ایران پر بائیڈن انتظامیہ کی تنقید ٹرمپ دور سے مختلف ہے، خصوصی امریکی مندوب برائے ایران


US Special Envoy for Iran Robert Malley speaks to VOA Persian at the State Department in Washington on March 17, 2021, in his first VOA interview since taking office in January. (VOA Persian)

بائیڈن انتظامیہ کا کہنا ہے کہ اس کی ایران کے انسانی حقوق سے متعلق خراب ریکارڈ پر تنقید، ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے ایران پر کی جانے والی تنقید سے مختلف ہے۔ ایک سینئر امریکی سفارت کار کا کہنا ہے کہ بائیڈن انتظامیہ ایران پر اپنی تنقید میں وزن پیدا کرنے کے لیے، خود اپنے ملک میں انسانی حقوق سے متعلق مسائل کو حل کرنے پر بھی زور دے رہی ہے۔

ایران کے لیے امریکہ کے خصوصی نمائندے رابرٹ میلی نے بدھ کے روز وائس آف امریکہ کی فارسی سروس سے ایک انٹرویو میں کہا کہ صدر بائیڈن نے واضح کر دیا ہے کہ ایران اور پورے خطے میں انسانی حقوق کا احترام ان کی انتظامیہ کی ترجیح ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے ایک زیادہ اصولی موقف کو اپناتے ہوئے، پوری دنیا میں انسانی حقوق کے احترام پر زور دیا ہے، جس میں خود امریکہ بھی شامل ہے۔

امریکه کے خصوصی نمائندے کے انٹرویو سے قبل، بائیڈن انتظامیہ نے 20 جنوری کو اقتدار سنبھالنے کے بعد، ایران میں انسانی حقوق کی صورت حال پر آٹھ بیانات جاری کئے ہیں۔ ان میں سب سے سخت 9 مارچ کو جاری ہونے والا بیان تھا، جس میں ایران کی نیم فوجی تنظیم پاسدارانِ انقلاب کے دو سینئر تفتیش کاروں پر، 2019 اور 2020 کے درمیان حکومت مخالف مظاہرین کے حقوق کو مبینہ طور پر کچلنے پر پابندیاں عائد کی گئی تھیں۔

ٹرمپ انتظامیہ نے اپنی چار برس کی مدت کے دوران، بارہا ایران میں انسانی حقوق کی صورت حال پر آواز اٹھائی تھی، اور ایرانی حکومت سے وابستہ متعدد افراد اور اداروں پر انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں کی وجہ سے پابندیاں عائد کی تھیں۔

ٹرمپ انتظامیہ ہی کے طریقہ کار کو دہراتے ہوئے، بائیڈن انتظامیہ کی جانب سے ایران کے لئے خصوصی مندوب کا منصنب سنبھالنے والے رابرٹ میلی نے انٹرویو میں کہا کہ بائیڈن انتظامیہ ایران میں جرات مند سرگرم کارکنوں کی جدوجہد پر روشنی ڈالنے کی کوشش کر رہی ہے۔ جن میں جیل میں بند وکیل، نسرین ستودے شامل ہیں، جو انسانی حقوق کے لیے کام کرتی تھیں۔ جنیوا میں 9 مارچ کے روز اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں امریکی عہدیدار نے اپنے بیان میں ایران میں انسانی حقوق کا دفاع کرنے والوں کو منظم انداز سے سزائیں دینے پر تنقید کی۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ ایران ایسی سزائیں دینے کے لیے اپنے ملک کے نظام انصاف کے غیر شفاف انداز میں استعمال کو بند کرے۔

امریکی مندوب نے ایک اور پیغام میں، جو ٹرمپ انتظامیہ کے پیغام سے ملتا جلتا تھا،کہا کہ امریکی حکام دہری شہریت رکھنے والے ایرانی امریکیوں کو واپس لانے پر بہت اہمیت دے رہے ہیں، جنہیں یا تو بلا وجہ حراست میں رکھا گیا ہے یا ان کے ایران چھوڑنے پر پابندی عائد کی گئی ہے۔

ایران سے متعلق اپنے پیغام کو سابق امریکی انتظامیہ سے مختلف رکھنے کی کوشش میں رابرٹ میلی کا کہنا تھا کہ امریکہ انسانی حقوق کی لڑائی کو صرف ایران تک محدود نہیں سمجھتا، بلکہ دوسرے ملکوں کو بھی اس میں شامل کرتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ امریکہ خود اپنے ہاں جمہوریت اور انسانی حقوق کے احترام سے متعلق اپنی ذمہ داریوں کے حوالے سے اعتماد کو بحال کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

تاہم رابرٹ میلی کے اس بیان پر امریکی تجزیہ کاروں نے ملے جلے رد عمل کا اظہار کیا ہے۔

امریکی تھنک ٹینک اٹلانٹک کونسل سے وابستہ، باربرا سلاوِن نے ایران کے لیے امریکہ کے خصوصی نمائندے کے موقف کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ ٹرمپ انتظامیہ کا طریقہ کار دہرے معیارات لئے ہوئے تھا۔ انہوں نے کہا کہ ٹرمپ انتظامیہ ایک طرف تو ایران کی بھر پور مخالفت کرتی تھی، جب کہ امریکہ سے دوستانہ تعلقات رکھنے والے سعودی عرب جیسے ممالک میں انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں کو نظر انداز کرتی تھی یا ان سے متعلق نرم رویہ رکھتی تھی۔ انہوں نے کہا کہ یہ بات بہت اہم ہے کہ رابرٹ میلی نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ خود امریکہ کا ریکارڈ اس بارے میں بہت بہتر نہیں ہے۔

امریکی تھنک ٹینک فاؤنڈیشن فار ڈیفینس آف ڈیموکریسیز سے وابستہ، علی رضا نادر نے بائیڈن انتظامیہ کی ایران پالیسی سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ ان کے نزدیک ٹرمپ دور میں عائد کی گئی پابندیوں کو برقرار رکھے بغیر، بائیڈن انتظامیہ، ایران میں انسانی حقوق کی صورت حال میں بہتری سے متعلق کچھ حاصل نہیں کر پائے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ سابق صدر کی پالیسی تھی کہ ایران پر زیادہ سے زیادہ دباؤ ڈالا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ایرانی عوام اس حکومت کا خاتمہ چاہتے ہیں جب کہ ایران پر دباؤ میں کمی سے ایرانی حکومت کو مدد ملے گی۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments