جسم میرا اور خوش گمانیاں تمہاری


گولڈن گرلز سلسلے کی پہلی تحریر، رابعہ الربا کے قلم سے۔

مارچ جہاں ہمارے علاقوں میں بہار کی آمد کی نوید لاتا ہے۔ وہیں اس مہینے ایک دن عورت کا بھی آتا ہے۔ جو گزر گیا۔ مگر کچھ منافقوں کے دلوں کی بھڑاس ابھی تک نہیں نکل رہی۔ عورت مارچ کچھ عرصہ سے جتنے جوش و خروش سے منایا جا رہا ہے اتنا ہی متنازع ہوتا جا رہا ہے۔

کچھ مرد عورت کے حق میں لکھنے پر ہمیں اتنے جبری فتوے دے رہے ہوتے ہیں جیسے ہمارے ”مامے“ لگتے ہیں۔ جناب ہم بالغ عورتیں ہیں، اگر ہم پسند کی شادی کا حق رکھتے ہیں تو اپنی سوچ رکھنے کا بھی ایک بالغ عورت کو پورا حق ہے۔ آپ کو مسلسل مداخلت و ہماری اصلاح کی کوئی ضرورت نہیں۔ کیونکہ آپ کا اس طرح کا رویہ ہمارے خاندان کی تربیت کو مشکوک کرتا ہے۔ ہر طبقے کے اپنے نارمز (معیارات) ہوتے ہیں۔ جس پہ پتھر اٹھانے کا آپ کو کوئی اخلاقی حق نہیں۔ اور اگر ہم غلط سوچتے ہیں تو اپنے محرم مردوں کو دوزخ میں لے کر جائیں گے۔ آپ ہمارے محرم نہیں لہٰذا ہم سے دور رہیں تو اچھا ہے۔

اپنے گھر کی عورت پہ اپنی ناقص و محدود عقل کا ہاتھ اٹھائیے۔ وہی برداشت کر سکتی ہیں۔ ہم انہیں پہ ہونے ظلم کے خلاف نکلے ہیں۔

ورنہ ہم سب عورتیں جن کو آپ نشانہ بناتے ہیں آزاد ہیں۔ ہمیں اپنی ہی زندگی کے مزے کرنے ہوتے تو ان عورتیں کے حق کی بات کیوں کرتے۔ جو آپ کے تشدد کا نشانہ بنتی ہیں۔ یہیں سے فساد شروع ہوتا ہے۔ اگر یہ بات بھی سمجھ نہ آئے تو پلیز آپ ہمارے محرم نہیں، ہم سے دور رہیں۔

عورت کا عالمی دن گزر گیا، مگر کچھ کے دل پہ لگی ابھی دکھ رہی ہے۔

خواتین کی شمولیت ہر سال اس مارچ میں بڑھتی جا رہی ہے۔ ہر سال کسی نئے مسئلے کو اجاگر کرتا کوئی نیا نعرہ آتا ہے اور مردوں کی بڑی تعداد شاید یہ سمجھ کر بلبلا اٹھتی ہے کہ

”ہے اپنا دل تو آوارہ“

اصل میں خوش گمانی و خوش فہمی یہاں سے شروع ہوتی ہے کہ ارے یار، تمہارا دل آوارہ ہے تو مجھ پہ کیوں نہیں آ جاتا۔ مجھے آوارہ دل ہی تو چاہیے۔ کیونکہ میں نے شادی اماں کی پسند سے ہی کرنی ہے۔ آوارگی کے لیے تم سے اچھا کوئی نہیں۔

اب بات چل نکلی ہے تو دیکھیے کہاں تک پہنچے۔
کئی برسوں سے ایک نعرہ دل پہ برچھی کی طرح لگتا ہے۔ وہ ہے ”میرا جسم میری مرضی“

یہاں سے خوش فہمیوں کے خواب شروع ہوتے ہیں۔ جن کی تفہیم ہر مرد اپنی وسعت قلب کے مطابق کرتا ہے۔ کیونکہ جسم میں ہم دماغ کا استعمال کم ہی کرتے ہیں حالانکہ اصل مادہ وہیں سے پیدا ہو کر جسم کی پوروں میں اترتا ہے۔

ہماری پیاری مردانہ فوج کا شاید خیال ہے کہ ہم کوئی مادر پدر آزادی چاہ رہے ہیں۔
جن چاہتوں کے تیر ہم پہ گرائے جا رہے ہیں۔ وہ تمنا یار تو ہماری پیاری پیاری اس مردانہ فوج کی ہے۔

ان کی خوش فہمی و گمانی ہے کہ یہ آزاد عورتیں ہمیں بھی جسم کی آزادی دے دیں گی اور ہر گلی، ہر موڑ پہ کوئی نیا معرکہ عشق و محبت ہو گا۔ نسل انسانی بنا ذمہ داری کے اپنے تسلسل کو قائم رکھتے ہوئے ہم سے شادی کی زنجیر چھین لے گی۔

ہر طرف آزاد پرندے ہوں گے۔ جنت ہی جنت کے مزے ہوں گے۔ شراب ہو گی، کباب ہوں گے۔ حسن ہو گا، جام ہو گا، رقص ہو گا، موسیقی ہو گی۔
میں ہوں گا، تم ہوں گی، تم بھی ہوں گی، اور تم، تم، تم سب ہوں گی۔
دفتر جاتے کوئی اور محلہ ہو گا، کاروبار سے آتے کوئی نیا فلیٹ ہو گا، رات کو یاد ستائے گی تو تم فون کرو گی ’جانو آ جائیں ناں‘
اور میں بھاگتا ہوا، بستر بیوی سے نکل کھڑا ہوں گا۔ راتیں شب براتیں اور دن باراتوں کے ہوں گے۔

مغرب کے پب تو بے چاری ان عورتوں کی روزی کا اڈا ہوتے ہیں۔ ہماری عورتیں تو بس محبت کے فریب پہ بھی کام چلا لیتی ہیں۔ ہماری بیویوں کو بھی برا نہیں سمجھتیں، یہ مغرب کی عورت تو ہے نہیں، جس کے حقوق ان کی ریاست دیتی ہے۔ یہ تو ہماری عورت ہے۔ اس کا ٹیکس تو اس کے ابا بھی نہیں دیتا۔

اس کا مطلب موج مستی کی کوئی قیامت ہو گی اور ہم ہوں گے۔

بس اسی لیے یہ بے چارے چیخ چیخ کے مغرب کو گالیاں دے رہے ہیں اور ان عورتوں کو روک رہے ہیں کہ اپنے جسم کی بات نہ کرو کیونکہ مجھے جسم کا صرف ایک ہی مطلب سمجھ آتا ہے۔

اور اپنی مرضی کی بات نا کرو۔ مجھے لگتا ہے تم مجھے چھوڑ کر کسی اور کے پاس چلی جاؤ گی۔

تو میری پیاری سی سویٹ کیوٹ اور نان کیوٹ مردانہ فوج! حوصلہ رکھیں۔ دل بڑا کیجیے اور سنیے کہ جسم کے معنی صرف وہ نہیں جو آپ کی خوش فہمی و خوش گمانی میں ہے۔ ہم آپ کے خیالی پلاؤ کو دم لگنے سے قبل آگ بجھا دیں تو اچھا ہے۔

جب میں چند ماہ کی ہوتی ہوں تو مجھے شفقت والے ہی رشتے بعض اوقات ٹٹولنے لگتے ہیں کہ میرے اندر کی عورت کہاں ہے۔
تب میں کیا بتاؤں کہ کس ذہنی و جسمانی اذیت سے گزرتی ہوں۔ کیونکہ برا لمس تو مجھے کوکھ میں بھی محسوس ہو جاتا ہے۔
کیا میں نہ کہوں کہ یہ میرا جسم ہے؟

چند سال کی ہوتی ہوں تو میرے فراک کے نیچے سے آتے ہاتھوں اور آنکھوں سے مجھے تلاش کیا جاتا ہے۔ یہ وہ دوسرا لمحہ ہوتا ہے جب ڈر میرے اندر گھر کر جاتا ہے۔
کیا اب بھی نا کہوں کہ میرا جسم ہے؟

پھر چند سال اور بڑی ہوتی ہوں بلوغت کی عمر قریب آتی ہے۔ میں اپنے جسم کے تغیر سے پہلے ہی ذہنی مطابقت نہیں کر پا رہی ہوتی کہ مرد ہی کیا عورتوں کی بھی نگاہیں اس تغیر کو حسرت و تمنا بھری نگاہوں سے دیکھتے ہوئے اسے چھونے کی متمنی ہوتی ہیں۔

کیا اب بھی نہ کہوں کہ خدارا یہ میرا جسم ہے؟

میں پہلے ہی سمجھ نہیں پا رہی یہ سب تبدیلیاں کیوں آ رہی ہیں۔ کوئی مجھے حوصلہ دینے اور سمجھانے والا نہیں ہوتا کہ پل بھر کو مجھے شفقت سے پاس بٹھا لے اور سینے سے لگا کر کہے، اب تم ایک منصب انسانی پہ فائز ہونے چلی ہو۔ کندھے جھکانے نہیں سیدھے رکھنے ہیں۔ یہ برائی نہیں یہ تو تن پہ کرم ہے۔ قدرت نے تمہارے جسم میں باغ لگا دیے ہیں۔ پھل لگیں گے اور نسلیں فیض اٹھائیں گی اور کوئی اس کے سایہ میں اپنی تھکن کو محبت میں بھی بدلے گا۔ اور پھر وہ تمہارے پھول میں لگے بیج کی حفاظت کرے گا کہ جب اس کو ضرورت تھی تم سایہ تھی۔ اب تم کو ضرورت ہے تو وہ بدلی بن گیا ہے۔

مگر نہیں ایسا نہیں ہوتا۔ مجھے کہا جاتا ہے شرم نہیں آتی۔ تو میرے اندر سوال اٹھتا ہے کیا بنانے والے کو شرم نہیں آ رہی کہ میرے ساتھ ایسا کیوں کر رہا؟

مجھے کہا جاتا ہے کہ اب میری آبشاریں سیراب کرنے کے قابل ہو گئی ہیں تو میں سراپا گناہ ہوں۔
میں گناہ ہوں تو میرے پاس کیوں آتے ہو؟
مجھے بہانوں سے چھو کے کیوں گزر جاتے ہو؟
کیا اب بھی خاموش رہوں کہ یہ میرا جسم ہے؟

اب تو میرا جسم بھی رونے لگتا ہے۔ اور بڑی ہوتی ہوں تو تمہارے پیغام آنے لگتے ہیں کہ کوئی چوٹی ہے جس کو تم نے محبت و عشق کے نام پہ تنہائی میں سر کرنا ہے۔
تم اپنے لفظوں، اپنے لہجوں، اپنی نگاہوں سے محبت کے وہ وار کرتے ہو کہ مجھے نہیں پتا لگتا محبت ہے کیا؟ کوئی بد گمانی کہتی ہے شاید یہی محبت ہو گی۔
تم مجھے چھوتے ہو تو میرا پورا جسم رونے لگتا ہے۔ اتنا گندا لمس۔
اب بھی نہ کہوں کہ میں ایسی محبت آشنا نہیں ہونا چاہتی یہ میرا جسم ہے؟ مجھے اس کا انتظار کرنے دو جو میری طرح اس سب سے انجان ہو گا۔

لیکن تم کو یہ جسم محبت کے نام پہ مفت ملنا چاہیے، کسی رسم، کسی رشتے کے بنا، تاکہ تم اس کی چیر پھاڑ قصائی کی طرح چند گھنٹوں میں بلکہ ساعتوں میں کر دو۔
کیا اب بھی نہ کہوں کہ میرے جسم پہ میرا حق ہے؟

میں اسے قصائی کے حوالے نہیں کرنا چاہتی۔ کسی دہقان کسان کو دینا چاہتی ہوں۔
جو اپنے لمس سے کھدائی، صفائی اور بیج بونے تک کے عمل تک مرحلہ وار گزرتا ہے۔
اور اس کے بعد فصل پکنے تک راتوں کو جاگ کر، میری پیاس کا بھی خیال کرتا ہے۔

میں اور بڑی ہوتی ہوں تو یہ رفتار تمنا بڑھتی چلی جاتی ہے۔ اتنی کہ مجھے مجھ سے نفرت ہو نے لگتی ہے
اس جسم کے دیدار کی تمنا تمہاری خواہش کی پہلی سیڑھی ہوتی ہے۔
میں قابو نہیں بھی آتی تو تم مجھ پہ گندے الزامات لگاتے ہو۔ مجھے فتح کر کے بنجر اور قابض زمینوں کی طرح چھوڑ دینا چاہتے ہو۔
کیا اب بھی نہ چیخوں کہ نہیں یہ میرا جسم ہے؟

مجھے اسے تمہاری آنکھوں کے نور کے اضافے کا سبب نہیں بنانا۔

یہ میرا جسم ہے مجھے بھی اپنے باپ کے شفقت بھرے لمس کی ضرورت ہے۔ مجھے بھی اپنے بھائیوں کے اعتمادی لمس کی ضرورت ہے۔ اگر یہ دونوں طاقتیں مجھے طاقت عطا کر دیں تو میں پورے اعتماد کے ساتھ اس کی طاقت بن جاؤں گی۔ جس کو میں چاہتی ہوں۔

اور جس کی طرف میرا جسم خود لپکتا ہے یہ میرا جسم ہے مجھے بھی علم ہے۔ یہ کسی کی طرف مکمل خود سپردگی کی تمنا رکھتا ہے۔ میں تمہاری جبری محبت کے سامنے اپنے جسم کی بے توقیری نہیں کرنا چاہتی۔

کیا ابھی بھی نہیں بولوں کہ میرا جسم ہے؟ مجھے پتا ہے۔ یہ آوارگی، بے راہ روی اور گلی گلی نہیں جانا چاہتا۔ تمہاری تنہائیوں کے خواب پورے نہیں کرنا چاہتا۔

میں بے نام بچے پیدا کر کے گلیوں میں نہیں پھینکنا چاہتی۔
بے گھر نہیں رہنا چاہتی۔
جسم کا خون اور ہڈیوں کا گودا دے کر درجنوں بچے پیدا کر کے مرنا نہیں چاہتی۔
بیٹے کی خواہش میں بیٹیوں کی قطار میرا جسم بھی چھلنی کرتا ہے جب کہ سپرم تمہارے ہوتے ہیں
نہیں چاہتی کہ تم میرے جسم پہ سوداگری کرو۔
کسی مجبوری کے عوض بکنا نہیں چاہتی۔

جب تم نے مجھے صدیوں جسم رکھا ہے تب تمہارے فلسفے کہاں تھے۔ میں بھی مکمل انسان تھی۔ اب جب میں نے جسم کا نعرہ تم سے بے زاری کی وجہ سے لگایا ہے۔ تم کیسے جاگ گئے ہو۔

میں تمہارے ’جسم جسم‘ سے بیزار ہو گئی ہوں تو سڑکوں پہ آ کر چیخی ہوں کیونکہ تم کو تنہائیوں میں میری آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔

خدارا مجھے مکمل انسان سمجھو سیکس ڈول مت سمجھو۔
مجھے ضرورت کی چیز مت سمجھو۔ مجھے تمہارا پورا وجود چاہیے۔
مجھے محبت کرنے کا حق دو اور میری طرح دو کہ میرے فطری تقاضے اور ہیں۔

مجھے اپنے ساتھ رہنے کا حق دو۔ ایک چھت تلے اکٹھے، خوشی و غمی کے ساتھی بن کر، نہ کہ کمزور لمحوں کے ساتھی بن کر۔
میرے کمزور لمحے میں تم صدیوں سے مجھے تنہا چھوڑ جاتے ہو۔
جب تم نے صدیاں میرے پورے وجود کو نظر انداز کرتے گزار دیں تو اب یہ خالی پتلا اتنا ہی کھنکے گا۔ جتنا تم سن رہے ہو۔

مجھے دھوکہ مت دو کہ تمہیں مجھ سے محبت ہے اگر تمہارا سماج تم کو میرا نہیں ہونے دیتا۔ تمہاری مجبوریاں ہیں۔
میری جان میرا بھی وہی سماج ہے وہ بھی مجھے تم سے تنہائیوں کے درد کی اجازت نہیں دیتا۔

سچ بول دو۔ اور سچ سن لو۔
میں تمہارے ساتھ ڈیٹس نہیں مارنا چاہتی تھی زندگی گزارنا چاہتی تھی۔
مجھے مغرب زدہ مت سمجھو کہ وہ میرا خمیر نہیں، وہ تمہارا انتخاب ہوتا جا رہا ہے۔

میں بیوی ہوں تو میری محبت کسی اور کو مت دو۔
میں معشوق ہوں تو عشق کو مشک کر دو۔ ورنہ دفن کر دو۔
مجھے خالی کر کے جانے والے
تم کو اب بیزاری، بے قراری اور آزادی کے فرق کو سمجھ لینا چاہیے
اور
اگر نہیں سمجھ سکتے تو اپنے گمان پہ قائم رہو کہ انسان کو اس کے گمان کے مطابق ہی ملتا ہے۔
ورنہ مجھے تو محبت تو آج بھی اتنی ہے جتنی جنت سے نکلتے وقت تھی یا کشتی نوح میں سوار ہوتے وقت تھی۔

یہ بلاگ سب سے پہلے ڈی ڈبلیو پر شائع ہوا تھا۔

گولڈن گرلز - رابعہ الربا اور تحریم عظیم
اس سیریز کے دیگر حصےمنافق مرد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

گولڈن گرلز - رابعہ الربا اور تحریم عظیم

گولڈن گرلز کے عنوان کے تحت رابعہ الربا اور تحریم عظیم بتا رہی ہیں کہ ایک عورت اصل میں کیا چاہتی ہے، مرد اسے کیا سمجھتا ہے، معاشرہ اس کی راہ میں کیسے رکاوٹیں کھڑا کرتا ہے اور وہ عورت کیسے ان مصائب کا سامنا کر کے سونا بنتی ہے۔ ایسا سونا جس کی پہچان صرف سنار کو ہوتی ہے۔

golden-girls has 28 posts and counting.See all posts by golden-girls

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments