سعودی عرب ’انڈیا اور پاکستان کے درمیان تناؤ کم کرنے کی کوشش کر رہا ہے‘، عادل الجبیر


مودی عمران خان اور شہزادہ سلمان

سعودی عرب کا کہنا ہے وہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان کشیدگی کو کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں

سعودی عرب کے نائب وزیر خارجہ عادل الجبیر نے اعتراف کیا ہے کہ سعودی عرب انڈیا اور پاکستان کے درمیان کشیدگی کو کم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

عرب نیوز کو دیے ایک انٹرویو میں جبیر نے کہا کہ سعودی عرب پورے خطے میں امن چاہتا ہے اور اس کے لیے متعدد سطح پر کوشش کرتا ہے۔

عادل الجبیر نے کہا ‘ہم علاقے میں امن اور استحکام کے لیے مستقل کوششیں کرتے رہتے ہیں۔ چاہے وہ اسرائیل اور فلسطینیوں کے مابین امن ہو یا لبنان، شام، عراق، ایران، افغانستان کا معاملہ ہو۔

’یہاں تک کہ ہم انڈیا اور پاکستان کے درمیان کشیدگی کو کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ چاہے سوڈان میں استحکام پیدا کرنا ہو یا لیبیا میں جنگ کا خاتمہ ہو، ہم نے ہر جگہ مثبت کردار ادا کیا ہے۔‘

یہ بھی پڑھیے

کیا پاکستان نے سعودی دباؤ پر ابھینندن کو چھوڑا تھا؟

اسرائیلی وزیر اعظم اور سعودی ولی عہد کی ملاقات کی خبریں، سعودی عرب کی تردید

انڈیا نے سعودی عرب کو پاکستان سے چھین لیا ہے؟

اس سے قبل یہ بھی کہا گیا تھا کہ ونگ کمانڈر ابھینندن کی رہائی میں سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کا اہم کردار تھا۔ تاہم اس بات کی تصدیق نہیں کی گئی تھی۔

پلوامہ حملے کے فوری بعد سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے پہلے پاکستان اور پھر انڈیا کا دورہ کیا۔

انڈیا کے خارجہ امور کے ماہرین کے مطابق جہاں سفارتی ’تنی ہوئی رسی‘ کی وجہ سے شہزادہ سلمان نے شدت پسندی کے خلاف پاکستان کی لڑائی میں ان کی قربانی کی تعریف کی، وہیں انڈیا میں وزیر اعظم مودی کی اس بات سے اتفاق کرنے میں انھیں کوئی حرج نہیں تھا کہ کسی بھی طرح سے دہشت گردی کو جائز قرار نہیں دیا جا سکتا۔

صرف یہی نہیں بلکہ سعودی عرب کے نائب وزیر خارجہ عادل الجبیر نے اس وقت کی انڈیا کی وزیر خارجہ سشما سوراج سے اسلامی ممالک کی کانفرنس کے دوران گفتگو کی۔

مگر اس معاملے کو حل کرنے میں سعودی عرب کیوں دلچسپی لے رہا ہے؟

تلمیز احمد سعودی عرب میں انڈیا کے سفیر رہ چکے ہیں۔ انھوں نے گذشتہ سال فروری میں بی بی سی کے نامہ نگار ریحان فضل کو بتایا تھا کہ ‘سعودی عرب ایران مخالف اتحاد میں پاکستان کو اپنے ساتھ رکھنا چاہتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی وہ انڈیا کو ایران سے دور کرنے کی حکمت عملی پر بھی کام کر رہا ہے۔‘

امریکہ میں اقتدار کی تبدیلی سے رشتے متاثر نہیں ہوں گے

عادل الجبیر نے عرب نیوز کو بتایا کہ امریکہ میں اقتدار کی تبدیلی سے سعودی عرب اور امریکہ کے دو طرفہ تعلقات متاثر نہیں ہوں گے۔

انھوں نے کہا کہ دونوں ممالک کے تعلقات مضبوط اور کثیر جہتی ہیں۔

الجبیر نے اپنے انٹرویو میں کہا ‘بائیڈن انتظامیہ نے یہ واضح کر دیا ہے کہ وہ سعودی عرب کے تحفظ کے لیے پرعزم ہے۔’

’بیرونی خطرات پر اب بھی امریکہ ہمارے ساتھ کھڑا ہے۔ ایسی صورتحال میں میں نہیں سمجھتا کہ بائیڈن کی آمد سے ہمارے تعلقات متاثر ہوں گے۔‘

اُنھوں نے مزید کہا کہ ’امریکہ اور سعودی عرب کے تعلقات 80 سال پرانے ہیں۔ یہ رشتہ عالمی سلامتی اور استحکام کے لیے اہم ہے۔ ہمارے معاشی مفادات باہمی ہیں۔ ہم سب مل کر دہشت گردی اور انتہا پسندی کا مقابلہ کر رہے ہیں۔’

سعودی نائب وزیر خارجہ نے یہ بھی کہا کہ حالیہ ہفتوں میں سعودی عرب پر حملے ہوئے ہیں جن کا ایران سے براہ راست تعلق ہے۔

الجبیر نے کہا کہ ’حملے میں استعمال ہونے والے ہتھیار ایران میں بنائے جاتے ہیں یا وہاں سے سپلائی کیے جاتے ہیں۔ تمام میزائل اور ڈرون ایران میں بنے ہیں یا وہاں سے شدت پسندوں کو فراہم کیے گئے ہیں۔‘ ایران ماضی میں اس نوعیت کے الزامات کی تردید کرچکا ہے۔

حالیہ ہفتوں کے دوران سعودی عرب میں سکیورٹی پوسٹوں پر حملوں کی خبریں سامنے آئی ہیں۔ ان حملوں کے لیے سعودی عرب یمن میں سرگرم حوثی باغیوں کو ذمہ دار ٹھہراتا ہے اور ان باغیوں کی حمایت کا الزام ایران پر لگایا جاتا ہے۔

امریکہ نے بھی ان معاملات پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

یمن کے مسئلے کا سیاسی حل

الجبیر نے کہا کہ ایران کے حمایت یافتہ علیحدگی پسندوں کی موجودگی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یمن میں امن ناممکن ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’ہمیں یقین ہے کہ اس کا ایک سیاسی حل ہے۔ ہم اس سیاسی حل تک پہنچنے کی کوشش کر رہے ہیں اور بہت سال پہلے حالات خراب ہونے کے وقت سے ہی ایسا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘

’ہم نے اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچیوں کی ہر کوشش اور ہر اقدام کی حمایت کی ہے۔ ہم نے یمن کی حکومت کو متحد کرنے اور ساؤتھ ٹرانزیشن کونسل میں شامل ہونے کے لیے کام کیا ہے۔ ہم نے امداد کے طور پر 17 ارب ڈالر جمع کیے ہیں۔

’ہم نے واضح کردیا ہے کہ یمن میں واحد حل خلیجی تعاون کونسل (جی سی سی) کے تحت سیاسی حل تلاش کرنا ہے۔ جی سی سی کا اقدام یمنی قومی مذاکرات اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد 2216 کے نتیجے میں کیا گیا تھا۔‘

اُنھوں نے سعودی عرب کے انسانی حقوق کے ریکارڈ کا دفاع کیا جس کے سبب دنیا کے کچھ حصوں میں سعودی عرب کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

یمن

انھوں نے کہا کہ ‘ہمارے خیال میں سعودی عرب نے انسانی حقوق میں بہت ترقی کی ہے۔ پچاس سال قبل ہمارے پاس خواتین کے لیے کوئی سکول نہیں تھا۔ آج کالج میں 55 فیصد طالبات ہیں۔ 70 سال پہلے ہماری خواندگی کی شرح شاید 90 فیصد تھی، آج ہر کوئی پڑھ لکھ سکتا ہے اور سکول جا سکتا ہے۔’

’ستر، اسی سال پہلے بچوں کی شرح اموات بہت زیادہ تھی۔ غالباً تین میں سے دو بچے دو سال کی عمر سے پہلے ہی مر جاتے تھے۔ آج یہ شرح یورپ اور امریکہ کے برابر ہے۔ اسی لیے ہم اپنے لوگوں کو تحفظ، صحت، تعلیم اور مواقع فراہم کر کے ان کا خیال رکھتے ہیں۔‘

انھوں نے یہ بھی کہا ‘ہم نے انسانی حقوق میں بہت ترقی کی ہے جس کے بارے میں سعودی عرب کے نقاد بات کر رہے ہیں، خواتین کو آزادی دینے کے معاملے میں، نوجوانوں کو بااختیار بنانے کے معاملے میں، عدالتی نظام میں اصلاحات کے معاملے میں، نوجوانوں کو ان کی امیدوں، ان کے خوابوں اور ان کی امنگوں کو سمجھنے کے قابل بنانے میں ترقی ہوئی ہے۔ یہ انسانی حقوق ہیں اور یہ اس کا ایک اہم حصہ ہے۔‘

اسرائیل کے بارے میں کیا کہا گیا؟

عادل الجبیر نے اصرار کیا کہ کچھ عرب ممالک اور اسرائیل کے درمیان تعلقات ‘معمول’ پر آنے کے باوجود سعودی عرب ایسا نہیں کر رہا۔

انھوں نے کہا کہ ‘ہم عرب امن اقدامات اور اقوام متحدہ کی متعلقہ قراردادوں پر مبنی دو ریاستی حل چاہتے ہیں، جہاں ایک فلسطینی ریاست موجود ہے اور وہ امن و سلامتی کے ساتھ مل کر رہ سکتی ہے۔ یہی ہمارا مؤقف ہے۔’

‘ہمارا خیال ہے کہ ہم عرب دنیا کو’ تین نا ‘سے دور ہونے میں مدد دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ 1967 میں خرطوم میں ایک اعلان ہوا جس میں کہا گیا ہے کہ ’بات چیت نہیں، تسلیم کرنا نہیں اور امن نہیں’۔ ہم 80 کی دہائی کے دوران فیض (مراکش) میں عرب کانفرنس میں سلطان فہد کے آٹھ نکاتی منصوبے کو آگے بڑھا کر مدد کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘

‘عرب دنیا نے اس منصوبے کو اپنایا تھا اور اصل میں دو ریاستوں کے حل کا مطالبہ کیا تھا۔ اس کے بعد 2002 میں بیروت میں (عرب لیگ) سربراہی اجلاس میں ہم نے عرب امن اقدام کو آگے بڑھایا جس کا مطالبہ کیا تھا، جس کے بارے میں میں نے بتایا کہ دو ریاستیں، ریاستوں کو تسلیم کرنا، تعلقات کو معمول پر لانا، اور ہر ایک چیز جو اچھے ہمسایہ ممالک کے تعلقات کے لیے ضروری ہے۔ اسے عالمی برادری نے اپنایا تھا اور اب بھی ہمارا مؤقف یہی ہے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32547 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp