میانمار میں عوامی احتجاج جاری: بی بی سی کے صحافی کو حراست میں لے لیا گیا
میانمار میں بی بی سی برمیز سروس کے رپورٹر کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔ ملک میں جمہوری حکومت کے خلاف فوجی بغاوت کے بعد سے عوامی احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔
بی بی سی کے صحافی آنگ تھورا دارالحکومت نیپی وائی آئی ٹاؤ میں ایک عدالت کے باہر رپورٹنگ کر رہے تھے جب انھیں سادہ کپڑوں میں ملبوس افراد اپنے ساتھ لے گئے۔
بی بی سی نے اس بارے میں اپنی شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے مقامی حکام پر زور دیا ہے کہ آنگ تھورا کو ڈھونڈنے میں مدد کی جائے۔
میانمار میں کئی شہروں میں جاری احتجاج کی نئی لہر میں اب تک کم از کم آٹھ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
سادہ کپڑوں میں ملبوس افراد بی بی سی کے آنگ تھورا کے ساتھ تھان آنگ نامی ایک دوسرے رپورٹر کو بھی اپنے چاتھ لے گئے ہیں۔ تھان آنگ مقامی میڈیا کے ایک ادارے میزیما کے لیے کام کرتے ہیں۔ اس ادارے کا لائسنس اس مہینے کے شروع میں فوجی حکومت نے منسوخ کر دیا تھا۔
سادہ کپڑوں میں ملبوس افراد ایک عام وین میں دوپہر کے وقت وہاں پہنچے اور انھوں نے ان صحافیوں سے ملنے پر اصرار کیا۔
اس کے بعد سے بی بی سی کی کوشش کے باوجود آنگ تھورا سے رابطہ نہیں ہو سکا ہے۔
بی بی سی نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ادارے کو میانمار میں اپنے تمام سٹاف کی سلامتی سے متعلق احساس ذمہ داری ہے۔ ’ہم آنگ تھورا کو ڈھونڈنے کے لیے جو ممکن ہو سکتا ہے کر رہے ہیں۔
’ہم حکام سے مطالبہ کرتے ہیں کہ انھیں ڈھونڈنے میں مدد کریں اور اس بات کی تصدیق کریں کہ وہ محفوظ ہیں۔ آنگ تھورا بی بی سی کے صحافی ہیں جنھیں نیپی وائی آئی ٹاؤ میں رپورٹنگ کا کئی برس کا تجربہ ہے۔‘
فوجی بغاوت کے بعد سے اب تک ملک میں 40 صحافیوں کو حراست میں لیا جا چکا ہے۔ جبکہ ملک کی رہنما آنگ سان سوچی سمیت کئی سیاسی رہنما زیرِ حراست ہیں۔
ان 40 صحافیوں میں سے 17 اب بھی زیرِ حراست ہیں اور فوج نے میڈیا کے کئی اداروں کے لائسنس منسوخ کر دیے ہیں۔
لاشوں کی تدفین کرنے والے ایک اہلکار اور مقامی میڈیا کے مطابق جمعے کو احتجاج کے دوران ہلاک ہونے والے آٹھ مظاہرین مرکزی قضبے آنگ بان میں سکیورٹی فورسز کی گولیوں کا نشانہ بنے۔
ایک عینی شاہد نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ سکیورٹی فورسز علاقے میں سڑکوں پر کھڑی کی گئی رکاوٹوں کو ہٹانے کے لیے پہنچیں تو احتجاج کرنے والوں نے مزاحمت کی جس کے بعد سکیورٹی اہلکاروں نے لوگوں پر گولیاں برسائیں۔
رنگون سے آنے والی اطلاعات کے مطابق لوگ تشدد سے بچنے کے لیے شہر سے جانے کی کوشش کر رہے ہیں جس کی وجہ سے سڑکوں پر بہت رش ہے۔
سیاسی اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق فروری میں فوجی بغاوت کے بعد شروع ہونے والے احتجاج میں اب تک 232 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ جبکہ 14 مارچ سب سے خونی دن ثابت ہوا جب 38 افراد ہلاک ہوئے۔
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).