چھانگے مانگے سے مانگے تانگے تک


ایک تلخ، لائق مذمت اور قابل مرمت امر ہے کہ ہماری چوہتر سالہ سیاسی تاریخ چھانگا مانگا اور مانگا تانگا سے آگے نہ بڑھ پائی ہے۔ چھانگا مانگا محض جیو پولیٹیکل ماڈل نہیں بلکہ survival of the fittest کا مظہر ہے۔ دستور میں اقتدار اعلیٰ عوام کے پاس جبکہ یلغار اعلیٰ کا سر چشمہ اسٹبلشمنٹ ہے۔ ہر دو تین سال کی ننھی منی مقبوضہ جمہوریت ہمیشہ ہی دس سالہ آمریت کا راہ ہموار کرتی گئی۔ دور ایوبی سے پنپنے والے قائد عوام کے سر روٹی کپڑے مکان کا سہرا ضرور سجا مگر سیاسی مخالفین کا تیا پانچا بھی خوب ہوا۔

پھر اپنے سے ”بڑوں“ سے پنجہ آزمائی پر سیدھے سوئے دار جا پہنچے۔ وہیں سے اک مرد مومن کی ”ضیائی تالیف“ سے میاں صاحب کے شجراقتدار کی نشوونما کچھ ایسے ہوئی کہ چھانگا مانگا جیسے ماڈلز منظر عام پر آنے لگے۔ 90ء کے انتخابات میں اوپر والوں کی بے پناہ رحمتوں کے نزول کے موجب اسلامی اتحاد فاتح رہاجس کے بعد مانگے تانگے اور چھانگے مانگے کی باریاں لگنا شروع ہوئیں۔ 99ء میں اک خلائی نمائندے مشرف بہ اقتدار ہوئے تو چودھریوں کی قسمت بھی چمک اٹھی۔

گزشتہ عشرہ قائدین کے بیانات میں تضادات اور کہہ مکرنیوں کا عشرہ رہا۔ بہت سے چور، ڈاکو، چپڑاسی اور قاتل سیاسی کزن بن گئے۔ نہ جانے عمران خان کو بے چارہ اکیلا خان کیوں کہا جاتا ہے حالانکہ پی ڈی ایم کی طرح ان کے ساتھ بھی سات جماعتیں اور ”اوپر والے“ بونس میں ہیں۔ پی ڈی ایم نے تو نہ صرف سیاسی بھائی چارہ بلکہ سیاسی ”بہن بھائی چارہ“ کو بھی رواج دیا ہے۔ کسی نے سچ ہی کہا ہے کہ اسٹبلشمنٹ اصل میں ”اصطبلشمنٹ“ ہے جہاں گھوڑوں کی افزائش کا مثالی بندوبست ہوتا چلا آیا ہے۔

یہی اصطبلشمنٹ سیاسی لوگوں کو اوقات میں رکھنے کے لئے کبھی چھانگے مانگے تو کبھی مانگے تانگے میں الجھائے رکھتی ہے۔ حالیہ سینیٹ الیکشن میں ان دونوں ماڈلز کی کامیاب نمائش جاری رہی ایوان بالا ”ایوان تہ و بالا“ ثابت ہوا۔ کیمرہ گردی اور ویڈیو کریسی کے نادر نمونے منصہ شہود پر آئے۔ یوں ”یوسف ملتان“ کی فتح نے وزیراعظم کو نہ صرف ”اعتماد الدولہ“ بننے پر مجبور کیا بلکہ غیبی کمک سے چھانگا مانگا کی یاد بھی تازہ کردی۔

یہ عقدہ بھی عیاں ہوا کہ ووٹ ضائع کرنے کی تراکیب پہلی بار سیدھی تو دوسری بار الٹی بھی پڑ سکتی ہیں۔ بجا ہے کہ اب گھوڑوں کو مزید بدنام کرنے کی روایت ترک کی جائے اور ہارس ٹریڈنگ کی بجائے ڈونکی ٹریڈنگ کا اصطلاح رائج کی جائے۔ صد شکر کہ خان صاحب کے پاس اب کوئی ایسا دعویٰ، وعدہ یا بڑھک نہیں رہی جس پر اترا سکیں۔ لگتا ہے کہ اللہ نے اقتدار سے اس لئے نوازا کہ قوم کی یہ حسرت باقی نہ رہے۔ گالی تہذیب ہے اور انڈوں، جوتوں اور انسانوں میں تمیز کرنا ناممکن ہو چکا ہے۔ موجودہ لوٹا کریسی خلیل جبران کی اس تحریر سے واضح ہے ”وہ لڑکی جو اس شخص سے بغلگیر ہے وہ کل میری بانہوں میں تھی“ دوسرے دوست نے تعجب سے کہا، اوہ، اس لڑکی نے تو کل مجھ سے بھی ملنے آنا ہے۔

اب ان حالات میں کچھ سوجھتا نہیں کہ سیاستدانوں کو ”کونسٹی ٹیوشن“ سمجھنے کے لئے کون سی ٹیوشن پڑھائی جائے اور سینیٹ کی صفائی کے لئے کس قسم کا ”سینیٹ آئزر“ استعمال کیا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments