کریں گے؟‘

عورت مارچ: ’ایل جی بی ٹی کھل کر سامنے نہیں آتے‘ تو مسائل پر بھی بحث نہیں ہوتی

سوشل میڈیا پر تبدیل شدہ ویڈیو کو شیئر کیے جانے کے بعد پہلے وفاقی وزیر برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے 11 مارچ کو ٹویٹ کرتے ہوئے تبصرہ کیا کہ پاکستان کے وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے کو اس پر فوری کارروائی کرنی چاہیے۔

اس کے بعد 15 مارچ کو وفاقی وزیر برائے مذہبی امور نور الحق قادری کا بیان سامنے آیا جس میں ان کی جانب سے دعوی کیا گیا کہ سوشل میڈیا پر جاری مواد کی حقیقت جاننے کے لیے انکوائری کا آغاز کیا جا رہا ہے اور کہا کہ جو لوگ اس کے ذمہ دار قرار پائیں گے ان کا خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔

موقف جاننے کے لیے بی بی سی نے متعدد بار وزارت مذہبی امور سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تاہم ان کی جانب سے کوئی جواب نہیں موصول ہوا۔

ایف آئی اے سے بھی جواب لینے کے لیے سائبر کرائم ونگ کے افسران سے رابطے کیے گئے لیکن باضابطہ طور پر کوئی جواب نہیں ملا۔

تاہم ایف آئی اے کے ذرائع نے اتنا بتایا کہ ان کی معلومات کے مطابق ابھی تک تحریری طور پر کوئی درخواست موصول نہیں ہوئی ہیں اور نہ ہی ایسی کسی کارروائی کے بارے میں معلومات مل سکی ہیں۔

ذرائع کے مطابق اگر عورت مارچ کی منتظمین نے کوئی شکایت درج نہیں کروائی اور حکومتی وزیر نے کارروائی کرنے کو کہا ہے تو بھی زبانی حکم پر اس وقت تک کارروائی نہیں ہوتی جب تک تحریری طور پر کوئی حکم یا درخواست نہ دی جائے۔

قانونی ماہرین کی کیا رائے ہے؟

وکلا سے ایف آئی اے کے اس مؤقف کے حوالے سے سوال کیا گیا تو ان میں سے چند کا کہنا تھا کہ قانون بہت واضح طور پر کہتا ہے کہ ایف آئی اے کے لیے ایسی کوئی چیز لازمی نہیں۔

لاہور یونیورسٹی آف مینیجمنٹ سائنسز سے منسلک اسسٹنٹ پروفیسر انگبین عاطف مرزا نے بی بی سی کو بتایا کہ ایف آئی اے کو کارروائی کا آغاز کرنے کے لیے شکایت کنندہ کی جانب سے درخواست کی ضرورت نہیں۔

عورت مارچ

’انٹرنیٹ پر امن و امان کی خاطر بلاگ پوسٹس کو بند کرنا ہو تو اس کے لیے ایف آئی اے فوراً حرکت میں آ جاتی ہے لیکن جہاں پر عورتوں کو اتنے شدید خطرے کا سامنا ہے، وہاں پر وہ انتہائی سست روی سے کام لے رہے ہیں۔ یہاں پر یہ سوچنا جائز ہے کہ وہ سرکاری ادارے جو متاثرین کی مدد کرنے کے لیے قائم ہیں وہ ان متاثرین کے تحفظ کے لیے اپنے اختیارات سے لاعلمی کا اظہار کرتے ہیں اور دوسری جانب جب ان کی اپنی مرضی ہوتی ہے تو بلا جھجک انہی اختیارات کو استعمال کرتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں متاثرین انصاف اور تحفظ کے لیے کہاں جائیں؟‘

اس بارے میں وکیل اسد جمال کا کہنا ہے کہ اگر حکام کو ایسے واقعات کے بارے میں ’معلومات‘ ملیں تو وہ اس پر قدم اٹھا سکتے ہیں اور متاثرین سے رابطہ کر کے ان کے بیانات ریکارڈ کر سکتے ہیں اور ملزمان پر تفتیش کر کے انھیں عدالت میں پیش کر سکتے ہیں۔

اس بارے میں انھوں نے پاکستان الیکٹرانکس کرائم ایکٹ کی ‘الیکٹرانک فورجری’ کی شق کا حوالہ دیا جس کے مطابق کسی کو نقصان پہنچانے کی نیت سے کوئی بھی فرد کسی مواد میں تبدیلی کرتا ہے تو اس کے لیے سائبر کرائم قانون کے مطابق سات سال تک کی قید یا 50 لاکھ روپے جرمانہ یا دونوں سزائیں ہو سکتی ہیں۔

البتہ چند وکلا کی اس بارے میں رائے ہے کہ ایف آئی اے یہ کہہ سکتی ہے کہ انھیں تفتیش شروع کرنے کے لیے درخواست چاہیے لیکن ماضی میں ایسا ہوتا رہا ہے کہ وفاقی یا صوبائی حکومتوں نے اس حوالے سے خود احکامات جاری کیے ہیں۔

انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ سے منسلک وکیل سروپ اعجاز نے بی بی سی کو بتایا کہ اس کا یہ مطلب نہیں کہ ایف آئی اے کوئی چیز دیکھے اور اس پر از خود کارروائی شروع کر دے کیونکہ یہ بذاتِ خود ایک متنازع عمل بن سکتا ہے۔

’ایسے معاملات میں ہم چاہتے ہیں کہ ایف آئی اے فوری قدم اٹھائے لیکن اس کے لیے یہ ضروری ہے کہ حکومت شکایت کنندہ کا کردار ادا کرے۔ یہ بالکل ممکن ہے اور ماضی میں ایسا ہوتا رہا ہے۔‘

عورت مارچ کی منتظمین کا موقف کیا ہے؟

دوسری جانب عورت مارچ کی منتظمین کا کہنا ہے کہ ان کی جانب سے کوئی شکایت ایف آئی اے میں درج نہیں کروائی گئی نہ ہی ایسے کسی ارادے کا اظہار کیا گیا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ جب ایسا مواد آن لائن موجود ہے تو وہ اس کا پتہ لگائیں کہ اس کے پیچھے کون ہے۔

نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ایک خاتون کا کہنا تھا کہ تمام معلومات عام پلیٹ فارم پر موجود ہیں اور فرانزک تحقیقات میں زیادہ وقت نہیں لگنا چاہیے۔

عورت مارچ

منتظمین نے میڈیا اور ریاستی رویے پر مایوسی کا اظہار کیا اور کہا کہ ان سے تا حال کسی ادارے نے رابطہ نہیں کیا اور ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ معاملے کی چھان بین کرے اور حقائق کو سامنے لائے اور لوگوں کو تحفظ دے۔

بی بی سی سے گفتگو میں منتظمین کا کہنا تھا کہ ہر سال عورت مارچ کے خلاف کچھ نہ کچھ سامنے آتا ہے اور اس سال بھی ایسا ہی کیا گیا۔

پاکستان میں جھوٹے الزامات لگانے والوں کے بارے میں قانون کیا کہتا ہے؟

پاکستان میں جھوٹے الزامات لگانے کے خلاف قوانین کے بارے میں سوال پر پروفیسر انگبین مرزا کا کہنا تھا کہ پاکستان پینل کوڈ کی شق 182 اسی سے متعلق ہے لیکن جھوٹے الزامات پر بہت معمولی سزا دی گئی ہے جبکہ حقیقت میں ان پر عمل درآمد ہوتا ہی نہیں۔

’اب حال ہی میں سائبر کرائم قوانین کے تحت جھوٹے الزامات لگائے جانے پر جو شق ہے اس میں تین سال یا دس لاکھ روپے جرمانے کی سزا ہے لیکن اس سزا کا اطلاق ہوتا نظر نہیں آتا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ویسے تو ہم مردوں کی کیسٹریشن اور اس جیسے سخت گیر اقدامات کے بارے میں باتیں تو کرتے ہیں لیکن معاشرے کی برائیوں کو ختم کرنے اور اس حوالے سے تعلیم دینے کی بات آتی ہے تو وہاں پر کوئی کام ہوتا نظر نہیں آ رہا۔

’کوئی بھی حکومت اس کام میں پڑنا ہی نہیں چاہتی جہاں معاشرے میں توہین مذہب کو استعمال کرتے ہوئے نچلے طبقے یا اقلیتوں کو دبایا جاتا ہے۔ اس میں قطعی کوئی حیرانی کی بات نہیں کہ جن خواتین پر حالیہ الزامات عائد کیے گئے ہیں، وہ اپنے تحفظ کا مطالبہ کر رہی ہیں اور انھیں خود پر جنسی اور جسمانی تشدد کا خدشہ ہے۔ دیکھنا یہ ہوگا کہ یا ریاست اس حوالے سے موجود قوانین کا استعمال کرتی بھی ہے یا نہیں۔‘

وکیل سروپ اعجاز نے بھی کہا کہ پی پی سی کی شق 182 کے تحت جھوٹے الزامات کے خلاف تحقیقات کی جا سکتی ہیں کہ آیا یہ الزامات نہ صرف جھوٹے تھے بلکہ وہ نقصان پہنچانے کی نیت سے کیے گئے تھے یا نہیں۔

انھوں نے بتایا کہ چند برس قبل سرکاری سطح پر یہ بات اٹھی تھی کہ توہین مذہب کے حوالے سے ایسے قوانین بنائے جائیں جس میں جھوٹے الزامات عائد کرنے والے پر بھی وہی سزا مقرر ہو جو توہین مذہب کرنے کی ہے لیکن اس میں اپنے مسائل تھے تاہم وہ قانون بن نہیں سکا۔

ماضی کے کیسز کا حوالے دیتے ہوئے سروپ اعجاز کا کہنا تھا کہ 2013 میں رمشا مسیح کا کیس ایک مثال ضرور ہے جس میں یہ واضح طور پر ثابت ہوا تھا کہ الزام جھوٹا ہے تھا لیکن اس بارے میں کچھ کارروائی نہیں ہوئی۔

’ماضی میں اس کے علاوہ بھی توہین مذہب سے متعلق کئی کیسز ہیں جن میں یہ ثابت ہوا کہ جھوٹے الزامات عائد کیے گئے تھے تاہم الزام عائد کرنے والوں کے خلاف کبھی کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔‘

عورت مارچ کی متنازع بننے والی ویڈیو میں کیا تھا؟

سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ عورت مارچ کے شرکا ایک میدان میں بیٹھے ہیں اور ایک خاتون ’عورت کی آزادی‘ سے متعلق نعرے لگا رہی ہیں۔ اس ویڈیو میں خواتین کے جانب سے بظاہر کہے جانے والے الفاظ سب ٹائٹل کی صورت میں سکرین پر نظر بھی آتے ہیں۔

ویڈیو پر درج تحریر کے مطابق اس کلپ میں کہا جا رہا ہے کہ ’ہم چھین کے لیں گے آزادی، تیرا باپ بھی دے گا آزادی۔‘

اس سے آگے نعرے لگانے والی خاتون کہتی ہے ’عمران بھی سن لے‘ جس کے جواب میں شرکا کہتی ہیں ’آزادی۔‘

اس کے بعد سکرین پر نظر آنے والی سطور میں ’اللہ‘، ’رسول‘ اور ’اولیا‘ جیسے الفاظ بھی دکھائی دیتے ہیں۔

عورت مارچ کراچی کے ٹوئٹر ہینڈل کی جانب سے اس نعرے بازی کی اصل ویڈیو جاری کی گئی ہے جس میں لیے جانے والے ناموں کو واضح طور پر سنا جاسکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32298 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp