!گیم ابھی بھی آن ہے


تحریک انصاف فتح کے ترانے گا رہی ہے۔ میڈیا پر بھی کم و بیش اتفاق پایا جاتا ہے کہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کو سخت جھٹکا لگا ہے ۔ آصف زرداری کا پی ڈی ایم میں شامل دیگر نو جماعتوں، خاص طور پر نواز شریف سے کچھ معاملات پر سخت اختلاف سامنے آیا جس نے لانگ مارچ اور پارلیمنٹ سے اجتماعی استعفوں کو غیر معینہ مدت کے لیے التوا میں ڈال دیا ہے۔

نواز شریف اور مولانا فضل الرحمن چاہتے ہیں کہ پی ڈی ایم قومی اور صوبائی اسمبلیوں سے اجتماعی استعفے دے کر اس ہائبرڈ نظام کو قانونی بحران میں دھکیل دے۔ اُنہیں یقین ہے کہ حکومت جو بھی کرلے، 450 حلقوں میں آزادانہ اور پرامن ضمنی انتخابات نہیں کرا سکتی۔ اس لیے جلد یا بدیر، وہ عوام سے تازہ مینڈیٹ لینے پر مجبور ہوجائے گی۔ عام انتخابات میں پی ڈی ایم میں شریک جماعتیں مسلم لیگ ن کی قیادت میں بھاری انتخابی کامیابی حاصل کرلیں گی کیوں کہ تحریک انصاف اپنی چمک کھو چکی ہے۔ اُنہیں یہ بھی یقین ہے کہ کسی بھی ہنگامے کی صورت میں اسٹبلشمنٹ کے ”نیوٹرل“ہونے کے دعوے پر اعتبار نہیں کیا جاسکتا ۔ وہ اشارہ کرتے ہیں کہ شہباز شریف اور حتیٰ کہ آصف زرداری کے ساتھ کئی ایک ”ڈیل“ کی گئیں لیکن ایفائے عہد نہ ہوا۔

آصف زرداری کی دلیل یہ ہے کہ اگر یہ حکمت عملی کام نہیں دیتی تو پی ڈی ایم کی نو جماعتوں کے پاس کھونے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ اُن کا کوئی نقصان نہیں ہوگا۔ اس وقت وہ سب حکومت سے باہرہیں۔ لیکن کامیابی کی صورت میں اُنہیں زبردست فائدہ ہوگا۔ فوری انتخابات کی صورت میں ن لیگ کی فتح کے امکانات روشن ہیں۔ لیکن اس وقت پیپلز پارٹی کی سندھ میں مستحکم حکومت ہے۔ اس نے ابھی سینٹ میں بہت بڑی تعداد میں سیٹیں حاصل کی ہیں۔ وہ اس کی چیئرمین شپ بھی حاصل کرسکتی ہے۔ اگر وہ ابھی اپنی کشتیاں جلا ڈالے تو اسے زیادہ سے زیادہ دوبارہ سندھ حکومت مل جائے گی۔ قومی اور دیگر صوبائی اسمبلیوں میں اسے موجودہ حصے سے زیادہ ملنے کی توقع نہیں۔ لیکن اگر یہ حکمت عملی ناکام ہوتی ہے تو یہ اپنی موجودہ پوزیشن کو کھو دے گی۔ اس لیے استعفوں کی سیاست میں پیپلز پارٹی کے لیے کچھ نہیں، تاوقتیکہ نواز شریف اگلی قائم ہونے والی حکومت میں اسے کچھ اضافی سیاسی فائدہ پہنچاسکیں۔ یہ فائدہ کیا ہوسکتا ہے؟

آصف زرداری کا کہنا ہے کہ وہ تحریک انصاف کے قومی اور صوبائی اسمبلی کے ممبران کی ایک بڑی تعداد کو اپنی طرف کھینچ سکتے ہیں۔ اس سے پی ڈی ایم 2023 ء تک حکومتیں بنا سکتی ہے۔ لیکن اس کے لیے نواز شریف کو تحریک انصاف کی صفوں سے نکل کر آنے والے ان منخرفین کو ضمانت دینی پڑے گی کہ وہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر، یا آزاد حیثیت میں الیکشن لڑیں تو ن لیگ اُن کے مقابل امیدوار کھڑے نہیں کرے گی۔ لیکن نواز شریف اس پر راضی نہیں کیوں کہ اس کا مطلب ہوگا کہ وہ آئندہ انتخابات میں پنجاب اسمبلی یا قومی اسمبلی کے حلقوں سے اکثریت نہیں لے سکیں گے اور اُنہیں آصف زرداری کے ساتھ اقتدار شیئرکرنا پڑے گا۔ نواز شریف اسمبلی کی باقی مدت کے لیے مخلوط حکومتیں بنانے کے آصف زرداری کے تصور کے بھی حامی نہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ اگر وہ ان مشکل حالات میں حکومت سنبھالتے ہیں اور کارکردگی نہیں دکھا سکتے تو اُنہیں عوام کے غیظ و غضب کا سامنا کرنا پڑے گا۔

آصف زرداری پی ڈی ایم کی قیادت کرتے ہوئے اسٹبلشمنٹ کے سہارے کھڑی تحریک انصاف کی حکومت کے ساتھ گوریلا جنگ کرنا چاہتے ہیں۔ ان کا خیال ہے وہ اس کی فصیلوں میں نقب لگا کر اس کے بندے توڑنے اور اسے کمزور کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ اُنہوں نے حالیہ ضمی اور سینٹ انتخابات میں بہت کامیابی سے یہی کچھ کیا ہے۔ اس کھیل میں پہلے پنجاب اور پھر اسلام آباد میں تحریک عدم اعتماد لاکر طاقت کے ان اہم مراکز پر قبضہ کیا جاسکتا ہے۔ لیکن یہ سٹریٹیجی نوا زشریف کے لیے سازگار نہیں۔ وہ ایسے کسی غیر موثر کولیشن کا حصہ نہیں بننا چاہتے جو مسلم لیگ ن کو اگلے عام انتخابات میں اچھی ساکھ سے محروم کردیں۔ نیز ایسے کسی وسط مدتی بندوبست میں عوامی مقبولیت رکھنے والی دونوں اہم شخصیات، نوا زشریف اور مریم نواز، باہر ہوں گی۔ دوسری طرف زرداری صاحب کو توقع ہے کہ بلاول بھٹو اور پیپلز پارٹی ایسے بندوبست سے بھرپور فائدہ اٹھائیں گے۔

حالیہ سینٹ کامیابی کے ثمرات سے فائدہ اٹھانے کے حوالے سے بھی طرفین میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ اگرپیپلز پارٹی کے یوسف رضا گیلانی سینٹ چیئرمین نہیں بن سکتے تو پیپلز پارٹی قائد حزب اختلاف کا عہدہ چاہتی ہے کیوں کہ اس کے پا س کسی بھی جماعت سے زیادہ نشستیں ہیں۔ لیکن ن لیگ کا کہنا ہے کہ اصل منصوبے میں اس عہدے کا وعدہ اس سے کیا گیا تھا۔ وہ اس سے پیچھے نہیں ہٹے گی۔ پیپلز پارٹی کا کہنا ہے کہ یوسف رضا گیلانی مسلم لیگ ن کے امیدوارں، اعظم تارڑ اور سعدیہ عباسی سے زیادہ موثر اور طاقت ور قائد حزب اختلاف ثابت ہوں گے۔ پیپلز پارٹی شریف خاندان کے وکیل، اعظم تارڑ کوبھی سخت ناپسند کرتی ہے کیوں کہ وہ بے نظیر بھٹو قتل کیس میں ملزم پولیس مین کا دفاع کرنے والے وکیل تھے۔ چنانچہ اسلام آباد یا پنجاب میں مخلوط حکومت سازی کے لیے یہ ماحول کسی طور بھی سازگار نہیں ہے۔

ان حالات میں توقع کی جاسکتی ہے کہ دونوں فریق قدم پیچھے ہٹا کر غور وفکر کریں گے۔ ایک بات طے ہے کہ آنے والے کچھ ماہ تک لانگ مارچ اور استعفوں کا باب بند رہے گا تاوقتیکہ پی ڈی ایم پیپلز پارٹی کے بغیر ہی قدم بڑھانے کا فیصلہ کرلے۔ کوویڈ سے متاثرہ کیسز میں اضافہ ہورہا ہے۔ رمضان بھی قریب ہے۔ اس کے بعد عید کی تعطیلات ہوجائیں گی۔ پھر گرمی اور موسم برسات کی شدت ستمبر اور اکتوبر تک جاری رہے گی۔ تو کیا نوا زشریف اور مولانا ابھی بھی پارلیمنٹ سے باہر نکلنے میں کوئی فائدہ دیکھتے ہیں؟

یہ بعید از قیاس نہیں۔ وہ اُ س وقت تک پارلیمنٹ میں رہ سکتے ہیں جب تک متعلقہ سپیکرز اُن کے استعفے قبول کرنے سے انکار کرتے ہیں اور وہ ہنگامہ برپا کرتے ہوئے کارروائی کو مفلوج کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس دوران وہ ”اصولوں“ کی بنیاد پر مستعفی ہونے کا دعویٰ بھی کرسکتے ہیں۔ وہ پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر تحریک انصاف کی حکومت کو عدم استحکام سے دوچار کرسکتے ہیں، یا اگر پیپلز پارٹی تحریک انصاف کے لیے نرم گوشہ رکھتی دکھائی دی تو اسے شرمندہ بھی کرسکتے ہیں۔ یہ بات تو طے ہے کہ اُن کے پاس کھونے کو کچھ نہیں، اُس تمام کاوش میں اُنہیں کچھ حاصل ہی ہوگا۔ اس صورت حال میں پیپلز پارٹی متحارب قوتوں کے درمیان ہوگی۔ تحریک انصاف اس کا گلا دبانے کی کوشش جاری رکھی گی۔ اسٹبلشمنٹ اس کے ساتھ چالیں چلتی رہے گی۔ اس دوران عوام بھی اس کی موقع پرستی سے بدظن ہوجائیں گے۔

یقینا ہر فریق کو بہت کچھ سوچنا ہے۔ اگر مسلم لیگ ن اسٹبلشمنٹ کی اعلیٰ قیادت کا نام لے کر دوبارہ حملے شروع کردیتی ہے تو لازمی طور بے چینی محسوس کرے گی۔ اپنے گھر کی طرف بھی نگاہ جائے گی۔ عمران خان سے کہا جائے گا کہ حزب اختلاف کا ناطقہ بند کرنے کی بجائے گڈ گورننس پر توجہ دیں۔ اس کے نتیجے میں اختلافات کی لکیر گہری ہوگی۔ آصف زرداری بھی اتحادیوں سے الگ ہوکر دشمنوں کے نشانے پر آنا پسند نہیں کریں گے۔

اس لیے پی ڈی ایم کو پہنچنے والی زک کے باوجود گیم آن ہے۔

بشکریہ: فرائیڈے ٹائمز


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments