یہ گنہگار عورتیں


پاکستانی قوم صرف آٹھ مارچ کو ہی جاگتی ہے، کیونکہ آٹھ مارچ عورتوں کا عالمی دن ہے اور یہ دن ہر سال آتا تھا اور گزر جاتا تھا لیکن پچھلے تین سال سے جب بھی یہ دن آتا ہے تو مختلف حلقوں میں ایک لمبی بحث چھڑ جاتی ہے۔ ہر ایک اپنے عقل کی گٹھڑی کھول کر بیچنے کے لے بیٹھ جاتا ہے اور اپنی اندر کی پوری بھڑاس جو کے وہ سال بھر جمع کرتے رہتے ہیں، وہ عورتوں پر نکال کر خود کو پاک و پوتر کرلیتے ہیں۔ یہ گنہگار عورتیں سڑکوں پر آ گئی ہیں اور پتا نہیں لیکن قیامت کی نشانی ہے۔ یہ زبان دراز عورتیں، ان کو کون سے حقوق چاہئیں، ان کو کتنی اور کون سی آزادی چاہیے، یہ گشتی، یہ رنڈی، یہ فاحشہ، یہ ننگی ہونا چاہتی ہیں، یہ ویسٹرن کلچر اپنانا چاہتی ہیں، ان کو باہر سے پیسہ ملتا ہے، یہ ہماری تہذیب کو خراب کر رہی ہیں وغیرہ وغیرہ۔

اس کے بعد یہ بیچارے پورا سال لمبی تان کر سو جاتے ہیں، پھر چاہے کچھ بھی ہو جائے ان لوگوں کی نہ آنکھ کھلتی ہے، نہ زبان کھلتی ہے، نہ غیرت جاگتی ہے۔ غیرت آتی ہے تو صرف عورتوں کے اپنے حقوق مانگنے، پر اپنے حقوق کے لئے بات کرنے پر، اپنے لئے خوشی منانے پر، اپنے لئے ناچنے پر کیونکہ یہ ناچ اور خوشی کسی چودھری کے ڈیرے پر ہونے والے مجرے یا کسی وڈیرے کی اوطاق پر ہونے والی محفل کی تو نہیں ہے نا ہی یہ سڑکوں پر مارچ، یہ فلک شگاف نعرے، میرا جسم میری مرضی، یہ سڑکیں ہماری ہیں کسی کی جاگیر نہیں، لکھنے کی لیں گے آزادی، پڑھنے کی لیں گے آزادی، روزگار کی لیں گے آزادی، جینے کی لیں گے آزادی، یہ ڈھول کی تھاپ پر رقص، یہ ترانے کہ ہم انقلاب ہیں، جب یہ سب سڑکوں پر ہونے لگیں، تو کیسے نا دھرتی دھر دھر کانپے اور وہ لوگ کیسے خاموش بیٹھیں جنہوں نے سالوں صدیوں سے عورتوں پر، ان کے جسموں پر، ان کی زندگیوں پر، ان کی سوچ پر اجارہ داری کی ہے۔ عورت نے کیسے اٹھنا ہے، کیسے بیٹھنا ہے، کب سونا ہے کب جاگنا، کتنے بچے پیدا کرنے ہیں، شادی کب اور کس سے کرنی ہے۔ ہر چیز ان کی مرضی سے طے ہوتی آ رہی ہے، اب جو یہ چند مٹھی بھر عورتیں اٹھ کھڑی ہوئی ہیں تو ان کی چیخیں نکل گئی ہیں کے یہ کیا ہو گیا، یہ کیسے ہو گیا، اب ہمارا کیا ہوگا یہ جو اپاہج لاچار جن کو اپنی چڈی بنیان کا نہیں پتا کے کہاں رکھی ہے اب ان کا کیا ہوگا۔

یہ چند مٹھی بھر عورتیں جو ان کے چنگل سے نکل کر اٹھ کھڑی ہوئی ہیں، یہ صرف اپنی آزادی کی بات تو نہیں کر رہیں یہ اس سماج کو تبدیل کرنے کی بات کر رہی ہیں، یہ آپ کے اور میرے حق کی بات کر رہی ہیں، یہ تو مظلوم لوگوں کے ساتھ ہونے والی نا انصافیوں، نابرابریوں، ظلم و ستم کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی ہیں۔ یہ عورتیں اس سوچ کو مٹانے کے لئے اٹھ کھڑی ہوئی ہیں، جو عورت اور مرد میں تفریق پیدا کرتی ہے، جو ظالم اور مظلوم، امیر اور غریب کے بیچ کا فرق ہے اسے مٹانے کے لئے اٹھ کھڑی ہوئی ہیں، یہ طاقتور اور کمزور کے درمیان ہونے والے لڑائی، ظلم بربریت، حقوق کے پامالیوں کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی ہے۔

اس عورت نے اس سوچ، اور اس سماج، کو بدلنے کا بیڑا اٹھایا ہے، یہ لڑائی صرف ایک عورت کی نہیں ہے یہ لڑائی نہ صرف پوری انسان ذات کے لئے ہے بلکہ کل کائنات کے لئے ہے۔ اس لئے اس نے نعرہ لگایا ہے کہ عورت آزاد، سماج آزاد، جب اس ملک کی آدھی آبادی صرف بچی پیدا کرنے اور چولھا چکی پھونکنے میں لگی رہے گی تو یہ ملک کیا ترقی کرے گا۔

کیا اس ملک میں سال کے باقی تین سو چونسٹھ دن خیر خوبی سے گزرتے ہیں، کیا باقی دنوں میں عورتوں، بچیوں اور بچوں کے ساتھ ظلم زیادتی نہیں ہوتی۔ پاکستان میں ہر روز دس خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں ہر روز نو سے گیارہ بچے جنسی تشدد کا شکار ہوتے ہیں پچھلے پانچ سالوں میں بچوں کے ساتھ زیادتی کے سترہ ہزار واقعات ہوئے، یہ وہ واقعات ہیں جو رپورٹ ہوئے ہیں، ہر روز ایسے کتنے واقعات ہوتے ہیں جو رپورٹ نہیں ہوتے جن کے بارے میں سن کر روح تک کانپ جاتی ہے۔

یہ سب اس ملک میں ہو رہا ہے ان میں سے کئی ہائی پروفائل کیس بنے۔ پورنو گرافی کے کئی ہائی پروفائل کیس سامنے آئے، چھوٹی عمر کی شادیوں میں دنیا بھر میں پاکستان چھٹے نمبر پر ہے۔ زبردستی مذہب کی تبدیلی، تیزاب پھینکنے کے واقعات، خواجہ سراؤں کے ساتھ زیادتیوں اور ان کے قتل عام کی تو آپ بات ہی نا کریں صرف پشاور کے اعداد شمار اٹھا کر دیکھ لیں، نوجوان بچوں کے ساتھ ہونی والی زیادتیوں، نا انصافیوں، قتل، بلیک میلنگ کا تو کہیں ذکر ہے نہیں ہوتا کیونکہ یہ مردانگی کے زمرے میں آتا ہے اس لے اس پر کوئی بات نہیں کرتا۔ تب یہ حضرات دم دبا کر بلوں میں گھس جاتے ہیں کہ کہیں ہماری کرتوت نہ سامنے نہ آجائیں۔ جس ملک میں پچاس ساٹھ سال کی عورتوں کو غیرت کے نام پر قتل کیا جاتا ہے پھر بھی یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ ہمیں کون سی آزادی چاہیے۔ جینے کی آزادی چاہیے، سانس لینے کی آزادی چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments