خواجہ سراؤں کے ساتھ پولیس گردی کا سدباب ضروری ہے


مخنث کو عام زبان میں ٹرانس جینڈرز، ٹرانس سیکسول، ہیجڑہ، خواجہ سرا یا چھکا بھی کہا جاتا ہے۔ ٹرانس جینڈرز کو سمجھنے کے لئے سس سیکس کو سمجھنا ضروری ہے۔ سس سیکس ایسے افراد کو کہا جاتا ہے جن کے جسم اور دماغ میں مطابقت پائی جاتی ہو، مطلب وہ جیسے دکھتے ہوں ان کا باڈی پیٹرن جیسا نظر آتا ہو یہ اسی طرح کی سوچ بھی رکھتے ہوں اور اسی طرح کے کام بھی کرتے ہوں۔

ٹرانس جینڈرز تیسری جنس کو کہا جاتا ہے۔ مطلب ایسے افراد جن کی پیدائش کے وقت شناخت اور تھی لیکن بڑے ہونے کے بعد جب انھوں نے اپنے آپ کو سمجھنا شروع کیا تو ان کی شناخت الٹ ہو گئی۔ جیسے ایک بچہ جو پیدائش کے وقت نر پیدا ہوا تھا بڑے ہونے کے ساتھ اس کی عادات اور سوچ مادہ جیسی ہوتی چلی گئیں ایسے افراد کو ٹرانس وومن کہا جاتا ہے۔ ایسی بچیاں جو مادہ پیدا ہوئیں لیکن بڑے کے ہونے ساتھ ساتھ انھوں نے لڑکوں کی طرح سوچنا شروع کر دیا اور لڑکوں والے کام کرنا شروع کر دیے انھیں ٹرانس مین کہا جاتا ہے۔ انٹرسیکس وہ لوگ ہوتے ہیں پیدائش کے وقت جن کی شناخت صحیح طور پر ظاہر نہیں ہوتی اور بڑے ہو کر یہ اپنے آپ کو مرد، عورت یا ٹرانس جینڈر کچھ بھی تصور سکتے ہیں۔

بہت سے ٹرانس جینڈرز اپنا پہناوا تبدیل کر کے اپنی جین تبدیل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جبکہ جن خواجہ سراؤں کے پاس وسائل ہوتے ہیں وہ آپریشن کروا کر اپنی جین تبدیل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

پوری دنیا کے خواجہ سراء اپنے بنیادی انسانی حقوق کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ خواجہ سراؤں کی نصف کے لگ بھگ آبادی جوانی میں قدم رکھنے سے پہلے ہی خودکشی کو ترجیح دیتی ہے جبکہ بقیہ نا انصافیوں کے ساتھ زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

مغلیہ دور میں خواجہ سراء بڑی شاہانہ زندگی گزارا کرتے تھے۔ ہیجڑوں یا کنر کے لئے خواجہ سراء جیسے مہذب الفاظ کا استعمال مغلیہ دور میں ہی شروع ہوا۔ مغلیہ دور میں خواجہ سراؤں کو سلطنت کا سب سے زیادہ وفادار ملازم تصور کیا جاتا تھا۔ خواجہ سراء حرم کی حفاظت، شاہی خاندان کے اساتذہ، عدالتوں میں ایڈوائزر سے لے کر فوج میں جرنل تک کے عہدوں پر فائض رہے ہیں۔ خواجہ سراؤں کی عزت اور احترام کا یہ عالم تھا کہ محل سے باہر نکلنے پر شاہی سیکورٹی ان کے ساتھ نکلا کرتی تھی۔

مغلیہ سلطنت کے زوال کے ساتھ خواجہ سراؤں کے انسانی حقوق کا زوال بھی شروع ہو گیا۔ 1871 ء میں تاج برطانیہ نے ایک ایکٹ پاس کیا جس کا نام سی ٹی سی تھا۔ ”کریمنل ٹرائب ایکٹ“ کا مقصد خواجہ سراؤں کی رجسٹریشن اور انھیں کنٹرول کرنا تھا۔ لیکن اس ایکٹ کی آڑ میں خواجہ سراؤں کو اغوا کیا جاتا، ان کی بے حرمتی کی جاتی اور تشدد کا نشانہ بنایا جاتا۔ اس قانون کے تحت خواجہ سراؤں کو خواتین کے کپڑے پہننے، ڈانس کرنے، میلوں وغیرہ میں پرفام کرنے پر دو سال کی سزا کا سامنا کرنا پڑتا۔ اس طرح خواجہ سراؤں کا ذریعہ معاش ختم ہو گیا اور یہ بے سروسامانی کی زندگی بسر کرنے لگے۔

خواجہ سراؤں کے سوشل میڈیا پیجز پر انسانی حقوق کی جو تھوڑی بہت بحث نظر آتی ہے یہ میرے ہاتھوں کی ہی شروع کی ہوئی ہے۔ ملک کے پانچوں صوبوں سے کچھ خواجہ سرا میرے بہت اچھے دوست ہیں۔ اپنے احتجاجوں اور ایکٹیوٹیز کی وڈیوز مجھے وٹس ایپ کرتے رہتے ہیں۔ خواجہ سراؤں سے بات چیت اور ان کے مسائل پر تھوڑا بہت لکھنے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اس وقت خواجہ سراؤں کے اہم ترین مسائل میں سے سب سے پیچیدہ مسئلہ پولیس کا ناروا رویہ ہے۔ جو کہ پانچوں صوبوں میں تقرینا ”ایک ہی جیسا ہے۔

ا۔ خواجہ سرا کہتے ہیں کہ پولیس والے کسی بھی وقت ان کے گھر میں بغیر اجازت داخل ہو جاتے ہیں۔ بیشتر واقعات میں انھیں تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے، عزتیں لوٹی جاتی ہیں یا پیسے چھین لیے جاتے ہیں۔ اس مسئلے کا واحد حل یہ ہے کہ حکومت خواجہ سراؤں کے اڈوں، ڈیروں اور گھروں کو باقاعدہ طور پر رجسٹرڈ کرے۔ بغیر وارنٹ پولیس کے داخلے پر پابندی عائد کی جائے۔ ان کے گھروں میں مرد پولیس اہلکاروں کے جانے پر مکمل پابندی عائد کی جائے۔

ب۔ خواجہ سراؤں کی کمائی کا اہم ترین ذریعہ شادی بیاہ، میلوں اور نجی تقریبات میں ڈانس کرنا ہے۔ تقریبات سے باہر نکلتے ہی پولیس ان کا راستہ روک لیتی ہے۔ پھر ان کی محنت کے آدھے یا پورے پیسوں سے انھیں محروم کر دیا جاتا ہے۔ ہماری دانست میں اس مسئلے کا حل یہ ہے کہ حکومت ڈانس، جگت یا کسی بھی طرح سے عوام کو انٹرٹین کرنے والے خواجہ سراؤں کو فنکار کا درجہ دے۔ انھیں باقاعدہ آرٹسٹ کا درجہ دیا جائے۔ ایسے پولیس اہلکاروں کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے جس طرح عام فنکاروں کو ہراساں کرنے پر کی جاتی ہے۔

پ۔ حکومت کی عدم توجہی، معاشی اور معاشرتی ناہمواریوں کی وجہ سے بیشتر خواجہ سراء اور معذور افراد بھیک مانگنے پر مجبور ہیں۔ پولیس ہمارے ان بھکاری بھائی بہنوں کو بھی نہیں چھوڑتی یہ بھی باقاعدگی سے پولیس کو بھتہ دیتے ہیں۔ معذور افراد ملک کی آبادی کا 15 ٪ ہیں۔ حکومت کسی بھی فوری اقدام سے خواجہ سراء اور معذور افراد کے تمام مسائل حل نہیں کرسکتی۔ حکومت محروم طبقات کے لئے کوئی بڑا منصوبہ لانے تک ان کے لیے بھیک مانگنے کو جائز قرار دے۔

بھکاریوں کی فوری رجسٹریشن کی جائے اور انھیں باقاعدہ کارڈز ایشو کیے جائیں۔ بھکاریوں کی رجسٹریشن کے چار فائدے ہوسکتے ہیں پہلا اس کام سے محروم ترین افراد اپنا پیٹ پال سکیں گے، دوسرا لوگوں کی زکٰوۃ خیرات کی رقم صحیح ہاتھوں میں پہنچ جائے گی، تیسرا پولیس انھیں تنگ نہیں کرسکے گی اور چوتھا صحت مند افراد جو فقیروں کے روپ میں بھیک بھی مانگتے ہیں اور جرائم بھی کرتے ہیں ان کی نشاندہی بھی ہو سکے گی۔

ت۔ خواجہ سراؤں پر بنے ہر مقدمے میں چاہے وہ تشدد کا ہو، ہراسانی یا قتل کا پولیس جانبداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے خواجہ سراء کو ہی قصور وار ٹھراتی ہے۔ خواتین پولیس اہلکار مردوں کے مقابلے میں زیادہ رحم دل اور انصاف پسند ثابت ہوئی ہیں۔ اگر خواجہ سراؤں کے تمام مقدمات خواتین پولیس اہلکاروں حوالے کر دیے جائیں تو اس سے خواجہ سراؤں کے بہت سے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔

میں ویل چیئر پر بیٹھا ایک انتہائی معمولی سا شخص ہوں۔ میں نے اب تک جتنا بھی لکھا ہے انسانی حقوق پر ہی لکھا ہے میری تحریروں میں غلط ہی سہی لیکن مسائل کا حل نکالنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ پولیس گردی خواجہ سراء کمیونٹی کے بڑے اور اہم ترین مسائل میں سے ایک ہے۔ جسے حل کرنا ضروری ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments