بیویوں پر لطیفے کیوں گھڑے جاتے ہیں؟


میٹرک میں اردو کی کتاب میں پہلی مرتبہ غزل کو غور سے پڑھنے کی توفیق ہوئی تو اس میں محبوبہ کی حسین بل کھاتی زلفوں، گورے رنگ اور چاند سے چہرے جیسی تعریفیں دیکھیں جو کہ صرف اور صرف محبوبہ کے لئے ہیں کیونکہ محبوبہ کے کیس میں پا لینے کے جہاں تک چانسز ہوتے ہیں، وہیں ہمیشہ کے لئے دوری کے بھی امکانات ہوتے ہیں، سو محبوبہ قیمتی لگتی ہے اور اس کو دیکھنے کی نگاہ بھی ایسی ہی ہوتی ہے کہ حسین زلفیں بل کھا رہی ہوں اور چہرہ چاند سا روشن ہو۔

اس کے برعکس اس اردو کی کتاب میں مختلف افسانوں میں، میں نے بیوی کو ہمیشہ فضول کا شور کرتی، ضدی، لالچی اور ایسی شخصیت کے طور پر پایا جو ہمیشہ شوہر پر شک کرتی ہو۔ ہمارا لٹریچر ہماری سماجی سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ دوغلاپن جو مجھے اردو کی کتاب میں شامل کہانیوں میں دکھا ، اب ہر جگہ دِکھنے لگا۔ ہر دوسری بات میں، ہر ڈرامے میں اور ہر فلم میں۔ اچھے بھلے پڑھے لکھے لوگ ایسی باتیں کرتے سنائی دیے۔ مجھے یہ سوال ستانے لگا کہ آخر کیا ایسا راز ہے کہ محبوبہ حسین و راحت جاں اور بیوی وبال جان ہو جاتی ہے؟

اس کے ساتھ ہی مجھے ہماری روایتی کامیڈی سے چڑ ہونے لگی۔ جب ہر دوسرا لطیفہ جس پر لوگ ہنس رہے ہوتے درحقیقت وہ ہمارے معاشرے کی گندی تصویر ہوتی جیسا کہ چند ہفتوں پہلے ویلنٹائنز ڈے پر فیس بک کے مختلف پیجز پر ایک لطیفہ نظروں سے گزرا جسے پڑھ کر میں ڈسٹرب ہو گئی مگر اس پر کئی ہزار لوگوں نے ’’ہاہا‘‘ ری ایکٹ کیا ہوا تھا۔ لطیفہ کچھ ہوں تھا کہ کچھ مرد ہسپتال میں پڑے ہوئے تھے اور ہسپتال کی دیوار پر لکھا تھا ”ویلنٹائن ڈے متاثرین وارڈ“ اور ان متاثرین کو ان کی بیویوں نے ہوٹلوں میں اور خواتین کے ساتھ ڈیٹ کرتے پکڑا تھا۔

مجھے سمجھ میں نہیں آتا کہ ایسی چیزوں میں ہنسنے والی کیا بات ہے بلکہ میں سمجھتی ہوں کہ ایسی کوئی بات نظروں سے گزرے تو ہمیں فکر ہونی چاہیے کہ آخر ہم کس طرف جا رہے ہیں؟ ایسی کسی بھی عورت کا سوچیں جس پر ہونے والی چیٹنگ کو آپ ایک مذاق بنا رہے ہیں، اس کی نفسیاتی اذیت کا سوچیں اور پھر اپنی بے حسی ملاحظہ فرمائیں۔ ہمارے مزاح کا گھٹیا ہونا صرف اسی حد تک نہیں بلکہ ہم تشدد کو، ہراسانی کو، دوسروں کی جسمانی ساخت کو بھی مذاق کا نام دے دیتے ہیں اور قہقہے لگاتے ہیں۔

ہمارے ہاں اسٹیج ڈراموں سے لے کر مختلف ٹی وی چینلز پر بیٹھے مسخرے سب کے سب اس طرح کے مذاق کرتے ہیں جن میں کسی صنف کی ، خاص طور پر عورت اور خواجہ سرا کی تذلیل شامل ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ کوئی کالا شخص، کوئی چھوٹے قد کا، کوئی ایسا جس کا چہرہ ہمارے بنائے گئے حسن کے معیار پر پورا نہ اترتا ہو، اس طرح کے لوگ ایسے ٹی وی شوز اور اسٹیج ڈرامہ کا حصہ ہوتے ہیں اور ان کا خوب مذاق اڑا اڑا کر باڈی شیمنگ کو بہت عام کیا جا رہا ہے۔ ذرا سوچیے کوئی شخص جو ان میں سے کوئی بھی خصوصیت رکھتا ہو ، وہ سیاہ رنگت کا ہو یا چھوٹے قد کا اور ہر جگہ پر اس کو ایسے مذاق کا سامنا کرنا پڑے تو اس کی نفسیات پر کتنا برا اثر پڑے گا۔

ایسے ہی فضول اور زہریلے لطیفوں میں بیوی پر بننے والے لطیفے سرفہرست ہیں۔ بات بات پر دوسری شادی کا مذاق، ہمسائی سے یا آفس کی کولیگ سے افیئر کا مذاق، کسی دوسری خاتون کے حسن کی تعریفوں کے پل باندھنا وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب نہ صرف ہماری گفتگو میں عام ہے بلکہ ہمارے سب سے زیادہ دیکھے جانے والے ٹی وی ڈرامے جیسا کہ ’بلبلے‘ وغیرہ صرف مردانہ ٹھرک پن دکھاتے ہیں اور لوگ ان ”فیملی ڈراموں“ پر بہت ہنستے ہیں۔

رہی بات یہ کہ بیوی کو ہی کیوں ٹارگٹ کیا جاتا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ بیوی آپ کو حاصل ہو گئی ہے اور ایک روایتی مشرقی عورت جو آپ پر ہر ضروت کے لیے منحصر ہے اور آپ کو حاصل ہو گئی ہے تو آپ کیا خاک اس کی شان میں قصیدے لکھیں گے۔ بس یہی فرق آ جاتا ہے محبوبہ اور بیوی کی شان میں۔ حاصل اور لاحاصل کا فرق۔ اگر بیوی اپنا بوجھ خود اٹھانے والی مضبوط عورت ہو تو شوہر کا یہ رعب تو ٹوٹ جائے گا کہ جیسا مرضی سلوک کر لوں ، اس نے کون سا چھوڑ جانا ہے۔ ایسے میں بیوی کے معیار کو جس کی ہمارے لطیفے بھی نمائندگی کرتے ہیں، بلند کیا جا سکتا ہے۔

آخر میں بس یہی کہنا چاہوں گی کہ ہمارے لطیفے ہماری سوچ کی عکاسی کرتے ہیں اور ہماری زندگیوں پر گہرا اثر رکھتے ہیں،سو جہاں بھی آپ غلیظ اور زہرآلود باتوں کو لطیفے کی صورت میں دیکھیں یا سنیں ، وہیں درستی فرمائیں کہ ایسی غلاظت پر ہنسنے کی نہیں بلکہ فکر کرنے کی ضرورت ہے۔

ایسے لطیفے جو کسی کو نیچا دکھا کر سرور بخشتے ہوں ، کبھی بھی ہماری روحانی صحت پر اچھا اثر نہیں ڈال سکتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments