ویکسین کی دوڑ میں ہم کہاں کھڑے ہیں؟ (مکمل کالم)


دنیا میں ویکسین بنانے والی سب سے بڑی کمپنی کا نام ’سیرم انسٹیٹیوٹ پرائیویٹ لمیٹڈ‘ ہے، یہ بائیو ٹیکنالوجی اور فارماسیوٹیکل کمپنی ہے جو 1966 میں نجی طور پر قائم کی گئی تھی اور یہ بھارت کے شہر پونا میں واقع ہے۔ یہ کمپنی ایک باپ اور بیٹے کی ملکیت ہے اور اس کمپنی میں آکسفورڈ کی ویکسین ایسٹرا زینیکا تیار کر کے پوری دنیا میں سپلائی کی جا رہی ہے۔ پہلے پہل جب میں نے یہ خبر سنی تو مجھے بہت حیرت ہوئی کہ آکسفورڈ کی ویکسین پونا میں کیوں اور کیسے تیار کی جا رہی ہے لیکن پھر امریکی خبر رساں ادارے این پی آر نے یہ گتھی سلجھا دی۔

گزشتہ برس جب کرونا وائرس کی وبا نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا تو پونا کی اس کمپنی کے مالکان یعنی باپ اور بیٹے نے کھانے کی میز پر بیٹھے بیٹھے پانچ منٹ میں یہ فیصلہ کیا کہ وہ آکسفورڈ کی ایسٹرا زینیکا ویکسین کے آزمائشی تجربات کے حتمی نتائج سے پہلے ہی ویکسین کی شیشیاں تیار کر کے رکھ لیں گے، اگر ویکسین کے تجربات کامیاب ہو گئے تو ان کے پاس فوری طور پر لاکھوں کی تعداد میں ویکسین کی سپلائی موجود ہو گی اور اگر یہ تجربات ناکام ہوئے تو ان کے کروڑوں ڈالر کی سرمایہ کاری ضائع ہو جائے گی۔

ظاہر ہے کہ یہ ایک قسم کا جوا بھی تھا مگر کمپنی کے سی ای او کا کہنا ہے کہ انہیں یہ فیصلہ کرنے میں کوئی مشکل نہیں ہوئی کیونکہ ان کی کمپنی کسی کو جوابدہ نہیں ہے، یہ خاندانی کاروبار ہے جو ہم باپ بیٹا مل کر چلاتے ہیں۔ ایسٹرا زینیکا ویکسین کا تجربہ کامیاب رہا۔ آج یہ کمپنی ایک منٹ میں ویکسین کی پانچ ہزار شیشیاں تیار کر کے سپلائی کرتی ہے، اگلے ماہ اپریل میں کمپنی کا ہدف ایک ماہ میں ویکسین کی دس کروڑ خوراکیں تیار کرنا ہے۔

ایک خوراک کی قیمت 4 ڈالر یعنی پاکستانی چھ سو روپے ہے۔ بھارت بائیوٹیک نامی انڈیا کی ایک اور کمپنی ہے جس کا مرکزی دفتر حیدر آباد میں واقع ہے۔ یہ بھی فارما سیوٹیکل کمپنی ہے جو ادویات اور ویکسین بناتی ہے۔ اب تک یہ کمپنی 16 مختلف اقسام کی ویکسین بنا چکی ہے جو 123 ممالک میں برآمد کی جاتی ہیں۔ بھارت بائیوٹیک نے کرونا وائرس کی ویکسین بھی تیار کی ہے جو 80.6 %تک موثر ہے، اس ویکسین کا نام Covaxinرکھا گیا ہے، بھارتی حکومت نے اس برس جنوری میں ہنگامی بنیادوں اس کی منظوری دی تھی جس پر کچھ تنقید بھی ہوئی۔ نریندر مودی اور ان کی کابینہ کے چند وزرا نے یہی بھارتی ویکسین لگوائی ہے۔

ویسے تو ہمیں پوری دنیا کے ساتھ ہی اپنا موازنہ کرنے کا شوق ہے، اور یہ کوئی ایسی غلط بات بھی نہیں، خود احتسابی کے لیے ضروری ہے کہ ہم یہ جانیں پوری دنیا کے مقابلے میں ہم کہاں کھڑے ہیں، مگر صحیح معنوں میں ہمارا موازنہ اگر کسی ایک ملک کے ساتھ بنتا ہے تو وہ ہندوستان ہے کیونکہ چوہتر سال پہلے ہم اس ہندوستان کا حصہ تھا۔ اور چونکہ یہ ایک ہی ملک تھا سو اس کے مسائل بھی ایک جیسے تھے۔ کرپشن اور اقربا پروری، کام چوری اور نا اہلی۔

لیکن پھر ان چوہتر برسوں میں ایسا کیا ہوا کہ آج انڈیا کی کمپنیاں کرونا ویکسین کی کروڑوں خوراکیں تیار کر کے دنیا بھر میں تقسیم کر رہی ہیں اور ہم منہ اٹھائے ہونقوں کی طرح ایک دوسرے کی شکل دیکھ رہے ہیں؟ چوہتر برسوں میں جو کچھ ہوا اسے بیان کرنے کا یہاں موقع ہے اور نہ کوئی فائدہ، بس اتنا کہنا کافی ہے کہ ہماری نسل کو کچھ لطیفے اور جملے رٹا دیے گئے تھے جن کو ہم نے سچ سمجھ لیا تھا۔ مثلاً ایک پاکستانی انڈیا گیا تو وہاں اس کی ملاقات ایک دانشور سے ہوئی، اس دانشور نے انڈیا کی ان چیزوں کی تفصیل بتانی شروع کی جو وہاں کے کارخانوں میں تیار کی جاتی تھیں اور پھر بولا ’مہاراج، ہم یہ تمام چیزیں بھارت میں بناتے ہیں، آپ کے ہاں تو سوئی بھی نہیں بنتی؟

”اس پر ہمارا پاکستانی ہیرو مسکرا کر جواب دیتا ہے“ ہم نے ایٹم بم بنا لیا ہے، انشا اللہ ایک دن سوئی بھی بنا لیں گے۔ ”جو نسل اس قسم کی جملے بازی سن کر جوان ہوئی ہو اسے یہ خبر ایٹم بم سے کم نہیں لگے گی کہ انڈیا اس وقت کرونا وائرس کی ویکسین کی خوراکیں تیار کرنے کی دوڑ میں دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے اور کوئی بعید نہیں کہ امریکہ کو پچھاڑ کر پہلے نمبر پر آ جائے۔ کرونا سے پہلے بھی دنیا کی ساٹھ فیصد ویکسین بھارت میں ہی تیار ہوتی تھی۔

ایک اور لطیفہ سن لیں۔ حال ہی میں کچھ بھارتی اخبارات میں یہ خبریں شائع ہوئیں کہ بھارت پاکستان کو کرونا ویکسین فراہم کرے گا تاہم جب پاکستانی دفتر خارجہ سے اس خبر کی تصدیق کے لیے کہا گیا تو جواب ملا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ویکسین کی خریداری کا کوئی دو طرفہ معاہدہ نہیں ہوا۔ گویا جس ملک سے پوری دنیا کو چھ سو روپوں میں ویکسین کی خوراک مل رہی ہے اس ملک سے ہماری سرحد ملی ہوئی ہے مگر ہم اس سے خریداری نہیں کر سکتے۔ یہ ہے خلاصہ ان دو ہمسایہ ممالک کے چوہتر برس کے تعلقات کا۔

میں معذرت چاہتا ہوں کہ بات پاک بھارت تعلقات کی طرف نکل گئی حالانکہ آج صرف کرونا وائرس کی ویکسین کے بارے میں بات کرنی تھی۔ جب سے ویکسین آئی ہے ایک عجیب تماشا شروع ہو گیا ہے۔ ہم میں سے وہ لوگ جنہوں نے میٹرک میں بھی سائنس نہیں پڑھی، وہ بھی یکایک وائرولوجسٹ بن گئے ہیں اور ویکسین کی ’تاثیر‘ (efficacy) کے بارے میں سوال پوچھتے نظر آتے ہیں۔ سوال ان کا یہ ہوتا ہے کہ کوئی بھی ویکسین سو فیصد محفوظ نہیں تو پھر لگوانے کا کیا فائدہ؟

ویسے ہم عجیب لوگ ہیں، کرونا سے پہلے جب ہم ڈاکٹر کے پاس کسی بیماری کے علاج کے لیے جاتے تھے تو ڈاکٹر نسخہ لکھ کر ہاتھ میں تھما دیتا تھا جو ہم سے پڑھا نہیں جاتا تھا، ہم اسے کیمسٹ کے سامنے رکھ دیتے تھے، وہ دوائیاں دے کر سمجھاتا تھا کہ کون سی دوا کب کھانی ہے، ہم کبھی کسی دوا کا لیبل پڑھتے تھے اور نہ ہی اس کی تاثیر دیکھتے تھے اور ٹھیک بھی ہو جاتے تھے۔ کرونا نے ہمیں بہت سیانا کر دیا ہے، اب ہم یہ پوچھنا ضروری سمجھتے ہیں کہ موڈرنا بہتر ہے یا سپوتنک۔

اب آپ سے کیا پردہ، یہ سوال میں نے بھی مختلف ڈاکٹروں سے کیا ہے اور جواب اس کا یہ ہے کہ ہر قسم کی ویکسین ٹھیک ہے، دنیا کی کوئی بھی ویکسین سو فیصد محفوظ نہیں ہوتی، البتہ یہ ضرور ہے کہ کرونا کی ویکسین موت یا شدید علامات سے محفوظ رکھے گی، ممکن ہے ویکسین لگوانے والوں میں سے کسی ایک آدھ کو کورونا ہو جائے مگر یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہو گی کیونکہ تجرباتی مراحل میں یہ بات پہلے ہی سامنے آ چکی ہے۔

ویکسین کے دراصل دو بڑے فائدے ہیں۔ ایک، ویکسین لگوانے والا موذی مرض سے محفوظ ہو جاتا ہے، دوسرا، وبا کی روک تھام میں مدد ملتی ہے۔ جب آبادی کے بڑے حصے کو ویکسین لگ جائے گی تو لوگ کرونا سے بیمار نہیں ہوں گے اور یوں وبا کے پھیلنے کی شرح ’آر ناٹ‘ نیچے آ جائے گی۔ مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ جسے ویکسین لگ جائے وہ ماسک پہننا یا احتیاط کرنا چھوڑ دے کیونکہ ویکسین لگوانے کے باوجود آپ کے جسم کے کسی حصے پر کرونا وائرس لگ سکتا ہے جو آپ کسی ایسے شخص کو منتقل کر سکتے ہیں جسے ابھی ویکسین نہ لگی ہو۔

ویسے بھی کرونا وائرس کی تیسری لہر میں مریضوں کی زیادہ تعداد کی وجہ اس وائرس کا ’یو کے سٹرین‘ ہے جو پہلے کی نسبت زیادہ آسانی اور تیزی سے پھیلتا ہے۔ اصل سوال یہ نہیں کہ کون سی ویکسین زیادہ موثر ہے، اصل سوال یہ ہے کہ ویکسین کی اس دوڑ میں ہمارا ملک کہاں کھڑا ہے؟ جو ویکسین بھارت میں چھ سو روپوں بنائی جا رہی ہے، وہی ویکسین جب ہماری ادویات ساز کمپنیاں اور اسپتال کے مالکان جب کسی اور ملک سے امپورٹ کر کے منگوائیں گے تو عوام کو کتنے ہزار روپوں میں بیچیں گے؟ ان سوالات کا جواب تلاش کرنا ضروری ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

یاسر پیرزادہ

Yasir Pirzada's columns are published at Daily Jang and HumSub Twitter: @YasirPirzada

yasir-pirzada has 495 posts and counting.See all posts by yasir-pirzada

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments