برصغیر میں قیام امن اور آرمی چیف کی تقریر


گزشتہ ہفتہ کے دوران اسلام آباد میں سیکورٹی ڈائیلاگ کے نام سے منعقد ہونے والے سیمینار میں وزیر اعظم عمران خان اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی تقریروں کے بعد پاک بھارت تعلقات اور علاقے میں امن کے حوالے سے سیاسی مباحث میں شدت آئی ہے۔

 گو کہ 17 مارچ کو اس کانفرنس کا افتتاح کرتے ہوئے عمران خان نے بھی بھارت کے ساتھ امن کی ضرورت پر زور دیاتھا اور کہا تھا کہ قومی سلامتی اب صرف فوجی صلاحیت میں اضافہ کا نام نہیں ہے بلکہ اس مقصد کے لئے ماحولیات سمیت متعدد دوسرے شعبوں پر توجہ دینے کی بھی ضرورت ہے۔ یہ کام باہمی دشمنی و تصادم کے ماحول میں نہیں ہوسکتا۔ بھارت کو کشمیر کا مسئلہ حل کرنے کی طرف پیش قدمی کے ذریعے علاقے میں قیام امن کے لئے پہلا قدم اٹھانا چاہئے۔ اگلے ہی روز جب جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی یہی بات کہی اور واضح کیا کہ فوجی محاذ آرائی برصغیر میں غربت اور پس ماندگی کا سبب بنی ہوئی ہے۔ اس صورت حال کو ختم ہونا چاہئے اور مل جل کر امن و خوشحالی سے ساتھ رہنے اور مواصلات و تجارت کی ترقی کے لئے کام کرنا چاہئے۔ انہوں نے بھی بھارت پر واضح کیا کہ اس مقصد کے لئے کشمیر کا مسئلہ حل کرنا ضروری ہوگا۔

 بھارت کے ساتھ امن کے حوالے سے ملک میں جاری مباحث کی بنیاد جنرل باجوہ کا بیان ہی بنا ہے۔ ان کے یہ فقرے خاص طور سے حوالے کے طور پر پیش کئے جارہے ہیں کہ ’ہمیں ماضی کو دفن کرکے آگے بڑھنا چاہئے‘ اور ’امن کے لئے اندرونی حالات کو بھی درست کرنا ہوگا‘۔ بھارت کی طرف سے وزیر اعظم یا آرمی چیف کے بیانات پر کوئی براہ راست رد عمل سامنے نہیں آیا ہے حالانکہ ان بیانات میں بھارت کو ہی مخاطب کرتے ہوئے بات کی گئی ہے۔ تاہم پاکستانی مبصر اور دانشور پاک فوج کے سربراہ کی طرف سے بھارت جیسے دشمن کے ساتھ امن قائم کرنے کی بات کو بہت اہم سمجھ رہے ہیں۔ یہ امید کی جارہی ہے کہ اگر اس حوالے سے ٹھوس اور مثبت پیش قدمی ہو تو دیرینہ عداوت کا خاتمہ کرکے عوامی بہبود کی راہ ہموار ہوسکتی ہے۔ اس گفتگو میں یہ نکتہ اہم اور قابل غور ہے کہ مباحث کی بنیاد وزیر اعظم کی تقریر نہیں بنی جو انہوں نے اس سیکورٹی مکالمہ کا افتتاح کرتے ہوئے آرمی چیف سے ایک روز پہلے کی تھی اور تقریباً انہی خطوط پر بات کی تھی جنہیں جنرل قمر جاوید باجوہ نے اگلے روز اپنی تقریر میں بیان کیا ۔ برصغیر میں امن کی ضرورت اور ماضی کو دفن کرنے کے لئے بات چیت کا حوالہ صرف جنرل باجوہ کی تقریر کو ہی بنایا گیا ہے۔

غور کیا جائے تو شاید یہی پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازعہ اور تصادم کی بنیاد بھی ہے۔ پاکستان میں آرمی چیف کی تقریر کو بنیاد بنانے اور اسے قابل غور و فکر سمجھنے کی وجوہات قابل فہم ہیں۔ گو کہ ملک میں ایک منتخب حکومت موجود ہے اور پارلیمنٹ بھی ’فعال‘ ہے اور حال ہی میں سینیٹ کے انتخابی عمل کی تکمیل سے ایوان بالا بھی مکمل ہوچکا ہے اور سیاسی مکالمہ و فیصلوں میں کردار ادا کرسکتا ہے۔ البتہ پاکستان میں کسی کو اس بات پر حیرت نہیں ہوتی کہ خارجہ پالیسی اور قومی سلامتی سے متعلق جن امور پر منتخب حکومت کو رہنمائی کرنی چاہئے، ان پر پاک فوج فیصلے کرنے اور رہنما اصول مرتب کرنے کی مجاز ہے۔ منتخب وزیر اعظم نے اس طریقہ کو قومی اداروں میں اشتراک یا ’ایک پیج‘ کی حکمت عملی‘ قرار دے کر قبول کیا ہؤا ہے بلکہ اس کے ترجمان بنے ہوئے ہیں ۔ پاکستانی عوام، دانشور اور سیاست دان کسی نہ طور سے اس بات کو قبول کرچکے ہیں کہ آرمی چیف ہی دراصل ملک کا ’حکمران‘ ہے اور اسی کو حتمی فیصلہ کرنے کا حق حاصل ہے۔ اس مزاج کو راسخ کرنے والے عوامل کے بارے میں گفتگو ہوتی رہتی ہے تاہم اس وقت یہ پہلو موضوع گفتگو نہیں ہے۔

 نئی دہلی سمیت پوری دنیا کے دارالحکومتوں کو معلوم ہے کہ پاکستان میں قومی سلامتی یا علاقائی حکمت عملی کے حوالے سے فیصلے کرنے کا اختیار پاک فوج کے پاس ہے۔ اس لئے پاک بھارت تعلقات ہوں یا افغانستان میں قیام امن کا معاہدہ، اصل اہمیت جی ایچ کیو کو دی جاتی ہے۔ دنیا بھر سے آنے والے اہم سفارت کار، وزیر یا سربراہان حکومت و مملکت اس وقت تک دورہ پاکستان کو مکمل نہیں سمجھتے جب تک آرمی چیف کے ساتھ ان کی ملاقات اور مکالمہ نہ ہوجائے۔ جمہوریت کا سفر طے کرنے کے باوجود اپنے ملک کے بارے میں یہ تصویر ہم نے خود ہی بنائی ہے۔ اس میں صرف فوج کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ گو کہ فوج ہی ملکی سیاست کو اس سطح پر لائی ہے کہ اب پاکستان کے حوالے سے کسی بھی وعدے یا اعلان کو اس وقت تک قابل اعتبار نہیں سمجھا جاتا جب تک اسے فوج کی تائید و حمایت حاصل نہ ہو۔ بلکہ ملکی حکومت اور پارلیمنٹ بھی اس کا اہتمام کرتی ہے کہ اہم معاملات پر فیصلے کرتے ہوئے فوج کو ’آن بورڈ‘ لے لیا جائے۔

دنیا بھر کے ممالک میں یہ طریقہ اختیار کیا جاتا ہے کہ قومی سلامتی کے امور پر کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے عسکری قیادت کی رائے لے لی جائے اور اسے فیصلہ سازی میں جگہ دی جائے لیکن اس کا برملا اظہار جس طرح پاکستان میں ہوتا ہے، وہ دنیا کے کسی ایسے ملک میں مشاہدہ نہیں کیا جا سکتا جو کسی آئینی جمہوریت پر کاربند ہو۔ ملک میں اس وقت سیاست میں فوج کے اثر و رسوخ پر سنجیدہ احتجاج کیا جا رہا ہے۔ لیکن حالات اس نہج تک پہنچ چکے ہیں کہ جمہوری روایت کی سربلندی کے لئے قائم ہونے والے اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم میں پیدا ہونے والے اختلاف کو بھی عسکری ’اثر و رسوخ‘ کا شاخسانہ قرار دیا جاتا ہے۔ سینیٹ میں چئیرمین اور ڈپٹی چئیرمین کے انتخاب میں اپوزیشن اکثریت کے باوجود ہار جائے تو اسے بھی عسکری اسٹبلشمنٹ کی طرف منسوب کیا جاتا ہے۔ اسی بنیاد پر ملکی میڈیا چیخ چیخ کر آصف زرداری کو دانش و حکمت کا منبع قرار دیتا ہے کہ وہ ’حقیقت پسند ‘ سیاست دان ہیں اور اسٹبلشمنٹ کے ساتھ ٹکراؤ کی بجائے ’مفاہمت‘ سے چلنا چاہتے ہیں۔ جبکہ مریم اور نواز شریف موجودہ نظام کو تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔

موجودہ حکومت کو ’باجوہ ڈاکٹرائن‘ کے نتیجے میں قائم ہونے والی ’ہائیبرڈ حکومت‘ کہا جاتا ہے۔ عمران خان اور ان کے ساتھی اس میں کوئی شرمندگی بھی محسوس نہیں کرتے۔ ملک میں عملیت و حقیقت پسندی کے نام پر جس سیاسی رویہ کو فروغ دیا جا رہا ہے، اس میں اس طریقہ کو ہی نظام کا نام دیا گیا ہے۔ جو بھی اس طریقہ کو آئین یا جمہوری تقاضوں سے متصادم قرار دینے کی کوشش کرتا ہے،اسے پاکستانی حالات و پس منظر سے نابلد قرار دیا جاتا ہے یا وہ ملک دشمن قرار پاتا ہے۔ پاکستانی عوام تو دور کی بات ہے، ملک کے ’دانشور طبقے‘ کو بھی یہ باور کروانا محال ہے کہ یہ انتظام صرف ملکی آئین اور مسلمہ جمہوری روایات سے ہی متصادم نہیں ہے بلکہ اس طریقہ سے پاکستان جمہوری مملکت کے طور پر اپنی شناخت اور پہچان سے محروم ہو رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کسی بھی اہم عالمی ادارے یا دارالحکومت میں پاکستانی پارلیمنٹ کی بجائے پاکستانی فوج کے اشارے کو اہم سمجھا جاتا ہے۔

ملک اگر خوشحال و مطمئن ہو اور اپنے داخلی و عالمی اہداف حاصل کرنے میں کامیاب ہو تو اس طریقہ کو قبول کرنے میں بھی شاید کوئی حرج نہ ہو یا کم از کم اس کے حق میں مضبوط دلیل دی جا سکے۔ لیکن سب سے بڑا مسئلہ ہی یہ ہے کہ اس انتظام نے پاکستان کو ناقابل اعتبار بنا دیا ہے۔ واشنگٹن سے لے کر بیجنگ اور نئی دہلی تک یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کو صرف دباؤ کے ذریعے ’درست راستے‘ پر گامزن رکھا جا سکتا ہے۔ یہ دباؤ براہ راست فوج پر ڈالا جاتا ہے۔ سابق امریکی صدر کے دور میں افغان مذاکرات کا آغاز اس حوالے سے نمایاں مثال ہے۔ صدر ٹرمپ نے جنوری 2017 میں اقتدار سنبھالنے کے بعد پاکستان کی ہمہ قسم امداد بند کی اور ٹوئٹ بیانات میں مسلسل پاکستانی قیادت پر الزام تراشی کی۔ اس دباؤ کے نتیجے میں پاکستان نے طالبان کے حوالے سے اپنی حکمت عملی تبدیل کی اور انہیں مذاکرات پر آمادہ کیا۔ شاہ محمود قریشی ضرور اسے ’شاندار سفارتی کامیابی‘ قرار دے سکتے ہیں لیکن بچہ بچہ اس کا پس منظر جانتا ہے۔ ایف اے ٹی ایف کے ساتھ معاملات میں بھی جمہوری حکومت قانون سازی کا تمغہ اپنے سینے پر سجا سکتی ہے لیکن لشکر طیبہ اور جیش محمد کی قیادت کو لگام ڈالنے اور انہیں غیر مؤثر کرنے کے فیصلے کہیں اور ہوئے تھے۔

اس کا سب سے بڑا نقصان بھارت اورپاکستان کے درمیان اعتماد کو پہنچا ہے۔ پرویز مشرف کے دور میں آگرہ میں غیر روایتی اصولوں کی بنیاد پر کشمیر کا مسئلہ حل کرنے کا معاہدہ کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ بھارتی حکومت آخری لمحے پر پاکستانی فوج پر ’عدم اعتماد‘ کی وجہ سے اس معاہدہ سے بدک گئی۔ اس بد اعتمادی کا عمل ستمبر 1965 کا سبب بننے والے عوامل سے ہوتا ہؤا کارگل تنازعہ تک پہنچتا ہے۔ فروری 1999 میں باچپائی کا دورہ لاہور ہو یا دسمبر 2015 میں نریندر مودی کی اچانک لاہور آمد، خیرسگالی کے ان امکانات کو پاکستانی فوج یا اس کی پشت پناہی میں کام کرنے والے عناصر نے نقصان پہنچایا۔ باجپائی کے دورہ کے بعد کارگل کا سانحہ ہوتا ہے اور مودی کے آنے کے فوری بعد پٹھان کوٹ پر حملہ دیکھنے میں آتا ہے۔ ان واقعات میں کوئی تسلسل نہ بھی تلاش کیا جائے تو بھی یہ سمجھنے کی غلطی نہیں کرنی چاہئے کہ ان واقعات نے پاک فوج پر بھارت کے بھروسہ کو ’مضبوط‘ کیا ہے۔ نئی دہلی کو یقین ہے کہ پاکستانی فوج صرف مشکل وقت میں مہلت لینا چاہتی ہے لیکن وہ بھارت کے ساتھ حقیقی امن کی طرف کبھی نہیں بڑھے گی کیوں کہ اس کی اصل قوت کشمیر تنازعہ کو زندہ رکھنے میں ہی مضمر ہے۔

پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت اگر واقعی خطے میں امن اور بھارت کے ساتھ دشمنی کا سلسلہ ختم کرنے میں یقین رکھتی ہے تو اسے سب سے پہلے اس بے یقینی اور بداعتمادی کو ختم کرنا ہوگا جو پاکستانی فوج کی سیاسی طاقت اور ارادوں کے بارے میں موجود ہے۔ جنرل باجوہ نے اپنے گھر کے معاملات کو درست کرنے کا اشارہ دیا ہے۔ نئی دہلی کو پاکستان کی جمہوری حکومت کی اتھارٹی اور فیصلہ کن حیثیت باور کروانے کا ایک آسان طریقہ تو یہی ہے کہ پاک فوج سیاسی معاملات میں ڈاکٹرائن اور روڈ میپ دینے کا طریقہ ترک کرکے فیصلہ سازی میں ’بیک بنچز‘ پر اپنی حیثیت کو قبول کرلے۔ ملک میں جب عوام کے ووٹ سے بننے والی حکومت حقیقی بااختیار ہوگی تو اعتبار کا ٹوٹا ہؤا تعلق بھی بحال ہو سکے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2767 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments