بہار اور سیاحت کا پاکیزہ تصور


انسان پیدا ہوتے ہی فطرت کے اسرار ہائے سربستہ جاننا شروع کرتا ہے۔ شاید انسان کا اس دنیا میں آتے ہی چیخنا، چلانا اور اپنے ہاتھ پاؤں مارنا اسی بات کے غماز ہیں۔ انسان کو قدرت نے یہ صلاحیت ودیعت فرمائی ہے کہ وہ آفاق و انفس میں مخفی رازوں سے ہمیشہ پردہ اٹھانے کی کوشش کرتا رہے۔ یہی صلاحیت آگے چل کر انسان کو کہیں محقق اور سائنس داں بنا دیتی ہے اور کہیں سیاح، غواص اور کوہ پیما۔

اگرچہ سیاحت عام حالات میں تفریح کا موجب بنتی ہے اور انفرادی سطح پر انسان کے لئے مسرت اور سکون قلب کا باعث بنتی ہے لیکن کئی انسان سیاحت میں اپنی عمریں کھپا دیتے ہیں اور اسی سے محظوظ ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ یا تو کسی خاص شعبہ علم کی خاطر صحرا نوردی کرتے ہیں یا پھر اپنی دشت پیمائی سے دنیا کے جغرافیے کو تبدیل کر ڈالتے ہیں۔ ہیونت سانگ، ابن بطوطہ، ابن المجید، واسکوڈی گاما، کرسٹوفر کولمبس وغیرہ اسی قبیل کے انسان شمار کیے جا سکتے ہیں۔

ظاہر ہے کہ دور جدید کے سائنسی اور تکنیکی انقلاب نے انسان کی سیاحت پسند طبیعت کو نہ صرف آسانیوں سے روشناس کیا ہے بلکہ اس جذبے کو مہمیز بھی کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسان چاند سے آگے بڑھکر مریخ کے لئے اپنا رخت سفر باندھ چکا ہے۔ زمینی سیاحت کی اب عام لوگوں کے لئے رسائی بالکل آسان ہو گئی ہے اور سیاحت تقریباً ہر انسان کا معمول بن گیا ہے۔ اسی لئے آج کا انسان مذہبی اور ثقافتی تہواروں سے لے کر فرصت اور چھٹی کے عام دنوں تک صحت افزاء مقامات کا رخ کرتا ہے۔ ایسا بھی ممکن ہے کہ جدید انسان کبھی کبھار اپنی مصنوعی زندگی کے خول سے باہر آ کر فطرت کی آغوش میں اپنا کچھ وقت گزار کر تر و تازہ ہونا چاہتا ہو۔ اس لئے صحت بخش ماحول میں چند ساعتیں ٹھہر کر چین کا سانس لیتا ہے۔

کہا جاسکتا ہے کہ بہار کی آمد کے ساتھ ہی انسان کے اندر موجود سیروتفریح کی حس انگڑائیاں لینے لگتی ہے۔ دراصل بہار سطح زمین پر زندگی نو کی ایک نوید لے کر نمودار ہوتی ہے۔ یخ بستہ پہاڑوں کی چوٹیوں پر نئے موسم کا آفتاب کچھ اس طرح طلوع ہوتا ہے کہ وادیوں میں زندگی کی ایک نئی رمق پیدا ہو جاتی ہے۔ ایک طرف ندی نالے ایک دل نواز موسیقی چھیڑ کر سرما سے ابھرے ہوئے انسان کے کانوں میں رس گھولتے ہیں تو دوسری طرف سبزہ زار موسم سرما کے دوران جمود کی شکار زندگی میں ایک نئی روح پھونکتے ہیں۔

بہار سے پیدا شدہ اس خوشنما تبدیلی کو قرآن نے فطرت کی مقصدیت کا غماز قرار دے کر پیش کیا ہے۔ برسات کے بعد پیدا ہونے والی روئیدگی کو کئی جگہ حیات بعد الموت کی تمثیل کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ اور حیات نو بخشے جانے کو اللہ تعالٰی نے اپنی خاص نشانیوں میں سے ایک خاص نشانی قرار دیا ہے۔

اس سلسلے میں قرآن کے الفاظ ہیں:

”۔ آسمان سے پانی اتارکر، مردہ زمین کو زندہ کر دینا، اس میں ہر قسم کے جانوروں کو پھیلادینا، ۔ ان میں عقلمندوں کے لئے قدرت الہی کی نشانیاں ہیں۔“ (البقرہ: 164 ) تاہم بہار میں فطرت کا حسن دوبالا کرنے والے عوامل کی طرف بھی قرآن میں اچھے خاصے اشارے ملتے ہیں۔ جیسے : ”اور بدلیوں سے ہم نے بکثرت بہتا ہوا پانی برسایا۔ تاکہ اس سے اناج اور سبزہ اگائیں۔ اور گھنے باغ (بھی اگائیں ) ۔ (النبا: 14۔ 16 )

بہار جس طرح سبزہ زاروں کی روئیدگی کو ازسرنو سامنے لاتا ہے، بالکل اسی طرح انسان کو اس موسم میں فطرت کے نظاروں میں گم ہونے کی مہمیز عطا کرتا ہے۔ اس طرح اس موسم میں انسان بلالحاظ عمر و جنس سبزہ زاروں، کوہساروں، آبشاروں، لالہ زاروں، مرغزاروں اور انسان کے لگائے ہوئے باغیچوں کی سیروتفریح کے لئے کمر کس لیتا ہے تاکہ موسم سرما کی غنودگی اور اکتاہٹ سے چھٹکارا حاصل کر سکے۔ اس لئے سیاحتی مقامات پر بہار کی آمد کے ساتھ ہی لوگوں کا تانتا بندھ جاتا ہے۔

انسان کی سیروتفریح کے لئے قدرت نے اچھا خاصا انتظام کر رکھا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ فطرت قدرتی ندی نالوں، آبشاروں، کوہ و بیابان اور خوبصورت میدانوں اور ہری بھری وادیوں سے بھری پڑی ہے۔ ان نظاروں نے جہاں ایک طرف انسان کے لئے زمین پر جنت کا تعارف مہیا کر رکھا ہے، وہیں انسان کی جمالیاتی حس کے سکوں کے لئے انتظام کیے رکھا ہے۔

شاید فطرت کے انہی نظاروں سے مہمیز پا کر انسان نے ہر زمانے میں مصنوعی طور پر بھی مختلف باغ لگا کر فطرت کے اس حسن میں چار چاند لگانے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ اس سلسلے میں مختلف تہذیبوں نے اپنے ذوق، افتاد طبع اور نظریۂ حیات کے مطابق ہی قدرت کے اس حسن میں اضافہ کیا ہے۔ جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے تو عہد عباسی سے ہی اس میدان میں مختلف بادشاہوں، سلطانوں اور امراء کے ذریعے اچھا خاصا کام کیا گیا۔

فرات اور دجلہ کے کناروں پر عباسی خلفاء نے اپنے تعمیر شدہ محلات کی دل کشی اور دل فریبی کو بڑھانے کے لئے مختلف باغ لگائے۔ اس سے بھی اعلیٰ انداز میں اندلس میں اموی حکمرانوں نے وادی الکبیر (اسپینش، Guadalquivir) کے کناروں پر اپنے تعمیر شدہ محلات اور قصروں کو پرکشش بنانے کے لئے باغ لگائے۔ اسی لئے الحمراء، الزہرا، جنت العریف وغیرہ عمارات کی دلکشی آج کے اسپین میں بھی ضرب المثل ہے۔

برصغیر پاک و ہند میں مغلوں نے مختلف باغ لگاکر پورے علاقے کے حسن اور دلکشی میں بے حد اضافہ کر دیا۔ ہندوستان، پاکستان اور خاصکر کشمیر میں یہ باغ آج بھی انسان کو دعوت نظارہ دیتے ہیں۔ ان باغوں میں جو دل فریب مناظر پیدا کیے گئے ہیں ان کے لئے پانی کو ایک اہم مقام حاصل رہا ہے۔ فواروں، حوضوں کے ساتھ ساتھ ہر باغ کے بیچ نہریں بہتی ہیں۔ اس طرح ان باغوں میں پیدا شدہ مناظر قرآن میں موجود (کسی تشبیہہ کے بغیر) جنت کے مناظر کے تصور سے مستعار لیے گئے معلوم ہوتے ہیں۔ ساتھ ساتھ یہ مناظر اسلامی تصور پاکیزگی (تزکیہ) کے بہت قریب بھی معلوم ہوتے ہیں۔ قرآن کی مختلف سورتوں میں جنت کی نہروں کا ذکر بڑے ہی دلنشین انداز میں کیا گیا ہے۔ جیسے : ”۔ کہ ان کے لئے ایسے باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔“ (البقرہ: 25 )

پاکیزگی کا یہ تصور واقعی اسلام کے مرکزی تصور تزکیہ سے مطابقت رکھتا ہے۔ چونکہ رسالت مآب ﷺ کی نبوت کی چہارگانہ ذمہ داری میں صفائی (اندرونی و بیرونی) کو مرکزی اہمیت حاصل ہے، اس لئے تفریح و سیاحت کو اس تصور سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ نبی ﷺ نے پاکیزگی کو ایمان کا نصف حصہ قرار دیا ہے (الطہور شطر الایمان) ۔

ان سب حقائق کے علی الرغم ہمارے معاشرے میں سیروتفریح اور سیاحت کو صفائی ستھرائی اور نظافت سے بالکل الگ کیا گیا ہے۔ کشمیر میں خاص کر پاکیزگی سے متعلق اکثر اصولوں کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ جہلم، جو کشمیر کے آبی ذخائر میں بنیادی اہمیت رکھتا ہے، کو کھنہ بل (جس کے آس پاس اس دریا کا منبع ہے ) سے کھادنیار (جہاں سے یہ دریا وادی سے نکل کر پاکستان کا رخ کرتا ہے ) تک کوڈے دان میں تبدیل کیا گیا ہے۔ وادی کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک اس دریا کے کنارے بھیانک مناظر پیش کرتے ہیں۔ ایسے ہی مناظر وادی کے اطراف و اکناف سے بہنے والی جہلم کی معاون ندیاں پیش کرتی ہیں۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ جہاں جہاں مختلف قصبوں کی بلدیہ کی طرف سے پاکیزگی کی طرف دھیان پھیرنے والی تختیاں آویزاں ہوتی ہیں، انہی کے آس پاس بلکہ ان کے نیچے گندگی کے ڈھیر بنے ہوتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ رسوئی گھروں سے ٹنوں کے حساب سے جمع شدہ کوڑا جہلم اور باقی دریاؤں میں شامل ہو جاتا ہے۔ اس ضمن میں کشمیر کی مشہور ترین جھیل یعنی ڈل، سرینگر کا کوڑے دان بن چکی ہے۔ ماحول کی تباہی کے لئے آبی ذخائر کی آلودگی کافی تھی، لیکن ہمارے ہاں تو کھیت کھلیان، جنگل اور بیابان تک کچرے کی آماج گاہ بن چکے ہیں۔ اس طرح یہ بات ایک حقیقت بن کر سامنے آ گئی ہے کہ ہمارا پورا ماحول تعفن آمیز بن چکا ہے۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ سیاحت کا اصل تصور کسی صورت بھی گندگی اور آلودگی سے میل نہیں کھاتا۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سیاحت اور سیروتفریح کی آڑ میں ہم دن رات ماحول کو تباہ کر کے اپنے پیروں پر کلہاڑی چلاتے ہیں۔ اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ سیاحت کے قدیم لیکن پاکیزہ تصور کی طرف پھر سے رجوع کیا جائے۔ اسی صورت میں ہم قدرت کی نعمتوں کے شکرگزار بھی بن سکتے ہیں اور ایک ستھرے ماحول کو اپنے آنے والی نسلوں کی طرف منتقل بھی کر سکتے ہیں۔

قرآن نے ہمارے اس ناروا رویے اور اس کے علاج کی طرف ہماری رہنمائی پہلے سے کی ہوئی ہے۔ ”خشکی اور تری میں فساد برپا ہو گیا ہے لوگوں کے اپنے ہاتھوں کی کمائی سے تاکہ مزہ چکھائے ان کو ان کے بعض اعمال کا، شاید کہ وہ باز آجائیں۔ (الروم: 41 )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments