پریم چند کا افسانہ ’قربانی‘


انسان کی حیثیت کا سب سے زیادہ اثر غالباً اس کے نام پر پڑتا ہے، منگرو ٹھاکر جب سے کانسٹبل ہو گئے ہیں،ان کا نام منگل سنگھ ہوگیا ہے۔ اب انھیں کوئی منگرو کہنے کی جرأت نہیں کر سکتا۔ کلو اہیر نے جب سے تھانہ دار صاحب سے دوستی کی ہے اور گاؤں کا مکھیا ہو گیا ہے۔ اس کا نام کالکا دین ہوگیا ہے، اب کوئی کلّو کہے تو وہ آنکھیں لال پیلی کرتا ہے۔ اسی طرح ہرکھ چندکورمی اب ہرکھو ہوگیا ہے، آج سے بیس سال پہلے اس کے یہاں شکر بنتی تھی، کئی ہل کی کھیتی ہوتی تھی۔ کاروبار خوب پھیلا ہوا تھا، لیکن بدیسی شکر کی آمد نے اسے اتنا نقصان پہونچایا کہ رفتہ رفتہ کارخانہ ٹوٹ گیا۔ ہل ٹوٹ گئے۔ کاروبار ٹوٹ گیا۔ زمین ٹوٹ گئی اور وہ خود ٹوٹ گیا۔ ستر برس کا بوڑھا ایک تکیہ دار ماچے پر بیٹھا ہوا ناریل پیا کرتا تھا۔ اب سر پر ٹوکر لے کے کھاد پھینکنے جاتا ہے۔

لیکن اس کے انداز میں اب بھی ایک خودداری، چہرہ پر اب بھی متانت، گفتگو میں اب بھی ایک شان ہے۔ جس پر گردشِ ایام کا اثر نہیں پڑا۔ رسی جل گئی پر بل نہیں ٹوٹا۔ ایامِ نیک انسان کے اطوار پر ہمیشہ کے لیے اپنی مہر چھوڑ جاتے ہیں، ہرکھو کے قبضہ میں اب صرف پانچ بیگھہ زمین ہے صرف دوبیل ہیں، ایک ہل کی کھیتی ہوتی ہے۔ لیکن پنچائتوں میں باہمی نزاع کے فیصلوں میں اس کی رائیں اب بھی وقعت کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہیں،وہ جو بات کہتا ہے بے لاگ کہتا ہے، اس گاؤں کےنو بڑھئے اس کے مقابلہ میں زبان نہیں کھولتے۔

ہرکھو نے اپنی زندگی میں کبھی دوا نہیں کھائی، وہ بیمار ضرور پڑتا تھا۔ کنوار کے مہینہ میں جب ملیریا بخار کا دورہ ہوتا تو سب سے پہلے اس کا اثر ہرکھو ہی پر ہوتا۔ لیکن ہفتہ عشرہ میں وہ بلا دوا کھائے ہی چنگا ہو جاتا تھا۔ اب کے بھی وہ حسبِ معمول بیمار پڑا اور دوا نہ کھائی، لیکن بخار اب کی موت کا پروانہ لے کر چلا تھا۔ ہفتہ گزرا۔ دو ہفتے گزرے۔ مہینہ گزر گیا اور ہرکھو چار پائی سے نہ اٹھا۔ اب اسے دوا کی ضرورت معلوم ہوئی۔ اس کا لڑکا گردھاری بھی نیم کے سینکے پلاتا۔ کبھی گرچ کا عرق۔ کبھی گت بورنا کی جڑ۔ لیکن اس کو کچھ فائدہ نہ ہوتا تھا۔ ایک دن منگل سنگھ کانسٹبل ہرکھو کے پاس بیمار پرسی کے لیے گئے۔ غریب ٹوٹی کھاٹ پر بیٹھا رام نام جپ رہا تھا۔ منگل سنگھ نے کہا، ’’بابا کوئی دوا کھائے بغیر بیماری نہ جائے گی۔ کونین کیوں نہیں کھاتے۔‘‘

ہرکھو نے توکلانہ انداز سے کہا، ’’تو لیتے آنا۔‘‘

دوسرے دن کالکا دین نے جا کر کہا، ’’بابا دو چار دن کوئی دوا کھا لو اب تمہارے بدن میں وہ بوتا تھوڑے ہی ہے کہ بنا دوا درپن کے اچھے ہو جاؤ۔‘‘

ان سے بھی ہرکھو نے سائلانہ انداز سے کہا، ’’تو لیتے آنا۔‘‘

لیکن یہ رسمی عیادتیں تھیں ہمدردی سے خالی، نہ منگل سنگھ نے خبر لی، نہ کالکا دین نے۔ نہ کسی دوسرے نے۔ ہرکھو اپنے برآمدے پر کھاٹ پر پڑا معلوم نہیں کس خیال میں غرق رہتا۔ منگل سنگھ کبھی نظر آ جاتے تو کہتا، ’’بھیا وہ دوا نہیں لائے۔‘‘ منگل سنگھ کترا کر نکل جاتے۔ کالکا دین دکھائی دیتے تو ان سے بھی یہی سوال کرتا۔ لیکن وہ بھی نظر بچا جاتے، یا تو اسے یہ سوجھتا ہی نہیں تھا کہ دوا دارو بغیر پیسوں کے نہیں آتی۔ یا وہ پیسے کو جان سے بھی سوا عزیز سمجھتا تھا۔ یا اس کا یہ فلسفہ دوا دارو میں مانع تھا کہ جب بھوگ پورا ہو جاوے گا تو بیماری خود بخود چلی جائے گی۔ اس نے کبھی قیمت کا ذکر نہیں کیا اور دوا نہ آئی۔

اس کی حالت ردی ہوتی گئی۔ یہاں تک کہ پانچ مہینہ تک دکھ جھیلنے کے بعد وہ عین ہولی کے دن اس دنیا سے رخصت ہو گیا۔ گردھاری نے لاش بڑی دھوم دھام سے نکالی۔ کریا کرم بڑے حوصلہ سے کیا، کئی گاؤں کے براہمنوں کو بھوج دیا سارے گاؤں نے ماتم منایا۔ ہولی نہ منائی گئی۔ نہ عبیر اور گلال اڑی، نہ دف کی صدا بلند ہوئی، نہ بھنگ کے پرنالے چلے،کچھ لوگ دل میں بڈھے کو کوستے ضرور تھے کہ اسے آج ہی مرنا تھا، دو ایک دن بعد کو مرتا۔ لیکن اتنا بے غیرت کوئی نہ تھا کہ غم میں جشن کرتا۔وہ شہر نہیں تھا جہاں کوئی کسی کا شریک نہیں ہوتا۔ جہاں ہمسایہ کے نالہ و زاری کی صدا ہمارے کانوں تک نہیں پہنچتی۔

ہرکھو کے کھیت گاؤں والوں کی آنکھوں پر چڑھے ہوئے تھے۔ پانچوں بیگھہ زمین، کنویں قریب، زرخیز، کھاد پانس سے لدی ہوئی، مینڈ باندھ سے درست تھی۔ اس میں تین تین فصلیں پیدا ہوتی تھیں، ہرکھو کے مرنے سے ان پر چاروں طرف سے یورش ہونے لگی۔ گردھاری کریا کرم میں مصروف تھا اور گاؤں کے متمول کاشتکار لالہ اونکارناتھ کو چین نہ لینے دیتے تھے، نذرانہ کی بڑی بڑی رقمیں پیش کی جاتی تھیں، کوئی سال بھر کا لگان پیشگی ادا کرنے کو تیار تھا، کوئی نذرانہ کی دوگنی رقم کا دستاویز لکھنے کو آمادہ، لیکن اونکارناتھ ان سبھوں کو لطائف الحیل سے ٹالتے رہتے تھے ۔ ان کا خیال تھا کہ گردھاری کے باپ نے ان کھیتوں کو بیس سال تک جوتا ہے اور ان پر گردھاری کا حق سب سے زیادہ ہے ، وہ اگر دوسروں سے کم نذرانہ بھی دے تو یہ زمین اسی کے نام رہنی چاہیے۔ چنانچہ جب گردھاری کریا کرم سے فرصت پا چکا اور چیت کا مہینہ ختم ہونے کو آیا تو اونکارناتھ نے گردھاری لال کو بلوایا اور اس سے پوچھا، ’’کھیتوں کے بارے میں کیا کہتے ہو۔‘‘

گردھاری نے رو کر کہا، ’’حضور انہیں کھیتوں ہی کا تو آسرا ہے، جوتوں گا نہ تو کیا کروں گا۔‘‘

اونکار ناتھ، ’’نہیں تو میں تم سے کھیت نکالنے کو تھوڑے ہی کہتا ہوں۔ ہرکھو نے بیس سال تک انھیں جوتا اور کبھی ایک پیسہ باقی نہیں رکھا۔ تم ان کے لڑکے ہو اور تمہارا اس زمین پر حق ہے، لیکن تم دیکھتے ہو اب زمین کا در کتنا بڑھ گیا ہے، تم آٹھ روپیہ بیگھہ پر جوتتے تھے۔ مجھے دس روپیہ بیگھہ مل رہے ہیں اور نذرانہ کے سو روپیہ الگ ہیں تمھارے ساتھ رعایت کر کے لگان وہی رکھتا ہوں لیکن نذرانہ کے روپیہ تمھیں دینے پڑیں گے۔‘‘

گردھاری، ’’سرکار میرے گھر میں تو اس وقت روٹیوں کا بھی ٹھکانا نہیں ہے۔اتنے روپیے کہاں سے لاؤں گا، جو کچھ جمع جتھا تھا، وہ دادا کے کریاکرم میں خرچ ہو گئی، اناج کھلہان میں ہے، لیکن دادا کے بیمار ہو جانے سے اب کی ربیع بھی اچھی نہیں ہوئی۔میں روپیہ کہاں سے لاؤں۔‘‘

اونکارناتھ، ’’ہاں زیربِار تو تم ہو رہے ہو تم نے کریا کرم خوب دل کھول کر کیا، لیکن یہ تو دیکھوکہ میں اتنا نقصان کیسے برداشت کر سکتا ہوں۔میں تمھارے ساتھ دس روپیہ سال کی رعایت کر رہا ہوں یہ کیا کم ہے۔‘‘

گردھاری، ’’نہیں سرکار آپ ہماری بڑی پرورش کر رہے ہیں، تم نے سدا سے ہمارے اوپردَیا کی ہے، لیکن اتنا نجرانہ میرے لئے نہ ہو گا۔ میں آپ کا گریب اسلامی ہوں، دیس میں رہوں گا تو جنم بھر آپ کی گلامی کرتا رہوں گا،بیل بدھیا بیچ کر پچاس روپیہ حاجر کروں گا۔ اس سے بیشی کی میری ہمت نہیں پڑتی، آپ کو نارائن نے بہت کچھ دیا ہے، اتنی پرورش اور کیجیے۔‘‘

اونکارناتھ کو گردھاری کا یہ انکار ناگوار گزرا، وہ اپنی دانست میں اس کے ساتھ ضرورت سے زیادہ رعایت کر چکے تھے، کوئی دوسرا زمیندار اتنی رعایت بھی نہ کرتا۔ بولے، ’’تم سمجھتے ہو گے کہ یہ روپیہ لے کر ہم اپنے گھر میں رکھ لیتے ہیں اور خوب چین کی بنسی بجاتے ہیں۔لیکن ہمارے اوپر جو کچھ گزرتی ہے وہ ہمیں جانتےہیں، کہیں چندہ، کہیں نذرانہ، کہیں انعام، کہیں اکرام، ان کے مارے ہمارا کچومر نکلا جاتا ہے، پھر ڈالیاں علیحدہ دینی پڑتی ہیں جسے ڈالی نہ دو وہی منہ پھلاتا ہے۔ ہفتوں اسی فکر میں پریشان رہتا ہوں، صبح سے شام تک بنگلوں کا چکر لگاؤ۔ خانساماؤں اور اردلیوں کی خوشامد کرو، جن چیزوں کے لیے لڑکے ترس کر رہ جاتے ہیں، وہ منگا منگا کے ڈالیوں میں لگاتا ہوں، اگر نکروں تو مشکل ہوجائے،کبھی قانون گو آ گئے، کبھی تحصیلدار آ گئے، کبھی ڈپٹی صاحب کا لشکر آ گیا، ان سب کی مہمانی نہ کروں تو نکّو بنوں۔ سال میں ہزار بارہ سو روپیہ انہیں باتوں میں خرچ ہو جاتے ہیں، یہ سب کہاں سے آئے اس پر اپنے گھر کا خرچ، بس یہی جی چاہتا ہے کہ گھر چھوڑ کے نکل جاؤں، یہ زمین کیا ہے جی کا جنجال ہے، ساری زندگی عملوں کی خوشامد اور خاطر داری میں کٹی جاتی ہے۔ یہ نہ ہوتی تو کہیں چلا جاتا! چار پیسے کماتا اور بےفکری کی نیند سوتا۔

ہم زمینداروں کو غریبوں کا گلا دبانے کے لیے ایشور نے اپنا پیادہ بنایا ہے یہی ان کا کام ہے۔ ادھر گلا دبا کے لینا،ادھر رو رو کے دینا۔ لیکن تم لوگ یہی سمجھتے ہو کہ سب ہمارے ہی گھر میں آتا ہے۔ تمھارے ساتھ اتنی رعایت کر رہا ہوں لیکن تم اتنے پر بھی خوش نہیں ہوتے تو بھئی تمھیں اختیار ہے۔

نذرانہ میں ایک پیسہ کی بھی رعایت نہ ہو گی۔ چیت ختم ہو رہا ہے۔ اگر ایک ہفتہ کے اندر روپیہ داخل کر دو گے تو کھیت جوتنے پاؤ گے نہیں تو میں کوئی دوسرا بندوبست کروں گا۔‘‘

گردھاری اداس اور مایوس گھر آیا۔ سو روپیہ کا انتظام اس کے قابو سے باہر تھا۔ سوچنے لگا کہ اگر دونوں بیل بیچ دوں توکھیت ہی لےکر کیا کروں گا۔ گھر بیچوں تو یہاں لینے والا ہی کون ہے؟ اور پھر باپ داداؤں کا نام جاتا ہے، چار پانچ پیڑ ہیں،لیکن انہیں بیچ کر یہاں پچیس تیس روپیہ ملیں گے، اس سے زیادہ نہیں، قرض مانگوں تو دیتا ہی کون ہے، ابھی برہم بھوج کے آٹے گھی کے پچاس روپیہ بنیے کے آتے ہیں وہ اب ایک پیسہ بھی اور نہ دے گا، اس کے پاس گہنے بھی تو نہیں ہیں، نہیں وہی بیچ کر روپیہ لاتا۔ لے دے کے ایک ہنسلی بنوائی تھی وہ بھی بنیے کے گھر پڑی ہوئی ہے۔ سال بھر بیت گئے۔ چھڑانے کی نوبت نہ آئی۔ گردھاری اور اس کی بیوی سبھاگی دونوں ہی اسی فکر میں رات دن غلطاں و پیچاں رہتے ہیں لیکن کوئی تدبیر نظر نہ آتی تھی۔

گردھاری کو کھانا پینا اچھا نہ لگتا۔ راتوں کو نیند نہ آتی۔ ہر دم دل پر ایک بوجھ سا رکھا رہتا۔ کھیتوں کے نکلنے کا خیال کرتے ہی اس کے جگر میں ایک آگ سی لگ جاتی تھی۔ ہائے وہ زمین جسے ہم نے بیس برس جوتا۔ جسے کھاد سے پاٹا جس میں میڑیں رکھیں ،جس کی مینڈیں بنائیں ان کا مزہ اب دوسرا اٹھائےگا۔

کھیت اس کی زندگی کا جزو بن گئے تھے، اس کی ایک ایک انگل زمین اس کے خون جگر سے رنگی ہوئی تھی۔ اس کا ایک ایک ذرہ اس کے پسینہ سے تر ہو رہا تھا۔ ان کے نام اس کی زبان پر اس طرح آتے تھے، جیسے اپنے تینوں بچوں کے۔ کوئی چوبیسو تھا۔کوئی بائسو تھا۔کوئی نالے پر والا۔ کوئی تلیّا والا۔ ان ناموں کے آتے ہی کھیتوں کی تصویر اس کی آنکھوں کے سامنے آ جاتی تھی۔ وہ ان کھیتوں کا اس طرح ذکر کرتا تھا گویا وہ ذی روح ہیں۔ گویا وہ جاندار ہستیاں ہیں اس کی ہستی کے سارے منصوبے، سارے ہوائی قلعہ، ساری من کی مٹھائیاں، ساری آرزوئیں سارے حوصلے انھیں کھیتوں سے وابستہ تھے۔ ان کھیتوں کے بغیر وہ اپنی زندگی کا خیال ہی نہیں کر سکتا تھا۔وہ اب ہاتھ سے نکلے جاتے ہیں۔وہ گھر سے ایک حسرتناک وحشت کے عالم میں نکل جاتا اور گھنٹوں کھیتوں کی مینڈھ پر بیٹھا ہوا رویا کرتا۔ گویا ان سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہو رہا ہے۔

اس طرح ایک پورا ہفتہ گزر گیا اور گردھاری روپیہ کا کوئی انتظام نہ کر سکا۔ آٹھویں دن اسے معلوم ہوا کہ کالکا دین نے انھیں سو روپیہ نذرانہ دے کر دس روپیہ بیگھہ پر لے لیا ہے۔

گردھاری نے ایک ٹھنڈی سانس لی اور اس کی آنکھیں آب گوں ہو گئیں۔ ایک لمحہ کے بعد وہ اپنے دادا کا نام لے کر زار زار رونے لگا۔ گھر میں ایک کہرام مچ گیا۔

اس دن گھرمیں چولھا نہیں جلا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا گویا ہرکھو آج مرا ہے۔ اس کی موت کا صدمہ آج ہورہا تھا۔

لیکن سبھاگی یوں تقدیر پر شاکر ہونے والی عورت نہ تھی۔ وہ خانہ جنگیوں میں اکثر زبان کے تیر و تفنگ سے غالب آ جایا کرتی تھی۔ ان اسلحہ کی تاثیر کی وہ قائل تھی۔ وہ سمجھتی تھی کہ ہر ایک میدان میں وہ یکساں کاٹ کرتے ہیں۔ اس میں وہ متانت نہیں تھی جو خطرہ کو اپنی قوت سے باہر دیکھ کر توکل کی پناہ لیتی ہے وہ غصہ میں بھری ہوئی کالکا دین کے گھر گئی اور اس کی بیوی کو خوب صلواتیں سنائیں، ’’کل کا بانی آج کا سیٹھ، کھیت جوتنے چلے ہیں۔ دیکھوں گی کون میرے کھیت میں ہل لے جاتا ہے۔ اپنا اور اس کا لہو ایک کر دوں۔ روپیہ کا گھمنڈ ہوا ہے تو میں یہ گھمنڈ توڑ دوں گی۔‘‘

پڑوسیوں نے اس کی حمایت کی، ‘‘سچ تو ہے آپس میں یہ چڑھا اوپری نہیں چاہیے۔ نارائن نے دھن دیا ہے تو کیا گریبوں کو کچلتے پھریں گے۔’’ سبھاگی نے سمجھا میں نےمیدان مار لیا۔ لیکن وہی ہوا جو پانی میں تلاطم پیدا کرتی ہے۔ درختوں کو جڑ سے اکھاڑ ڈالتی ہے۔ سبھاگی تو پڑوسیوں کے گھر میں بیٹھی ہوئی اپنےدکھرے روتی اور کالکا دین کی بیوی سے چھیڑ چھیڑ کر لڑتی اور گردھاری اپنے دروازے پر اداس بیٹھا ہوا سوچتا کہ اب میرا کیا حال ہو گا۔

اب یہ زندگی کیسے پار لگے گی۔ یہ لڑکےکس دروازہ پر جائیں گے۔ مزدوری کے خیال ہی سےاس کے دل میں ایک درد اٹھنے لگتا تھا۔ مدتوں آزادانہ باعزّت زندگی بسر کرنے کے بعد مزدوری اس کی نگاہ میں موت سے بدتر تھی۔ وہ اب تک گرہست تھا۔ گاؤں میں اس کا شمار بھلے آدمیوں میں ہوتا تھا، اسے گاؤں کے معاملات میں بولنے کا حق حاصل تھا۔اس کے گھر میں دولت نہ ہو لیکن وقار تھا۔ نائی اور بڑھئی اور کہار اور پروہت اور چوکیدار سب کے سب اس کے اس نمک خوار تھے۔ اب یہ عزت کہاں، اب کون اس کی بات پوچھے گا؟ کون اس کے دروازے پر آئے گا۔ اب اسے کسی کے برابر بیٹھنے کا کسی کے بیچ میں بولنے کا حق نہیں ہے!

اب اسے پیٹ کے لیے دوسروں کی غلامی کرنے والا مزدور بننا پڑے گا۔ اب پھر رات رہے کون بیلوں کو ناندیں لگائے گا۔ کون ان کے لیے چھانٹا کٹائے گا؟ وہ دن اب کہاں جب گیت گا گا کر ہل جوتتا تھا۔ چوٹی سے پسینہ ایڑی تک آتا تھا۔ لیکن ذرا بھی تھکن نہ معلوم ہوتی تھی۔ اپنے لہلہاتے ہوئے کھیتوں کو دیکھ کر پھولا نہ سماتا تھا۔ کھلیان میں اناج کے انبار سامنے رکھے ہوئے وہ سنسار کا راجہ معلوم ہوتا تھا۔ اب کھلیان سے اناج کے ٹوکرے بھر بھر کر کون لائے گا۔ اب کھانے کہاں، بکھار کہاں، اب یہ دروازہ سونا ہو جائے گا۔ یہاں گرد اڑے گی اور کتّے لوٹیں گے ، دروازے پر بیلوں کی پیاری پیاری صورت دیکھنے کو آنکھیں ترس جائیں گی۔ ان کو آرزومند آنکھیں کہاں دیکھنےکو ملیں گی دروازے کی سوبھانہ رہے گی۔

اس حسرتناک خیال کے آتے ہیں گردھاری کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگتے تھے۔ اس نے دوسروں کے گھر آنا جانا چھوڑ دیا۔ بس حسرت اور ملال میں محو بیٹھا رہتا۔ گاؤں کے دو چار آدمی جو کالکا دین سے حسد رکھتے تھے اس کے ساتھ ہمدردی کرنے آتے پر وہ ان سے بھی کھل کر نہ بولتا۔ اسے ایسا معلوم ہوتا تھا گویا میں سب کی نگاہوں میں گر گیا ہوں۔ اگر کوئی اسے سمجھاتا کہ تم نے کریاکرم میں ناحق اتنے روپے اڑا دیے تو اسے بہت ناگوار گزرتا تھا۔ وہ اپنی اس حرکت پر ذرا بھی نہ پچھتاتا تھا۔ کہتا میرے بھاگ میں جو کچھ لکھا ہے وہ ہو گا لیکن دادا کے رن سے تو ارن ہو گیا۔ ان کی آتما کو تو کوئی دکھ نہیں ہوا۔انھوں نے اپنی زندگی میں تو چار کو کھلا کر کھایا۔ کیا مرنے کے بعد میں انہیں پنڈے پانی کو ترساتا۔

اسی طرح تین مہینہ گزر گئے اور اساڑھ آ پہونچا۔ آسمان میں گھٹائیں آئیں۔ پانی گرا۔ زمین میں ہریالی آگئی۔ تال اور گڈھے لہرانے لگے۔ بڑھئی سب کسانوں کے دروازے پر آ آ کر ہلوں کی مرمت کرتا تھا۔ جوئے بناتا تھا۔ گردھاری دل میں مسوس کر رہ جاتا۔ پاگلوں کی طرح کبھی اندر جاتا۔ کبھی باہر۔ اپنے ہلوں کو نکال نکال کر دیکھتا اس کی مٹھیا ٹوٹ گئی ہے۔ اس کی پہار ڈھیلی ہوگئی ہے۔ جوے میں سیل نہیں ہے۔ یہ دیکھتے دیکھتے وہ ایک لمحہ کے لیے اپنے کو بھول گیا۔ دوڑا ہوا بڑھئی کے پاس گیا اور بولا رجو! میرے ہل بھی بگڑے ہوئے ہیں آج انھیں بنا دینا۔ رجّو نے اس کی طرف رحم اور تعجب کی نگاہ سے دیکھا اور اپنا کام کرنے لگا۔ گردھاری کو بھی ہوش ہو گیا۔ نیند سے چونک پڑا شرم سے اس کا سر جھک گیا۔ آنکھیں بھر آئیں چپ چاپ گھر چلا آیا۔ گاؤں میں چاروں طرف ہل چل مچی ہوئی تھی۔ کوئی سن کے بیج ڈھونڈھتا پھرتا تھاکوئی زمیندار کے چوپال سے دھان کے بیچ لیے آتا تھا۔ کہیں صلاح ہوتی تھی کہ کھیت میں کیا بونا چاہیے۔ کہیں چرچے ہوتے تھے کہ پانی بہت برس گیا۔دو چار دن ٹھہر کے بونا چاہیے۔ گردھاری سارے تماشے دیکھتا تھا۔سارے چرچے سنتا تھا اور ماہیٔ بے آب کی طرح تڑپ تڑپ کر رہ جاتا تھا۔

ایک دن شام کے وقت گردھاری کھڑا اپنے بیلوں کو کھجا رہا تھا۔ آج کل اس کا بہت سا وقت بیلوں ہی کی داشت میں صرف ہوتا تھا کہ منگل سنگھ آئے اور ادھر ادھر کی باتیں کرکے بولے، ’’اب گوئیں کو باندھ کر کب تک کھلاؤ گے۔ نکال کیوں نہیں دیتے۔‘‘ گردھاری نے افسردگی کے ساتھ کہا، ’’ہاں کوئی گاہک آ جائے تو نکال دوں گا۔‘‘

منگل سنگھ، ’’ہمیں کو دے دو۔‘‘

گردھاری نے آسمان کی طرف تاک کر کہا، ’’تمہیں لے جاؤ اب یہ میرےکس کام کے ہیں۔‘‘

ان الفاظ میں کتنی مایوسی کتنی حسرت تھی۔ اب تک گردھاری نے ایک موہوم امید پر کسی غیبی امداد کےبھروسے پر انہیں باندھ کر کھلایا تھا۔ آج امید کا وہ خیالی تار بھی ٹوٹ گیا۔مول جول ہوا۔ گردھاری نے دونوں بچھڑے چالیس روپیہ میں لیے تھے۔ اب وہ اسّی سے کم کے نہ تھے۔ منگل سنگھ نے صرف پچاس روپیہ لگائے لیکن گردھاری اس پر راضی ہو گیا۔ اس کے دل نے کہا جب گرہستی ہی لٹ رہی ہے۔ تو کیا دس زیادہ کیا دس کم۔منگل سنگھ نے منہ مانگی مراد پائی دوڑ کر گھر سے روپیہ لائے۔

وہ گردھاری کے کھاٹ پر بیٹھے ہوئے روپیہ گن رہے تھے اور گردھاری بیلوں کے پاس کھڑا دردناک انداز سے ان کے منہ کی طرف تاکتا تھا۔ یہ میرے کھیتوں کے کمانے والے،میرا مان رکھنے والے، میرے ان داتا، میری زندگی کے اَدھار، جن کے دانے اور کھلی کی اپنے کھانے سے زیادہ فکر رہتی تھی۔ جن کے لیے گھڑی رات رہے جاگ کر چارہ کاٹتا تھا، جن کے لیے بچے کھیتوں کی ہریالی کاٹتے تھے، یہ میری امیدوں کی دو آنکھیں، میری آرزوں کے دو تارے، میرے اچھے دنوں کی دو یادگاریں، یہ میرےدو ہاتھ اب مجھ سے رخصت ہورہے ہیں اور مٹھی بھر روپیوں کے لیے۔

آخر منگل سنگھ نے روپیے گن کر رکھ دیے اور بیلوں کو کھول کر لے چلے تو گردھاری ان کے کندھوں پر باری باری سر رکھ کر خوب پھوٹ پھوٹ کر رویا۔ جیسے میکے سے بدا ہوتے وقت لڑکی مان باپ کے پیروں کو نہیں چھوڑتی۔ اسی طرح گردھاری ان بیلوں سے چمٹا ہوا تھا جیسے کوئی ڈوبتا ہوا آدمی کسی سہارے کو پا کر اس سے چمٹ جائے۔ سبھاگی بھی دالان میں کھڑی روتی تھی اور چھوٹا لڑکا جس کی عمر پانچ سال کی تھی منگل سنگھ کو ایک بانس کی چھڑی سے مار رہا تھا۔

رات کو گردھاری نے کچھ نہیں کھایا اور چار پائی پر پڑ رہا۔ لیکن صبح کو اس کا کہیں پتہ نہیں تھا۔ ادھر مہینوں سے وہ کسی کے گھر نہ جاتا تھا۔ سبھاگی کو اندیشہ ہوا، تاہم وہ امید کے خلاف امید کرتی رہی کہ آتے ہوں گے۔ لیکن جب آٹھ نو بجے اور وہ نہ لوٹا تو اس نے رونا دھونا شروع کیا۔

گاؤں کے بہت سے آدمی جمع ہوگئے۔ چاروں طرف کھوج ہونے لگی۔ لیکن گردھاری کا پتہ نہ چلا۔ لیکن ابھی تک آس میں کچھ جان تھی۔ اس لیے چوڑیاں نہ توڑیں ماتم نہ کیا۔ شام ہوگئی تھی اندھیرا چھا رہا تھا۔ سبھاگی نے دیا لا کر گردھاری کی چارپائی کے سرہانے رکھ دیا تھا اور بیٹھی دروازے کی طرف تاک رہی تھی۔ گودکی لڑکی سو رہی تھی اور چھوٹا لڑکا ضد کر رہا تھا کہ دادا کو بلا دے وہ کہاں گیا ہے کیوں نہیں آتا؟ کہ یکایک سبھاگی کو پیروں کی ہٹ معلوم ہوئی۔ سبھاگی کے کلیجہ میں مسرت کا دھماکا ہوا دروازے کی طرف دوڑی۔ لیکن چارپائی خالی تھی۔ اس نے باہر نکل کر جھانکا۔ اس کا کلیجہ دھک دھک کرتا تھا۔ اس نے دیکھا کہ گردھاری بیلوں کی ناند کے پاس چپ چاپ سر جھکائے کھڑا رو رہا ہے۔ سبھاگی بول اٹھی، ‘‘گھر میں آؤ وہاں کھڑے کیا کر رہے ہو۔ سارے دن حیران کر ڈالا۔’’ یہ کہتی ہوئی وہ گردھاری کی طرف تیزی سے چلی، گردھاری نے کچھ جواب نہ، دیا وہ پیچھے ہٹنے لگا اور تھوڑی دور جاکر غائب ہو گیا۔ سبھاگی نے ایک چیخ ماری اور غش کھا کر گر پڑی۔

اسی دن نور کے تڑکے کالکا دین مہتو ہل لےکر اپنے ایک نئے کھیت میں پہونچے۔ ابھی کچھ اندھیرا تھا۔ وہ بیلوں کو ہل میں لگا رہے کہ یکایک انھوں نے دیکھا کہ کھیت کی مینڈ پر گردھاری کھڑا ہے۔ وہی مرزائی، وہی پگڑی وہ سر جھکائے ہوئے تھا۔ کالکا دین نے کہا، ’’ارے گردھاری! مرد آدمی تم یہاں کھڑے ہو اور بیچاری سبھاگی حیران ہو رہی ہے، کہاں سے آ رہے ہو۔‘‘ یہ کہتا ہوا وہ بیلوں کو چھوڑ کر گردھاری کی طرف چلا،مگر گردھاری پیچھے ہٹنے لگا اور جاتے جاتےپیچھےکی طرف والے کنوئیں میں کود پڑا۔ کالکا دیں نے چیخ ماری۔ ہل وَل وہیں چھوڑ کر بے تحاشا گھر کی طرف بھاگے۔

لیکن انھوں نے اپنے ہلواہوں سے یہ راز نہ بتلایا۔ دوسرے دن اپنے ایک جھینگر ہلواہے کو اس کھیت میں بھیجا۔ شام ہو گئی سب کے ہل بیل آگئے لیکن جھینگر کھیت سے نہ لوٹا۔گھڑی رات ہوئی۔ اس کا کہیں پتہ نہیں۔ کالکا دیں گھبرائے گاؤں کے دو تین آدمیوں کے ساتھ کھیت میں آئے۔ دیکھا کہ دونون بیل ایک طرف گرے ہوئے ہیں اور جھینگر دوسری طرف بے سدھ پڑا ہوا ہے اسے بہت سہلایا بلایا۔ لیکن اسے ہوش نہ آیا۔دو تین آدمی اسے لاد کر گھر لائے۔ بیلوں کو دیکھا تو ان کے پیروں سےخون نکل رہا تھا۔لوگ سمجھ گئے کہ جب جھینگر گر پڑا ہو گا تو دونوں بیل آپس میں کھینچا تانی کرنے لگے ہوں گے ہل میں جتے تھے ہی۔ پھال پیروں میں لگ گئی ہو گی۔ جھینگر، رات بھر ہذیان بکتا رہا۔ صبح کو جا کر اسے ہوش آیا۔ اس نے کہا میں نے پورب والے کنوئیں پاس گردھاری کو کھڑے دیکھا۔ کئی بار بلا یا لیکن وہ نہ بولا تب میں اس کی طرف چلا۔ بس وہ اس کنوئیں میں کود پڑا پھر مجھے ہوش نہیں کہ کیا ہوا۔سارے گاؤں میں مشہور ہوگیا۔ طرح طرح کے چرچے ہونے لگے۔ لیکن اس دن سے پھر کالکا دین کو ان کھیتوں کے قریب جانے کی ہمت نہ پڑی۔ شام ہوتے ہی ادھر کا راستہ بند ہو جاتا۔

اس واقعہ کو آج چھ ماہ ہوگئے ہیں۔ گردھاری کا بڑا لڑکا اب اینٹ کے بھٹے پر کام کرتا ہے اور روزانہ دس بارہ آنے گھر لاتا ہے۔ وہ اب قمیض اور انگریزی جوتا پہنتا ہے۔ گھر میں ترکاری دونوں وقت پکتی ہے اور جوار کی جگہ گیہوں اور چاول خرچ ہوتا ہے لیکن گاؤں میں اب اس کا کچھ وقار نہیں ہے وہ مجورا ہے۔

سبھاگی کی تیزی اور تمکنت رخصت ہو گئی ہے۔ آگ کی چنگاری راکھ ہو گئی ہے اب وہ کسی کو جلا نہیں سکتی۔ اسے ہوا کا ایک ہلکا سا جھونکا منتشر کر سکتا ہے۔ پرائے گاؤں میں آئے ہوئے وہ کتے کی طرح دبکی پڑی ہے۔ وہ اب پنچائتوں میں نظر نہیں آتی۔ اب نہ اس کا دربار لگتا ہے نہ اسے کسی دریار میں دخل ہے۔ وہ اب مجبوری کی مان ہے۔ لیکن اب تک گردھاری کا کریا کرم نہیں ہوا۔ آس مر گئی ہے لیکن اس کی یاد باقی ہے۔ کالکا دین نے اب گردھاری کے کھیتوں سے استعفا دے دیا ہے کیونکہ گردھاری کی روح ابھی تک اپنے کھیتوں کے چاروں طرف منڈلاتی رہتی ہے۔ وہ کسی کو نقصان نہیں پہونچاتی۔ اپنے کھیتوں کو دیکھ کر اسے تسکین ہوتی ہے۔ انکار ناتھ بہت کوشش کرتے ہیں کہ زمین اٹھ جائے۔ لیکن گاؤں کے لوگ اب اس کی طرف تاکتے ہوئے ڈرتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments