برازیل سے بے دخل 23 یہودی جنھوں نے نیو یارک کے قیام میں مدد کی


برازیل کے مقام ریسیف سے 600 یہودی والک نامی بحری جہاز پر سوار ہوئے تھے۔ انھیں اس وقت ملک سے نکال دیا گیا تھا جب برازیل پرتگالیوں کے کنٹرول میں تھا۔ یہ برازیل میں ڈچ حکمرانی کا اختتامی دور تھا اور اسی کے ساتھ ان کی مذہب کی آزادی کا بھی۔

وہ اپنے آبائی وطن نیدر لینڈ واپس جانا چاہتے تھے، جہاں کیلوِن ازم (مسیحیت کے پروٹسٹنٹ فرقے کی شاخ) کی بدولت یہودیوں کو کچھ آزادی ملی ہوئی تھی۔

وہ دو دہائیوں قبل وہاں پہنچے جب ڈچ نے برازیل کے شمال مشرق کا کچھ حصہ فتح کرلیا تھا اور اپنی نگاہ چینی کی پیداوار اور تجارت پر رکھ لی تھی۔

لیکن ایک طوفان نے انھیں راستے سے ہٹا دیا تھا اور بحری قزاقوں نے ان کا جہاز لوٹ لیا تھا۔

اس گروہ کو ایک فرانسیسی جنگی بحری جہاز نے بچایا اور اس وقت ایک ہسپانوی نوآبادیاتی علاقے جمیکا میں چھوڑ دیا تھا جہاں انھیں ہسپانوی حکام نے جیل میں قید کر دیا۔

یہ بھی پڑھیے

یہودی لڑکی نازیوں سے چھپنے میں کیسے کامیاب ہوئی؟

جب ایک یہودی شخص انڈیا کی مسلم ریاست کا وزیر اعظم بنا

اسرائیلی شہری کی پاکستانی کرکٹرز سے والہانہ محبت کی داستان

تاہم ڈچ حکومت کی مداخلت کی بدولت انھیں رہا کردیا گیا اور اقتصادی وجوہات کی بنا پر ان میں سے کچھ لوگ نیو ایمسٹرڈیم چلے گئے۔ یہ منزل یورپ کے مقابلے میں زیادہ قریب تھی۔ اس وقت یہ صرف ایک معمولی سا تجارتی مرکز تھا اور اس کا نام بعد میں نیو یارک رکھ دیا گیا تھا۔

وہاں انھوں نے شمالی امریکہ میں یہودیوں کی پہلی جماعت تشکیل دی اور اس شہر کی ترقی میں اپنا حصہ ڈالا۔

اسرائیل کے شہر تل ابیب کے بعد نیو یارک اس وقت دنیا کا دوسرا شہر ہے جہاں یہودیوں کی دنیا میں سب سے زیادہ تعداد ہے۔

یہودی پناہ گزین

یہودیوں کی برازیل کی جانب ہجرت تب سے شروع ہوئی جب اس کی دریافت کے بعد یورپ کے جزیرہ نما آئیبیریا سے وہ یہودی بھاگ کر یہاں آنے لگے جنھیں کیتھولک چرچ کی جانب سے زبردستی مذہب تبدیل کروایا جاتا اور انھیں ‘نئے مسیحی’ کہا جاتا۔

یہ اس وقت پرتگال کی سب سے بڑی کالونی تھی اور یہاں ان میں سے کچھ نے یہودی طریقوں کو ترک کردیا تھا، کچھ نے ان کو پوشیدہ رکھا ہوا تھا۔ فروری 1630 میں ڈچ قبضے کے ساتھ نیدرلینڈز سے کچھ یہودی برازیل منتقل ہوگئے تھے۔ ان میں سے کچھ اُن لوگوں کی اولاد تھے جو جزیرہ نُما آئیبیریا سے بھاگ کر نیدرلینڈز چلے گئے تھے۔

یہ تاریخ دان ڈینیئلا لیوی نے اپنی کتاب ‘جیوز اِن دی فارمیشن آف نیو یارک (ریسیف سے مینہیٹن تک: نیو یارک کے قیام میں شامل یہودی)’ میں لکھا ہے جس پر تحقیق کے لیے انھیں 10 سال لگے۔

لیوی نے وضاحت کی ہے کہ برازیل پہنچنے والے یہودی ان نئے مسیحیوں کی اولاد تھے جو جبری طور پر مذہب تبدیل کروائے جانے کے ایک صدی بعد نیدرلینڈز چلے گئے تھے۔ اس ملک میں وہ یہودیت میں واپس آسکے، اور انھوں نے اپنی روایات بحال کیں اور بطور برادری خود کو دوبارہ منظم کیا۔

ان میں سے بہت سے ڈچ یہودی نیدرلینڈز کی ایسٹ انڈیا کمپنی کا حصہ تھے جو 1602 میں قائم ہونے والی ایک تجارتی کمپنی تھی جس کا مقصد سپین اور پرتگال کی معاشی اجارہ داری کو ختم کرنا تھا۔

ریسیف میں وہ پہلے ہی وہاں موجود رشتہ داروں کے ساتھ رہائش پذیر تھے لیکن انھوں نے اپنی ایک برادری تشکیل دی جہاں وہ بالآخر امن و سکون کے ساتھ اپنے مذہب پر عمل پیرا ہو سکتے تھے۔ یہاں اُنھوں نے خود کو تجارت، انجینیئرنگ اور علمِ نباتات میں مصروف کر لیا۔

انھوں نے سکولوں، عبادت خانوں اور ایک قبرستان کی تعمیر کی جس سے خطے کی ثقافتی زندگی کو تقویت ملی۔

یہاں امریکہ کا پہلا سیناگوگ یا کنیسا تعمیر کیا گیا جس کا نام کہل زور اسرائیل رکھا گیا۔ یہ عبادت خانہ مسیح کی گلی کہلانے والی ایک سڑک پر واقع مکان میں قائم کیا گیا تھا۔ بعد میں اس سڑک کا نام یہودیوں کی گلی رکھ دی گیا۔ اس عبادت خانے کو سنہ 2002 میں بحالی کے بعد دوبارہ کھولا گیا ہے۔

ڈچ دور میں برازیل میں رہنے والے یہودیوں کی تعداد کا اندازہ مختلف پیمانے پر ہوتا تھا۔یہ تعداد 350 اور 1450 کے درمیان بتائی گئی جبکہ اس وقت وہاں 10 ہزار افراد رہتے تھے۔

لیوی کے مطابق یہ اس وجہ سے نہیں کہ نیدر لینڈز کیلوِنیسٹ تھا جو عبادت کرنے کی آزادی دیتا تھا بلکہ یہ اس فوجی اہلکار موریسیو ڈی ناساؤ کی وجہ سے بھی تھا جو اس کالونی کے حکمران تھے۔

نیدر لینڈز ایک پروٹیسٹنٹ قوم تھی اور اس نے دوسرے مذاہب کے لیے اپنے دروازے کھول دیے تھے۔ اور یہ تب کی بات ہے جب یہ سپین سے آزاد ہوا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب نئے مسیحیوں نے پرتگال کو چھوڑا اور وہاں آ بسے۔ کچھ ایسے لوگ تھے جنھیں یہودیوں سے عناد تھا لیکن لیوی کے مطابق عمومی طور پر ولندیزی سیاسیات میں مذہبی رواداری پائی جاتی ہے۔

’موریسیو ڈی ناساؤ ایک عظیم انسانیت پسند تھے۔ وہ اس رائے کی حمایت کرتے تھے کہ مختلف مذاہب میں مذہبی رواداری سیاسی لحاظ اور معاشی لحاظ سے بہت فائدہ مند ہوگی۔‘

ریسیف کو پورے برِاعظم امریکہ کا دارالحکومت بنانے کے لیے ناساؤ نے اس میں بڑی تبدیلیاں کیں اور اسے بڑے شہر میں تبدیل کیا۔ اگرچہ انھیں پسند کیا جاتا تھا لیکن پھر بعد میں ان پر انتظامی امور میں بدنظمی کے الزامات عائد کیے گئے اور انھیں سنہ 1644 میں یورپ واپس جانے پر مجبور کیا گیا۔

پھر ناساؤ انتظامیہ کے ختم ہونے کے بعد نیدرلینڈز نے یہاں بسنے والے نادہندگان کے قرض معاف کرنے کا تقاضہ کیا جس سے یہاں بے چینی اور مسلح تنازعات شروع ہوئے اور صورتحال 1654 میں ڈچ لوگوں کی برازیل سے بے دخلی پر منتج ہوئی۔

عملی طور پر شکست کے بعد بھی ولندیزیوں نے پرتگالیوں سے 63 ٹن سونا حاصل کیا جس کے بدلے شمال مشرقی حصے کو 17 ویں صدی میں پرتگال کو لوٹا دیا گیا۔

یہودی جو برازیل سے نکلے تھے اب ان کے لیے کوئی متبادل جائے پناہ نہیں تھی۔ انھیں اس وقت کے گورنر فرانسسکو بریتو ڈی مینیزز نے علاقہ چھوڑنے کے لیے تین ماہ کی مہلت دی تھی۔

کچھ لوگ دوسری جگہوں تک نکل گئے، کچھ نے نیدرلینڈز واپس لوٹنے کا فیصلہ کیا جس سے وہ داستان شروع ہوئی جو ہم نے ابتدا میں بیان کی تھی۔

قزاقوں کے حملے اور جمیکا میں اسیری کے بعد ان میں سے 23 لوگ جن میں برازیل میں پیدا ہونے والے بچے بھی شامل تھے، نیو ایمسٹرڈیم کی جانب نکل گئے۔

نیویارک شہر کے ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ یہ ستمبر 1654 میں یہاں پہنچے تھے لیکن لیوی کے مطابق وہاں ان کا اچھی طرح استقبال نہیں کیا گیا تھا۔

اس وقت یہ ولندیزی کالونی بالکل غیر اہم اور تقریباً خالی تھی اور اس پر ایک انتہا پسند کیلوِنسٹ پیٹر سٹوئویسنٹ حکمران تھے۔ انھوں نے وہاں نئے آنے والوں کی راہ میں متعدد رکاوٹیں کھڑی کیں۔

لیوی کے مطابق سٹوئویسنٹ کو یہودی پسند نہیں تھے اور وہ انھیں وہاں نہیں آنے دینا چاہتے تھے لیکن ولندیزی یہودیوں نے اس میں مداخلت کی اور پھر آنے والے یہودیوں کو تسلیم کیا گیا۔

وہ بتاتی ہیں کہ باقی ماندہ گروہ جو کہ جمیکا میں پھنس گیا تھا، بالآخر 23 لوگوں سے آن ملا۔

ان 23 یہودیوں نے بمشکل کاروبار پر گزر بسر کی جو پھر بعد میں وسیع ہوا جس سے مزید یہودی شہر کی طرف راغب ہوئے۔ پھر 1664 میں اس کا نام نیو یارک رکھا گیا۔ امریکی جنگِ آزادی کے بعد ان لوگوں کی اولادوں کو مکمل شہریت دی گئی۔

ان میں سے ایک بینجمن مینڈیس (1745 تا 1817) نے نیویارک سٹاک ایکسچینج کی بنیاد رکھی۔

نیو یارک میں دی جیوئش پِلگرِم فادرز نامی ایک یادگار کے ذریعے ہنریک، لوسینا، اینڈرڈ، کوسٹا، گومس اور فریرا کو خراج تحسین پیش کیا گیا ہے جنھوں نے شہر کی بنیاد رکھنے اور اسے ترقی دلوانے میں مدد دی۔

اس کہانی نے برازیلی مصنفہ اور صحافی لیرا نیٹو کو متاثر کیا اور انھوں نے نئی کتاب ’رِپڈ فرام ارتھ‘ لکھی ہے۔

برازیل میں یہودی

ولندیزیوں کے قبضے کے بعد یہودی تارکین وطن سنہ 1810 میں برازیل پہنچنا شروع ہوئے۔ یہ بنیادی طور پر مراکش سے آئے تھے۔ وہ بیلیم میں آباد ہوئے جہاں انھوں نے برازیل میں موجود دوسرا قدیم عبادت خانہ قائم کیا جو اج بھی مکمل طور پر فعال ہے۔ پھر وہاں پہلا یہودی قبرستان بھی تعمیر کیا گیا۔

اس کے بعد یہودی آبادکاری میں تیزی آگئی اور دوسری عالمی جنگ کے بعد بیسوی صدی کے پہلے نصف میں یہ اپنے عروج پر پہنچ گئی۔

شمال مشرق کے ساتھ ساتھ جنوب اور جنوب مشرق اہم مقامات تھے جہاں زیادہ تر تارکین وطن یورپ اور کچھ عرب ممالک سے آئے تھے۔

اس وقت برازیل لاطینی امریکہ میں یہودیوں کی دوسری بڑی آماجگاہ ہے۔ یہاں ایک لاکھ 20 ہزار شہری یہودی ہیں۔

سنہ 2009 میں یہاں کے کلچر میں یہودیوں کے کردار کو تسلیم کرنے کے لیے ایک قانون پاس کیا گیا تھا جس کے تحت 18 مارچ کو یہودیوں کی آمد کا قومی دن منایا جاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32505 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp