سندھ میں صحافیوں کے خلاف دہشت گردی اور غداری کے مقدمات کیوں درج ہو رہے ہیں؟


فائل فوٹو
کراچی — عاشق جتوئی سندھ کے ضلع سکھر کی تحصیل پنو عاقل میں صحافی ہیں۔ اور گزشتہ 15 برس سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ اس دوران انہوں نے کئی اردو اور سندھی اخبارات کے علاوہ نیوز چینلز کے لیے بھی کام کیا ہے۔ عاشق جتوئی کا کہنا ہے کہ انہیں 31 جولائی 2019 کو پنو عاقل پریس کلب کے باہر سے پولیس نے گرفتار کیا۔ بدترین تشدد کا نشانہ بنایا اور پھر ان پر اغوا برائے تاوان کا مقدمہ قائم کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ مقدمے کے اندراج اور پولیس ریمانڈ میں دیے جانے کے بعد انہیں جیل بھیج دیا گیا۔ جیل ہی میں معلوم ہوا کہ ان کو ایک اور مقدمے میں بھی گرفتار کر لیا گیا ہے جس میں دہشت گردی کی دفعات کو بھی شامل کیا گیا ہے۔

بعد ازاں 20 ماہ کے دوران ان پر 9 مقدمات قائم کیے گئے۔ ان میں اغوا برائے تاوان اور دہشت گردی سے لے کر چھینا جھپٹی، بھتہ خوری اور ڈکیتی جیسے سنگین جرائم شامل ہیں۔ لیکن وہ ان مقدمات کا سامنا کرتے رہے۔

عاشق جتوئی کا کہنا ہے کہ وہ ایک مقدمے میں ضمانت کراتے تو دوسرے میں نامزد کر دیا جاتا۔ لیکن بالآخر اب وہ نو میں سے سات مقدمات میں عدالت سے بری ہو چکے ہیں۔ جب کہ دو مقدمات کی سماعت جاری ہے۔

کچھ ایسی ہی کہانی سکھر سے تعلق رکھنے والے صحافی امداد پھلپوٹو کی بھی ہے۔ مقامی نجی ٹی وی سے وابستہ صحافی کے خلاف ضلع کشمور کے کطچو کیٹی تھانے میں اغوا برائے تاوان کا مقدمہ درج کیا گیا۔ حالاں کہ ان کے مطابق وہ کئی سال سے کشمور گئے ہی نہیں۔

مقدمے میں گرفتاری سے بچنے کے لیے انہوں نے ضمانت کرائی۔ نوکری چھوڑ کر ہر پیشی پر عدالت میں حاضری دی۔ وکیل اور آنے جانے کے اخراجات برداشت کیے اور پھر چھ ماہ مقدمہ چلنے کے بعد عدالت نے ان پر عائد الزامات کو جھوٹا قرار دے کر انہیں باعزت بری کیا۔ تب جاکر ان کی جان چھوٹی۔

لیکن کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی۔ حال ہی میں سکھر میں مبینہ پولیس حراست میں قتل ہونے والے نوجوان عرفان کھڑوس عرف عرفان جتوئی کی ہلاکت پر جب سکھر میں احتجاج کیا گیا۔ تو امداد پھلپوٹو کے مطابق وہ اس احتجاج کی کوریج کر رہے تھے۔ لیکن پولیس نے مظاہرین کے خلاف درج مقدمے میں ان سمیت کئی صحافیوں کو بھی نامزد کردیا۔

ان کے مطابق اس بار ان پر انسداد دہشت گردی قوانین کے ساتھ ملک سے بغاوت، ملک دشمنی پر مبنی نعرے لگانے، پولیس افسران اور ان کے خاندان کو دھمکیاں دینے، سڑک بلاک کرنے، ہنگامہ آرائی اور دیگر دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔

‘رپورٹنگ پر انتقامی کارروائی کا نشانہ بنایا گیا، بغاوت کا مقدمہ قائم کیا گیا’

امداد پھلپوٹو کا کہنا ہے کہ وہ مظاہرے میں شرکت نہیں کر رہے تھے۔ بلکہ کوریج کر رہے تھے اور ان کی یہ کوریج ان کے ٹی وی چینل نے نشر بھی کی تھی۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں امداد پھلپوٹو نے کہا کہ وہ اپنے پیشہ وارانہ فرائض کی انجام دہی میں مصروف تھے۔ وہ اس مظاہرے میں شرکت اور ملک دشمن نعرے بازی کا سوچ بھی نہیں سکتے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر ایسی کوئی فوٹیج یا تصویر ہو تو وہ جرم قبول کرنے کے لیے تیار ہیں۔ لیکن ایسا کچھ نہیں ہے۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ پھر آخر انہیں مقدمے میں نامزد کرنے کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟ تو ان کا کہنا تھا کہ انہیں اس کوریج اور رپورٹنگ پر ہی انتقامی طور پر ایف آئی آر میں نامزد کیا گیا جس میں ان کے علاوہ پانچ دیگر صحافی بھی شامل ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ مقدمے میں ان کے علاوہ ساحل جوگی، آدم عرف ساجد اور پنو عاقل کے دو ایسے صحافی بھی شامل ہیں جو ان کے مطابق اس مظاہرے کی کوریج کے لیے موجود ہی نہیں تھے۔

بغاوت پر مبنی تقاریر کی گئیں، مظاہرین نے خواف و ہراس پھیلایا: پولیس

دوسری جانب پولیس نے مقدمے میں کہا ہے کہ جئے سندھ قومی محاذ کے رہنما ڈاکٹر نیاز کالانی، ریاض چانڈیو، مجید میرانی سمیت 50 سے 60 افراد نے مین شکار پور روڈ کو بلاک کیا۔

ایف آئی آر کے متن کے مطابق اسی مظاہرے میں یہ صحافی بھی شریک تھے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں، ایس ایس پی سکھر اور سکھر پولیس کے خلاف سر عام لاوڈ اسپیکر پر بغاوت پر مبنی تقاریر کیں۔ جب کہ انہیں جان سے مارنے کی دھمکیاں دیں اور بدنامِ زمانہ ڈاکو عرفان جتوئی کے خلاف مقابلے میں شریک پولیس ٹیم کو بم اور گولیوں سے اڑانے کی دھمکی دی۔

پولیس کا کہنا ہے کہ نہ صرف یہ بلکہ اس سے متعلق سوشل میڈیا پر پوسٹس تحریر کرنے سے لوگوں میں خوف و ہراس پھیلایا گیا اور سوشل میڈیا پر تخریب کاروں کی حوصلہ افزائی کی گئی۔

یاد رہے کہ پولیس کی جاری کردہ تفصیلات کے مطابق عرفان جتوئی عرف کھڑوس ڈاکو تھا اور دعویٰ کیا گیا تھا کہ آٹھ مارچ کو اس کی ہلاکت پولیس مقابلے کے دوران ہوئی تھی۔

پولیس کے مطابق سکھر کے علاقے تھانہ جھانگڑو کی حدود فش فارم کے قریب گشت پر مامور پارٹی سے مقابلہ ہوا جس میں بدنامِ زمانہ ڈاکو عرفان کھڑوس ہلاک جب کہ اس کے تین ساتھی فرار ہونے میں کامیاب ہوئے تھے۔

پولیس کا کہنا ہے کہ مجرمانہ ریکارڈ کے مطابق ہلاک ڈاکو کراچی، سکھر، جامشورو اور نوابشاہ سمیت سندھ کے مختلف اضلاع میں کاریں چھیننے، ڈکیتی، چوری، پولیس مقابلوں اور دیگر سنگین وارداتوں کے درج ڈیڑھ درجن سے زائد مقدمات میں مطلوب تھا۔

انسانی حقوق کمیشن کا مقدمات پر تشویش کا اظہار

سندھ یونی ورسٹی کے طالب علم عرفان جتوئی کی ہلاکت پر احتجاج کرنے والے سیاسی کارکنوں اور صحافیوں کے خلاف مقدمہ کے انداراج پر انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) نے بھی تشویش کا اظہار کیا ہے۔

کمیشن کا مزید کہنا ہے کہ یہ ریاستی جبر کے خلاف پُر امن احتجاج کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کے مترادف ہے۔

مقدمات کے اندراج پر ایچ آر سی پی کا کہنا ہے کہ یہ عمل غیر جمہوری اور ناقابلِ قبول ہے۔

سندھ میں ایک سال میں 50 صحافیوں کے خلاف مقدمات

کونسل آف پاکستان نیوز پیپرز ایڈیٹرز (سی پی این ای) کی 2020 میں سامنے آنے والی رپورٹ میں پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) کے عہدیداروں کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ سندھ میں صرف ایک سال میں 50 صحافیوں کے خلاف انسدادِ دہشت گردی دفعات کے تحت مقدمات درج کیے گئے تھے جن میں سے اب تک کسی ایک میں بھی الزام ثابت نہیں ہوا۔ جب کہ ان میں سے ایک درجن سے زائد مقدمات صرف سکھر میں درج ہوئے۔

ایسے صحافیوں میں سے کئی نے بتایا کہ صوبائی حکومت کے وعدوں اور اعلانات کے باوجود ان کی کوئی مدد نہیں کی گئی۔ یہ بھی یقین دہانی کرائی گئی کہ یہ کیسز ختم کر دیے جائیں گے۔ لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔ بلکہ ایسے صحافی اپنے اخراجات پر ان بے بنیاد الزامات کا سامنا کر رہے ہیں۔ سندھ پولیس انسدادِ دہشت گردی قوانین کا غلط اور انتقامی استعمال کر رہی ہے۔

ان صحافیوں کا کہنا ہے کہ صوبے میں تعینات کئی پولیس افسران چاہتے ہیں کہ ان کے غیر قانونی کاموں اور قانون کے برخلاف کارروائیوں کو کسی طور پر رپورٹ نہ کیا جائے۔ نہ صرف یہ بلکہ ان کے مبینہ غیر قانونی کاروباروں پر کوئی سوال نہ اٹھایا جائے۔

انصاف کی فراہمی یقینی بنائی جائے گی: سندھ حکومت

صحافیوں پر مقدمات کے اندراج سے متعلق جب سندھ حکومت کے ترجمان بیرسٹر مرتضٰی وہاب سے سوال کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی ہمیشہ سے آئین اور قانون کی سربلندی پر یقین رکھتی ہے۔ اور اس سے قبل ایک صحافی کے خلاف جب ایسی کارروائی کی نشاندہی ہوئی تھی تو سندھ حکومت نے اس بات کو یقینی بنایا تھا کہ انصاف ہو۔ پھر ان کے خلاف کارروائی کو ختم کر دیا گیا تھا۔

انہوں نے یقین دہانی کرائی کہ سکھر ڈویژن میں جن صحافیوں کے خلاف مقدمات درج ہیں ان کو قانون اور آئین کے مطابق حل کیا جائے ۔

ان کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت یقینی بنائے گی کہ کسی شخص کے خلاف چاہے وہ عام آدمی ہو یا صحافی، کوئی غلط کارروائی یا ناانصافی نہ ہو۔

‘خود کو صحافی کہلوانے والے کئی افراد غلط کاموں میں بھی ملوث ہیں’

پاکستان میں صحافیوں کی نمائندہ تنظیم پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) ہی کے بعض عہدیدار ان کیسز کے قائم کرنے پر مختلف مؤقف بھی رکھتے ہیں۔

پی ایف یو جے کے نائب صدر اور سکھر پریس کلب کے صدر لالہ اسد پٹھان کا کہنا ہے کہ ان میں سے بہت سے ایسے افراد ہیں جو خود کو صرف صحافی قرار دیتے ہیں۔ لیکن ان کے مطابق وہ صحافی نہیں ہیں۔

لالہ اسد پٹھان کا کہنا ہے کہ ایسے افراد بھی خود کو صحافی کہلواتے ہیں جو کالعدم جماعتوں اور ڈاکوؤں سے روابط رکھتے ہیں۔ اور وہ ان کاموں سے باز بھی نہیں آتے۔

ان کے بقول سیکیورٹی اداروں اور پولیس نے مکمل تحقیقات کے بعد انہیں موردِ الزام ٹھیرایا ہے۔

لالہ اسد پٹھان نے کہا کہ بعض افراد کی سکھر پریس کلب اور سکھر یونین آف جرنلسٹس سے بھی ممبر شپ ختم کر دی گئی تھی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ دانستہ یا نادانستہ طور پر صحافی برادری بھی ایسے لوگوں کی حمایت کر رہی ہوتی ہے جو جرائم پیشہ ہوتے ہیں۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments