یکساں نصاب تعلم: پاکستان میں لازمی مضامین میں ’اسلامیات کا درس‘، اقلیتوں کو تشویش


پاکستان کے سرکاری سکول

اقلیتوں کی طرف سے کی جانے والی شکایات کے علاوہ نئے نصاب کے معیار پر عموماً بھی والدین کی طرف سے سوالات اٹھائے گئے ہیں

پاکستان میں سکولوں کے لیے تیار کیے جانے والی نئے نصاب میں سے ’حکومت کو ایک لازمی مضمون سے دینی مواد نکالنے کی ضرورت ہے ورنہ غیر مسلم بچوں کے لیے پڑھنا بے حد مشکل ہو جائے گا۔‘

یہ رائے لاہور میں مقیم ماہر تعلیم پیٹر جیکب کی ہے جنھیں حکومت پاکستان نے گذشتہ برس اپنے پروگرام ’یکساں نصاب تعلیم‘ کا سلیبس بناتے ہوئے مشاورت میں شامل کیا تھا۔

ان کے خیال میں حکومت کی طرف سے تیار کیا گیا نیا نصاب آئین کے اس حصے کی بھی خلاف ورزی ہے جس میں اقلیتوں کے حقوق کی ضمانت دی گئی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ اس نصاب میں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اردو کے مضمون میں اسلامیات کا درس دیا جا رہا ہے۔

یاد رہے کہ پاکستان میں اس سال مارچ میں پہلی سے پانچویں جماعت تک کے طلبہ کی پڑھائی کے لیے نیا نصاب لاگو ہو جائے گا۔

یہ بھی پڑھیے

کیا پاکستان کا موجودہ تعلیمی نظام یکساں قومی نصاب کو اپنانے کے لیے تیار ہے؟

تعلیمی نصاب میں خواتین کا کردار گھر کے کام کاج تک محدود

کیا کہانیاں بچوں کا کتاب سے رشتہ بحال کر سکتی ہیں؟

پیٹر جیکب کو انگریزی کی پہلی جماعت سے پانچویں جماعت تک کی نصابی کتب جبکہ اردو کی دوسری جماعت سے چوتھی جماعت تک کی نصابی کتب جائزہ لینے کے لیے دی گئی تھیں لیکن اس ماہ کے آغاز میں جب جیکب نے حتمی نصابی کتب دیکھیں تو وہ حیران رہ گئے۔

بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ یہ بہت تشویشناک اور آئین کی خلاف ورزی ہے۔

یکساں نصاب

مذہبی اقلیتوں کی تعلیم کے بارے میں پاکستان کا آئین کیا کہتا ہے؟

پیٹر جیکب کا کہنا ہے کہ یہ دستور پاکستان کے آرٹیکل 22 کی خلاف ورزی ہے جو اقلیتوں کے حقوق کی ضمانت دیتا ہے۔

مذکورہ شق کے مطابق ’کسی بھی تعلیمی ادارے میں تعلیم حاصل کرنے والے کسی شخص کو مذہبی تعلیم حاصل کرنے پر مجبور نہیں کیا جائے گا، اگر ایسی تعلیم کا تعلق اس کے مذہب کے علاوہ کسی اور مذہب سے ہو۔‘

پیٹر جیکب کا کہنا ہے کہ نئے نصاب میں ایسا لگتا ہے کہ ’آپ اردو کے مضمون میں اردو پڑھنے کے بجائے اسلامیات کا درس لے رہے ہیں۔‘

مسیحی کمیونٹی کی شکایت کیا ہے؟

پیٹر جیکب اور دیگر ماہرین نے نشاندہی کی کہ پاکستان میں دوسری جماعت کے لیے حال ہی میں متعارف کروائے گئے یکساں نصاب میں اردو کی ماڈل ٹیکسٹ بک کے پہلے صفحہ پر طالب علم سے ذیل مشق کرنے کا کہا گیا: ’سوچیں اور بتائیں اللہ تعالی نے ہمیں کون کون سی نعمتیں دی ہیں؟‘

اسی کتاب کے صفحہ نمبر 11 پر اساتذہ کو ہدایت دی گئی ہے کہ ’بچوں سے نعت سنیں۔‘

اس کے علاوہ ایک اور صفحے پر طلبہ کو کہا گیا ہے کہ ’اللہ تعالی ہمارا مالک ہے‘ کے عنوان والے مضمون کو ’ایک منٹ میں درست تلفظ اور روانی سے پڑھیں۔‘

یہی نہیں بلکہ دوسری جماعت کے طلبہ کی اردو کی کتاب میں پبلک پالیسی کے ماہر پیٹر جیکب اور دیگر ماہرین تعلیم نے متعدد مقامات پر سرخ دائرے لگا کر اسلامی مواد کی موجودگی کی نشاندہی کی ہے۔

اردو کے علاوہ بھی دیگر مضامین میں اسلامی مواد کی موجودگی نظر آتی ہے۔

انھوں نے نشاندہی کی کہ چوتھی جماعت کی انگریزی کی ماڈل ٹیکسٹ بک کے پہلے صفحے پر ایک رہنما کی خصوصیات بتائی گئی ہیں جس کے بعد ایک تفصیلی مضمون چاروں خلفائے راشدین کے بارے میں ہے۔

پیٹر جیکب نصابی کتب کے جائزے میں لکھتے ہیں کہ چوتھی جماعت کی انگریزی کی کتاب کے مواد میں سے 23 فیصد سے زیادہ ایسا مواد ہے جو اقلیتوں کے حقوق کے بارے میں آئین کی شق 22 کی خلاف ورزی کرتا ہے۔

اسی طرح پانچویں جماعت کی انگریزی کی کتاب میں 21 فیصد سے زیادہ ایسی خلاف ورزیوں کا مشاہدہ کیا گیا ہے۔

’لگ رہا ہے کہ بجائے ترقی کہ ہم 20 سال پیچھے چلے گئے ہیں

مسیحی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والی نرگس اعجاز کے بچے لاہور کے ایک درمیانے درجے کے نجی سکول میں پڑھتے ہیں اور حکومت کی جانب سے یکساں نصاب تعلیم کے تحت نیا نصاب ان کے لیے بچپن کی یادیں واپس لے آیا ہے جب انھیں اپنے سکول میں زبردستی اسلامیات پڑھنی پڑتی تھیں۔

بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے نرگس کہتی ہیں کہ اُس زمانے میں ان کے پاس انتخاب کا اختیار ہی نہیں تھا ’لیکن اب لگ رہا ہے کہ بجائے ترقی کرنے کہ ہم 20 سال پیچھے چلے گئے ہیں۔‘

اس نئے نصاب کو تیار کرنے والے ماہرین کو بھی غالباً احساس تھا کہ ان میں مذہبی مواد کافی زیادہ ہے اور اسی بنا پر ماڈل اردو کتاب کے ہر صفحے کے حاشیے میں تاکید درج کی گئی ہے کہ ’اساتذہ غیر مسلم طلبا کو اسلامی مواد پڑھنے پر مجبور نہ کریں۔‘

اس پر محقق اور مورخ یعوب خان بنگش کا کہنا ہے کہ ویسے تو یہ ایک اچھا فیصلہ ہے کہ ہر صفحے پر اس بارے میں درج ہے لیکن وہ مزید کہتے ہیں کہ ’اگر اردو کے مضمون میں 40 فیصد نصاب اسلام پر مبنی ہو گا تو آپ کس طرح بچوں کو پڑھائیں گے؟ مثال کے طور پر اگر ایک جماعت میں 30 طلبہ ہوں اور ان میں سے دو غیر مسلم ہوں، تو آپ انھیں کیا کہیں گے؟ کہ آپ باہر جا کر بیٹھ جائیں؟‘

یعقوب بنگش کے نزدیک زیادہ پریشان کن سوال یہ ہے کہ اردو یا انگریزی کی درسی کتاب میں اسلامی مواد سرے سے موجود ہی کیوں ہے؟

’اس پر مخالفت کرنے والوں کا قطعی طور پر یہ مطلب نہیں کہ وہ کسی مذہب کے خلاف ہیں۔ آپ اسلامیات بالکل پڑھائیں اور اچھی طرح سے پڑھائیں لیکن مذہب کی تعلیم کسی اور مضمون کا حصہ بنانے کی کیا تک ہے؟‘

حکومت کا مؤقف

وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود والدین اور ماہرین تعلیم کی جانب سے اٹھائے جانے والے اعتراضات سے اتفاق نہیں کرتے۔

اردو اور انگریزی کی درسی کتب میں مذہبی متن کی موجودگی پر ان کا کہنا تھا کہ صرف اردو کی کتاب میں حمد، نعت اور سیرت النبی پر ایک تحریر ہے۔

’اگر بچوں کے کردار کی تعمیر میں ہم اپنے رسول اور نبی کی مثال نہیں دیں گے تو کس کی دیں گے؟‘

یکساں نصاب

پاکستان تحریک انصاف کے یکساں نصاب تعلیم کو نافذ کرنے کے پیچھے کارفرما سوچ یہ ہے کہ تمام سرکاری و نجی سکول، حتیٰ کہ دینی مدارس یہ یقینی بنا سکیں کہ اعلی معیار کی تعلیم کے لیے بچوں کو مساوی اور منصفانہ مواقع فراہم ہونے چاہیے

وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ آٹھویں جماعت تک تمام سکولوں کو یکساں قومی نصاب ہی پڑھانا ہو گا لیکن اس کے بعد طلبہ کے پاس اختیار ہو گا کہ وہ برطانوی کیمبرج نظام تعلیم منتخب کریں یا کوئی اور بین الاقوامی نظام تعلیم اختیار کریں۔

پاکستان 21 کروڑ سے زائد آبادی والا ملک ہے لیکن عالمی ادارے یونیسف کے مطابق دنیا میں پانچ سے 16 سال کی عمر کے سب سے زیادہ ناخواندہ بچوں والے ملک کی فہرست میں پاکستان کا دوسرا نمبر ہے۔

یکساں نصاب تعلیم ہے کیا؟

وفاقی وزارت تعلیم و پیشہ ورانہ تربیت کی ویب سائٹ کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کے یکساں نصاب تعلیم کو نافذ کرنے کے ارادے کے پیچھے کارفرما سوچ یہ ہے کہ تمام سرکاری و نجی سکول، حتیٰ کہ دینی مدارس یہ یقینی بنا سکیں کہ ’اعلی معیار کی تعلیم کے لیے بچوں کو مساوی اور منصفانہ مواقع فراہم ہونے چاہیے۔‘

تاہم اقلیتوں کی طرف سے کی جانے والی شکایات کے علاوہ نئے نصاب کے معیار پر عموماً بھی والدین کی طرف سے سوالات اٹھائے گئے ہیں۔

وزارت کی ویب سائٹ کے مطابق یکساں نصاب تعلیم کا مقصد قرآن و سنت کی تعلیم کو فروغ دینے کے علاوہ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے افکار سمیت طلبا میں رٹے رٹائے علوم کے بجائے تنقیدی و تخلیقی سوچ پیدا کرنا ہے۔

اس سال مارچ میں پہلی سے پانچویں جماعت تک کے طلبہ کی پڑھائی کے لیے نیا نصاب لاگو ہو جائے گا اور اس کے تحت انگریزی، جنرل سائنس، ریاضی، معاشرتی علوم اور جنرل نالج کے مضامین لازمی ہوں گے جبکہ غیر مسلم طلبہ کو اختیار ہو گا کہ وہ اسلامیات کے بجائے مذہبی تعلیمات کا مضمون پڑھ لیں۔

نیا نصاب تین مراحل میں لاگو کیا جائے گا۔ رواں سال مارچ میں پہلی سے پانچویں جماعت تک کے نصاب کے بعد اگلے سال چھٹی سے آٹھویں تک جبکہ اُس سے اگلے سال نہم سے بارہویں تک یکساں نصابِ تعلیم نافذ کر دیا جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32299 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp