سکھر میں ہندو صحافی اجئے کمار لالوانی کا قتل اور غیر محفوظ صحافت


پاکستان میں صحافت کرنا خطرناک بنتا جا رہا ہے ہے۔ مختلف طریقوں سے صحافت کا گلا گھونٹنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ پاکستان اس وقت دنیا میں صحافت کے حوالے سے خطرناک ملک بنتا جا رہا ہے۔ جہاں پر حکومت طاقت کے زور پر صحافیوں کا معاشی قتل، تشدد، قتل و غارت اور جھوٹے مقدمات درج کر کے قلم کی نوک اور کیمرا کی آنکھ کو کچلنے کی ناکام کوشش کی جا رہی ہے۔ ملک میں خاص طور سندھ کے صحافی گزشتہ ایک دہائی سے نشانہ پر ہیں۔ دیکھا جائے تو صحافی مشکل حالات میں بدترین معاشی بحران بدحالی کے باوجود جان ہتھیلی پر رکھ کر اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔

عوام کے مسائل اعلیٰ ایوانوں تک پہنچا رہے ہیں اور ملک و قوم کی خدمت بھی کر رہے ہیں۔ مگر افسوس کہ وہ قلمکار صحافی غیر محفوظ ہیں۔ اور وہ اپنی بقا کی جنگ اکیلے لڑ رہے ہیں۔ سندھ میں صحافیوں کو سب سے زیادہ نقصان موجودہ حکومت کے 13 سال میں پہنچا ہے۔ اگر ملکی تاریخ کے 74 سالہ تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو سندھ میں جتنا ظلم، تشدد، جبر قتل و غارت اور جھوٹے مقدمات 13 سال میں رکارڈ ہوئے ہیں اتنے گزشتہ 60 سالوں میں نہیں ہوئے۔

موجودہ سندھ حکومت کی جانب سے صحافیوں کی جان مال کی حفاظت کے لئے کوئی قدم نہیں اٹھایا جا گیا ہے۔ صحافیوں کو قتل کیا جا رہا ہے۔ تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ جھوٹے مقدمات درج کیے جاتے ہیں۔ اور مختلف طریقوں سے ہراساں کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ چند روز قبل کراچی جیو نیوز کے شہید صحافی ولی بابر کے قتل کیس میں سزا پانے والے 6 ملزمان کو سندھ ہائی کورٹ سرکٹ بینچ لاڑکانہ نے باعزت بری کر دیا تھا۔ 2011 میں ولی بابر کو قتل کر دیا گیا تھا۔

انسداد دہشتگردی عدالت کشمور نے 6 ملزمان کو جرم ثابت ہونے پر دو ملزمان کو موت کی سزا سنائی تھی جبکہ چار ملزمان کو عمر قید کی سزا سنائی گئی جو ہائی کورٹ نے رد کر دی ہے۔ تازہ سکھر کے علاقے صالح پٹ میں (جو پیپلز پارٹی کے رہنما سید خورشید شاہ اور صوبائی وزیر سید اویس شاہ کا حلقہ انتخاب بھی ہے ) نامعلوم موٹر سائیکل سوار مسلح افراد نے سیلون میں بیٹھے صحافی اجئے کمار لالوانی کو پسٹل کے فائر کر کے زخمی کر دیا گیا۔

جسے سکھر کی سول اسپتال منتقل کیا گیا۔ مگر صحافی اجئے لالوانی زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسا۔ ایس ایس پی سکھر قتل کے دوسرے روز صالح پٹ پہنچے ورثا سے تعزیت کی اور انسانی حقوق کی پارلیمانی کمیٹی کو اجئے کمار کے قتل کی رپورٹ بھی بھیج دی۔ سول سوسائٹی، صحافیوں کی جانب سے احتجاج کا سلسلہ جاری ہے تاہم ابھی تک پولیس قتل کے معمہ کو حل کرنے میں ناکام ثابت ہوئی ہے۔ سندھ میں صرف اجئے کا قتل نہیں ہوا اور بھی بہت سارے صحافیوں کو قتل کیا گیا ہے۔

اجئے کمار کے والد اور چچا سکھر میں وکلا ہیں، اجئے کمار لالوانی صالح پٹ میں صحافت کر رہے تھے۔ وہ بہادری سے نڈر ہو کر لکھتے تھے۔ دھمکیاں ملنے کے باوجود بھی خوف ڈر کا شکار نہ ہوئے۔ اس کی بہادری دلیری اور صحافت کا جنون اسے لے ڈوبا۔ اجئے کمار لالوانی نوجوان خوبصورت غزل کی طرح تھا۔ جب اس کی لاش گھر پہنچی ہو گی تو گھر والوں کے لئے وہ گھڑی کسی قیامت سے کم نہیں ہوگی۔ اجئے کمار لالوانی قتل کیوں ہوا، کس نے کیا، کس سے کروایا یہ قبل از وقت ہے۔

مگر ایک بات پکی ہے کہ قتل ٹارگٹ کلنگ تھا۔ شہر میں سرعام دہشت گردی کر کے صحافی کو قتل کیا گیا ہے اور پولیس نے مقدمہ نامعلوم افراد کے خلاف دائر کر کے اپنا فرض پورا کر لیا ہے۔ سندھ سمیت ملک میں بہت سارے صحافی اپنے فرائض سرانجام دیتے ہوئے اپنی جان گنوا بیٹھے ہیں۔ جیکب آباد کے علاقے میں کوشش کے رپورٹر صحافی ذوالفقار مندراڻی کو فائرنگ کر کے شہید کیا گیا۔ محراب پور میں کاوش اور کے ٹی این نیوز کے رپورٹر صحافی عزیز میمڻ کو اغوا کر کے گلہ دبا کر شہید کر دیا گیا۔

صحافی نور لنجواڻی کو فائرنگ کر کے قتل کیا گیا۔ نوشہرہ فیروز کے علاقے پڈعیدن میں صحافی علی شیر راجپر کو قبر میں دفن کیا گیا۔ لاڑکانہ کے سینیئر صحافی شان ڈھر کو شہید کیا گیا ہے۔ بلال خان کو چاقو مار کر قتل کیا گیا۔ بہادر صحافی موسی خان ہو یا کوئٹہ میں ارشاد مستوئی کا قتل۔ شہید عبدالوہاب ہو یا صحافی حیات اللہ داوڑ کا قتل، شہید صحافی راحت حسین کاظمی ہوں یا حاکم کلھوڑو کا قتل، خیرپور کے مشتاق کنڈ ہو یا شہید صحافی منیر سانگی ہوں، بہت لمبی داستان ہے۔

2020 میں انٹرنیشنل فیڈریشن جرنلسٹ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان سمیت دنیا بھر میں 65 صحافیوں کو قتل کر کے راستے سے ہٹایا گیا ہے۔ گزشتہ 30 سال میں پاکستان سمیت دنیا بھر میں ہزاروں صحافیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ہے۔ محراب پور کے صحافی عزیر میمن کے مرکزی ملزمان ابھی تک قانون کی گرفت سے دور ہیں۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہونے کے باوجود حکومت اہم چینل کے رپورٹر کے قاتلوں کو گرفتار کرنے میں ناکام ثابت ہوئی ہے۔

سکھر اور لاڑکانہ ڈویژن سمیت سندھ بھر میں گزشتہ 13 سال میں 100 سے زائد صحافیوں کے خلاف مقدمات درج ہو چکے ہیں۔ سب سے زیادہ کیسز لاڑکانہ اور سکھر ڈویژن میں درج کیے گئے ہیں۔ جن میں سکھر، لاڑکانہ، شکارپور، خیرپور، نوشھروفیروز، شہید بینظیر آباد، گھوٹکی، کشمور، کندھ کوٹ، قمبر شھدادکوٹ شامل ہیں۔ جبکہ کراچی، حیدر آباد، میرپور خاص، عمر کوٹ، دادو، بدین اور دیگر اضلاع شامل ہیں۔ سندھ میں دوسرے صوبوں کے نسبت صحافیوں کے خلاف مقدمات، قتل و غارت، تشدد اور ہراساں کرنے کے واقعات میں اضافہ اس بات کا ثبوت ہے کہ سندھ حکومت صحافیوں کے مسائل کے حوالے سے غیر سنجیدہ ہے یا وہ خود صحافت کا گلہ گھونٹ رہی ہے۔

سب سے اہم اور بڑی بات یہ ہے کہ جن صحافیوں پر مقدمات درج ہوئے ہیں۔ ان کا جرم صرف لکھنا، مسائل کو اجاگر کرنا، اور عوامی اشوز کو ہائی لائٹ کرنا ہے۔ میں ایسے صحافیوں کو جانتا ہوں جنہوں نے آج تک کیڑے مکوڑوں کو بھی نہی مارا ہوگا ان کے خلاف ایک درجن، آدھا درجن دہشتگردی ایکٹ، بغاوت، ریپ، چوری، ڈکیتی، اغوا برائے تاوان کی کوشش سمیت سنگین کیسز دائر کیے گئے ہیں۔ جو کہ سندھ حکومت اور پولیس کی نا اہلی لاپرواہی اور کھلی دہشت گردی ہے۔

جس کی جتنی مذمت کی جائے وہ کم ہے۔ دوسری جانب صحافتی تنظیموں کی جانب سے کوئی خاص ایکشن نہیں لیا گیا ہے۔ کیسز میں ایسے ایسے پولیس افسران ملوث ہیں جن کا کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہی ہے۔ سکھر میں صالح پٹ کے صحافی اجئے کمار لالوانی کا قتل افسوسناک واقعہ ہے۔ مقتول صحافی دیوان ہندو تھا وہ کھل کر صحافت کرتا تھا اور نڈر تھا۔ تازہ ایڈیشنل آئی جی آفس سکھر ریجن کے سامنے احتجاج کرنے پر سکھر کے پانچ صحافیوں کو نامزد کیا گیا ہے جن پر دہشتگردی ایکٹ، بغاوت، پولیس حملے کرنے، پاکستان کے خلاف تقاریر کرنے کے الزامات لگا کر کیس انسداد دہشت گردی عدالت سکھر میں بھیج دیا گیا ہے۔

کیا کسی احتجاج کے کوریج کرنے پر اس طرح کے مقدمات بننا شروع ہوجائیں تو کون کہے گا کہ سندھ یا پاکستان میں صحافت آزاد ہے۔ ملک کے دیگر علاقوں میں جب بھی کوئی صحافی قتل ہوا ہے تو سخت رد عمل آجا تا ہے مگر سکھر یا سندھ کے کسی بھی علاقے میں صحافیوں کو قتل کیا جاتا ہے یا جھوٹے مقدمات ہوتے ہیں تو کوئی آواز نہیں اٹھاتا۔ کیا سندھ کے صحافی کیڑے مکوڑے ہیں؟ یا سندھ کے صحافی پاکستانی نہیں ہیں۔ چیف جسٹس آف پاکستان، چیف جسٹس آف سندھ، آرمی چیف، آئی جی سندھ، گورنر سندھ، پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ سندھ میں قتل ہونے والے صحافیوں اجئے کمار لالوانی، عزیز میمن سمیت دیگر صحافیوں کے قتل میں ملوث ملزمان کو گرفتار کر کے سخت سزا دی جائے اور صحافیوں کے خلاف دائر مقدمات کا نوٹس لے کر جوڈیشل انکوائری کرائی جائے اور کیسز میں ملوث پولیس افسران اور دیگر ذمہ داروں کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے اور صحافیوں کے حقوق تحفظ کے لئے قانون سازی کر کے مکمل طور پر تخفظ فراہم کیا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments