سکائی لیب 4: کیا ناسا کے خلابازوں نے مشن کے دوران ہڑتال کر دی تھی؟


Skylab

NASA

اس واقعے کو اب نصف صدی گزر چکی ہے جب خلائی مشن سکائی لیب فور کے تین خلابازوں ایڈ گبسن، جیرلڈ کار اور ولیم پوگ کا زمین پر موجود مشن کنٹرول سے اختلاف پیدا ہوگیا تھا۔

اس کے بعد ایسی اطلاعات سامنے آئیں کہ وہ ہڑتال پر چلے گئے تھے۔

ان تین خلابازوں میں سے اب صرف ایڈ گبسن ہی زندہ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ محض ایک افسانہ ہے کہ ہم نے اپنا کام روک دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

اپالو11: آخر امریکہ چاند پر کیوں جانا چاہتا تھا؟

اپالو مشن کی آٹھ چیزیں جنھوں نے ہماری زندگی بدل دی

’خلابازوں کو مریخ پر بھیجنا بیوقوفی ہے‘

جیسے ہی یہ تین خلاباز خلائی سٹیشن میں داخل ہوئے تو ان میں سے ایک بل پوگ بیمار ہو گئے۔ یہ ایک حیرت انگیز بات تھی کیونکہ امریکی ریاست ٹیکساس کے شہر ہیوسٹن میں واقع جانسن سپیس سینٹر میں دوران تربیت بل کی عرفیت ’آئرن بیلی‘ یعنی ’آہنی پیٹ‘ تھا کیونکہ وہ بغیر بیمار ہوئے دیر تک تیزی سے گھومنے والی کرسی پر بیٹھ کر اپنے سر کو آگے اور پیچھے گھما سکتے تھے۔

مگر یہ پہلی بار تھا کہ تینوں خلا باز جب خلا میں تھے تو حرکت کی وجہ سے طبعیت کی خرابی سے بچنے کے لیے انھیں زمین پر جو ٹریننگ دی گئی تھی وہ خلا میں کارگر نہیں تھی۔ کمانڈر جیرلڈ کار نے بل کو معدے کو قابو میں رکھنے کے لیے ٹماٹر کا ایک کین کھانے کا مشورہ دیا۔

The Skylab 4 crew - Ed Gibson (left), Gerald Carr and William Pogue

NASA
ایڈ گبسن (بائیں)، جیرلڈ کار اور ولیم پوگ

ایڈ گبسن دو آدمیوں کے درمیان بیٹھے ہوئے تھے اور وہ ٹماٹر کے کین کو بائیں سے دائیں جاتا اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ سکتے تھے۔ انھیں ابھی تک بل کی کچھ خراب آوازیں یاد ہیں اور پھر اُنھوں نے اُلٹی کرنے کے لیے استعمال ہونے والا لفافہ دائیں سے بائیں جانب جاتے ہوئے دیکھا۔

’ہمیں مایوسی ہوئی تھی کیونکہ ہمیں معلوم تھا کہ ہم نے بہت سا کام کرنا تھا۔ اور تب ہی ہم نے اپنی پہلی غلطی کی۔‘

ایڈ اس وقت 84 برس کے ہیں۔ سکائی لیب 4 مشن نومبر 1973 میں شروع ہوا تھا مگر وقت بھی ان کی اہم ترین یادداشتوں کو مدھم نہیں کر سکا۔ خلا سے زمین، سورج کی چمکدار بیرونی سطح اور خلا میں چہل قدمی کرتے ہوئے آس پاس پھیلی انتہائی خاموشی۔

ایڈ اس مشن میں شامل واحد زندہ خلا باز ہیں جو یہ پوری کہانی سنا سکتے ہیں کیونکہ جیری کار اور بل پوگ دونوں ہی مر چکے ہیں۔ جیری کار کی وفات گذشتہ برس جبکہ بل پوگ سنہ 2014 میں وفات پا گئے۔

سکائی لیب سپیس سٹیشن ایک خلائی ریسرچ پلیٹ فارم تھا، جہاں خلا باز سائنسدانوں کو انسانی جسم پر خلائی پرواز کے اثرات جاننے، مختلف تجربات اور سورج اور کرۂ ارض کے مشاہدات کرنے میں مدد فراہم کرتے تھے۔

سکائی لیب 4 آخری مشن تھا اور یہی وجہ تھی کہ اسے بہت سے اہداف حاصل کرنے تھے۔

یہ 84 روزہ مشن اس وقت کے حساب سے طویل ترین مشن تھا اور اس میں بہت کام کرنے تھے۔ ناسا کو اس بات کی فکر لاحق تھی کہ کوئی بیمار نہ ہو جائے، جس کا مطلب وقت کا ضیاع ہوتا۔

Jerry Carr demonstrates weightlessness by pretending to hold up Ed Gibson with one finger

جیری کار کو جیسے ایڈ گبسن انگلی پر سہارا دیے ہوئے ہیں

ناسا نے یہ تسلیم کیا ہے کہ اس مشن کی منصوبہ بندی کرنے والوں نے خلابازوں کو بے وزنی کی کیفیت میں کام کرنے کے لیے اپنے آپ کو ڈھالنے کے لیے وقت فراہم نہیں کیا گیا تھا اور اُن کے شیڈول میں بہت زیادہ کام ڈال دیا گیا تھا۔

خلا میں چہل قدمی کی تعداد بڑھا کر چار کر دی گئی تھی تاکہ وہ نئے دریافت ہونے والے دمدار ستارے کوہوٹیک کا مشاہدہ کر سکیں۔

خلاباز پہلے ہی دباؤ میں تھے جب انھوں نے پہلا غلط فیصلہ کیا۔

ایڈ کے مطابق ’ہم زمین والوں کو بتانے سے قبل خود کو منظم کرنا چاہتے تھے لہٰذا ہم نے بل کی بیماری سے متعلق خبر دینے میں تاخیر کر دی تھی۔‘

مگر وہ یہ بھول گئے تھے کہ جو کچھ بھی وہ دورانِ سفر کہہ رہے تھے وہ ریکارڈ ہو رہا تھا اور زمین پر موجود مشن کنٹرول میں سنا بھی جا رہا تھا۔

کچھ ہی وقت میں ایسٹروناٹ آفس کے سربراہ ایلن شیپرڈ کی مشن کنٹرول سے ریڈیو پر آواز گونجی اور یہ گفتگو عوام کے لیے نشر بھی کی گئی۔

ایڈ کہتے ہیں کہ ’انھوں نے ہماری طرف سے ایک ساتھی خلا باز کی بیماری کی اطلاع وقت پر نہ دینے پر ہمیں ڈانٹا۔‘ وہ کہتے ہیں کہ ’ایلن بالکل ٹھیک تھے مگر بس ہمیں دنیا کے سامنے ڈانٹ کھانا پسند نہیں آ رہا تھا۔

ایلن شیپرڈ پہلے امریکی تھے جنھوں نے خلا میں سفر کیا اور بعد میں وہ اپولو 14 کے کمانڈر کے طور پر چاند پر اترے تھے۔ یہ وہ سفر تھا جس نے بچپن میں ہی جہازوں میں اڑنے کی ایڈ کی دلی خواہش کو راکٹوں میں اڑنے سے بدل دیا۔

چاند پر ایلن نے گالف کھیلی اور دو بار گالف بال کو زور سے مارا۔ ایڈ کو یہ بات بہت مضحکہ خیز لگی کہ چاند پر گالف کھیلنے والا خلا باز اُنھیں پروٹوکول کی خلاف ورزی کرنے پر جھڑک رہا ہے۔

وہ یہ سوچ رہے تھے کہ اُن کے اہلِ خانہ اور دوست اُن کے بارے میں کیا سوچ رہے ہوں گے۔ یہ اچھا آغاز نہیں تھا اور اس سے خلابازوں اور مشن کنٹرول کے عملے میں مزید تناؤ کے لیے حالات پیدا ہوگئے۔

Mission Control

NASA
ناسا کا عملہ سکائی لیب کے مسائل پر گفتگو کرتے ہوئے

زمین پر موجود عملے کی اس خلا باز عملے سے زیادہ واقفیت نہیں تھی اور نہ ان سے پہلے والوں کے بارے میں کیونکہ وہ پہلے اور دوسرے مشنز کو دیکھنے میں مصروف تھے جس دوران سکائی لیب 4 کے خلاباز اپنے مشن کی تیاری کر رہے تھے۔

ایڈ کہتے ہیں کہ ’اس کا مطلب یہ تھا کہ ہمارا بہتر ورکنگ ریلیشن قائم نہیں ہو سکا تھا۔‘

ہر بار رابطہ قائم کرنے پر کئی سوالات، ہدایات اور مطالبات کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ ایڈ کا کہنا ہے کہ مشن کنٹرول سے ہر صبح ہدایات کی ایک طویل فہرست ٹیلی پرنٹر کے ذریعے آ جاتی تھی۔ خلا میں بھیجے جانے والے تمام ہی مشن بہت کم وقت میں زیادہ کام کرتے ہیں تاہم ہر چیز کو زمین پر بیٹھ کر اس قدر باریک بینی سے کنٹرول کرنا اس ’ہڑتال‘ کی وجہ بن گئی تھی۔

’ایک صبح تو ہمیں 60 فٹ طویل ہدایات ملیں جنھیں کام شروع کرنے سے پہلے سمجھنا اور پھر ان ہدایات کو آپس میں تقسیم کرنا تھا۔‘

اس کے بعد پھر صبح دی جانے والی بریفنگ تھی جس میں ان سب کو ریڈیو کے ذریعے شریک ہونا ہوتا جس سے ان کے دن کا آدھا گھنٹہ مزید اس کام میں صرف ہو جاتا۔

’کوئی بھی شخص جس کے چھوٹے سے چھوٹے کام کو بھی مینیج کیا جائے، وہ جانتا ہوگا کہ یہ ایک گھنٹے کے لیے بھی ہو تو بہت برا ہوتا ہے، اب 24 گھنٹے ایسے ہی رہنے کی کوشش کریں جس میں آپ کے دن کے ایک ایک منٹ کا شیڈول بنا دیا گیا ہو۔’

یہ تعمیری نہیں تھا اور ہم اپنے کام مکمل نہیں کر پا رہے تھے کیونکہ ہم اپنی طرف سے فیصلہ نہیں کر سکتے تھے۔‘

The Skylab 4 crew on the radio

NASA
سکائی لیب 4 کا عملہ ریڈیو پر

فلائیٹ سرجنز نے روزانہ ورزش کے لیے ایک گھنٹے سے 90 منٹ تک کا وقت مختص کر رکھا تھا جو کہ اپنے شیڈول پر مزید دباؤ بڑھانے جیسا تھا۔ یہ اور بات ہے کہ ایڈ اس اضافی وقت میں ورزش سے بہت لطف اندوز ہوتے تھے۔

بائیک پر بیٹھ کر یہ ایک بہت بڑی راحت کا احساس ہوتا تھا جب یہ محسوس ہوتا تھا کہ آپ کے جسم سے خون نیچے آپ کی ٹانگوں کی طرف جا رہا ہے۔ ان کے مطابق اس بات سے انھیں پتا چلا کہ کشش ثقل نہ ہونے کی وجہ سے خون کو جسم کے نچلے حصے کی طرف کھینچنے میں کس طرح کی تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

بل ابھی بھی ٹھیک سے کام نہیں کر پا رہے تھے۔ انھوں نے 16 گھنٹے تک کام کیا تا کہ تمام امور نمٹائے جا سکیں اور پہلے مہینے ان خلابازوں نے اپنے آرام کے اوقات پر بھی سمجھوتہ کیے رکھا۔

انھیں اس بات کا ادراک تھا کہ ان کا مقابلہ ان سے قبل آنے والوں سے کیا جائے گا۔ سکائی لیب 3 نے امیدوں سے زیادہ بڑھ کر کام کیا اور یہی وجہ تھی کہ اس کی عرفیت ہی دی 150 پرسنٹ کریو` پڑ گئی۔

ایڈ اپنے مشن کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں ان کے پاس اتنا وقت تھا کہ انھوں نے آنے والے مشن والوں کے پتلے بنائے اور پھر انھیں خلائی لباس پہنایا اور انھیں سٹوریج میں رکھ دیا۔ ان میں سے ایک ورزش والی بائیک پر بیٹھا تھا جبکہ دوسرا ٹوائلٹ میں تھا۔

ان کا کہنا ہے کہ اس تجربے نے ہمارے چہروں پر مسکراہٹ بکھیر دی اور ہم اس پر خوب ہنسے۔

مگر اپنی مصروفیت کی وجہ سے وہ ان پتلوں کو کافی وقت تک نہیں اتار سکے۔ ایڈ کو اچھی طرح سے یاد ہے۔

ایڈ کہتے ہیں جب ان کی نظر پڑی تو انھیں لگا جیسے ’ہمارے سے دوسرے انسان بھی وہاں پر ہیں۔‘

کام کی زیادتی اور پست حوصلے کی وجہ سے وہ اپنے شیڈول سے پیچھے رہ گئے، اور مشن کنٹرول سے کام کو ہلکا کرنے کی ان کی التجائیں کسی نہ سنیں۔

ایڈ کہتے ہیں کہ ’یہ ہی وہ وقت تھا جب ہم نے دوسری غلطی کی یعنی مشن کے نصف پر وہ نام نہاد ہڑتال۔‘

تینوں خلابازوں نے فیصلہ کیا کہ صبح کی بریفنگ میں بس ایک خلا باز حصہ لیا کرے گا اور وہ تینوں باری باری حصہ لیں گے۔

’یہ بالکل ٹھیک چل رہا تھا مگر ایک دن ہمارے سگنل کراس ہوگئے اور ہم میں سے کسی کا بھی زمین سے رابطہ نہ ہو سکا۔‘

رابطہ معطل رہنے کا یہ وقفہ زمین کے گرد ایک چکر کے برابر یعنی تقریباً 90 منٹ تھا۔ ان دنوں ایک بار رابطہ صرف 10 منٹ کے لیے ہی ممکن ہو سکتا تھا جب سکائی لیب زمین پر قائم کنٹرول سٹیشن کے اوپر سے گزرا کرتی۔ بنا کسی خلل کے سیٹلائٹ سے رابطہ کچھ برس بعد ہی ممکن ہو سکا۔

Ed Gibson

ایڈ گبسن ایئرلاک سے نکلتے ہوئے

ایڈ کا کہنا ہے کہ ’’ہڑتال‘ کا لفظ کنٹرول روم میں روشنی کی رفتار سے پھیلا اور پھر وہاں سے میڈیا تک پہنچ گیا جس نے اس کا خوب فائدہ اٹھایا۔

’زمین پر انھوں نے اس کے معنی ہڑتال کے لیے۔ مگر یہ ارادی نہیں تھا، بلکہ ہماری ایک غلطی سے ایسا ہوا۔ میڈیا نے ایک فرضی داستان گھڑ لی جو ابھی تک سنائی دیتی ہے اور ہمیں اس کے ساتھ جینا پڑا ہے۔‘

ایڈ کے نزدیک یہ غیر منطقی بات تھی۔ ’ہم کیا کرتے؟ کیا چاند پر بقیہ زندگی گزارنے کی دھمکی دیتے؟‘

ایک حالیہ مضمون میں ناسا نے ہڑتال کی خبر کی توضیح پیش کی ہے کہ اس کا سبب وہ غلطی فہمی ہو سکتی ہے جو کرسمس کے موقع پر خلابازوں کی چھٹی کی وجہ سے پیدا ہوئی ہوگی، جس کے جیری اور بل خلا میں سات گھنٹے کی چہل قدمی کے بعد بجا طور پر مستحق تھے۔

خلابازوں اور کنٹرول سٹیشن کے درمیان گفتگو سے ظاہر ہوتا ہے کہ رابطہ چند گھنٹوں کے لیے منقطع ہوا تھا جس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اسے ’ہڑتال‘ سے تعبیر کیا جائے۔

قطع نظر اس کے کہ ہڑتال تھی یا نہیں، خلانوردوں اور گراؤنڈ کے مابین تناؤ ضرور تھا۔ اسی وجہ سے 30 دسمبر کو فریقین کے درمیان ایک ہنگامی اجلاس منعقد ہوا۔

ایڈ کہتے ہیں، ’فریقین نے اپنی اپنی شکایتیں کیں، اور گراؤنڈ کنٹرول اس بات پر راضی ہوگیا کہ وہ شیڈول پر اپنی گرفت نرم کر دے گا اور خلابازوں کو زیادہ خود مختاری دے گا۔

جیری نے بعد میں اسے خلا میں ’احساس کا پہلا سیشن‘ قرار دیا تھا۔

اس کے بعد معاملات میں ڈرامائی بہتری آگئی۔ نہ صرف کام کی رفتار تیز ہوگئی بلکہ خلانورد خلا میں اپنی موجودگی سے لطف اندوز ہونے لگے۔

ایڈ نے تو خلائی گاڑی کی کھڑکی میں بیٹھ کر زمین کا خود بھی نظارہ کیا۔ ’زمین نہایت حسین ہے اور میں نے اُسے خوب سمجھا۔ میں سوچتا ہوں کہ ہم کتنے خوش نصیب تھے کہ ہم نے یہ سب دیکھا۔‘

ہر تیسرے روز وہ اپنی بیوی اور بچوں سے چند منٹ کے لیے بات کرتے تھے اور ان کے لیے یہ بہت ہی نایاب لمحات ہوتے تھے۔

انھیں یاد ہے کہ جب وہ امریکہ کی ساحلی پٹی پر سے گزرتے ہوئے اس کے بارے میں اپنی پانچ سالہ بیٹی کو بتا رہے تھے اور بیٹی نے فرمائش کر ڈالی کہ ’جب آپ واپس آئیں گے تو کیا مجھے وہاں لے جائیں گے؟‘

Skylab with Earth below

NASA
سکائی لیب سے زمین کا منظر

سکائی لیب 4 اپنی چوتھی اور آخری سپیس واک یا خلائی چہل قدمی کے پانچ روز بعد 8 فروری 1974 کو بحر الکاہل میں واپس آگئی۔

انھوں نے ریکارڈ کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور اپنی استعداد سے 150 فیصد بڑھ کر کام کیا۔

ایڈ کا کہنا ہے کہ ’مجھے فخر ہے کہ ہم نے بہت اچھا کام کیا جس کے بل بوتے پر ناسا نے بین الاقوامی خلائی سٹیشن تعمیر کیا۔‘

انھیں ہڑتال کی خبر کا اس وقت تک پتا نہیں چلا جب تک انھوں نے زمین پر قدم نہیں رکھا۔

یہ بات اب بھی کسی نہ کسی طرح ذرائع ابلاغ میں اپنی جگہ بنا لیتی ہے۔

One of Skylab 4's four space walks

NASA
سکائی لیب مشن کی خلا میں چہل قدمی کا ایک منظر

ایڈ کا اس بارے میں کیا خیال ہے کہ لوگ اب بھی سمجھتے ہیں کہ ایسا ہوا تھا؟

وہ کہتے ہیں کہ ’یہ کوئی لطف کی بات تو نہیں کہ آپ اتنی محنت کریں، اپنا کام خوش اسلوبی سے انجام دیں اور پھر کوئی قصہ ہمیشہ کے لیے آپ کا پیچھا کرتے۔

’جب بھی اس فلائٹ کی بات ہوتی ہے تو ہڑتال کا ذکر بیچ میں آ جاتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ جب میں جنت میں جاؤں گا، اگر میں وہاں گیا، تو خدا بھی مجھ سے یہ ہی سوال کرے گا کہ کیا ہوا تھا۔‘

لطف کی بات تو یہ ہے کہ اس بارے میں خلانوردوں کا مؤقف جاننے کے لیے پچھلے 48 برس میں بی بی سی کے علاوہ صرف ایک اور رپورٹر نے ان سے رابطہ کیا ہے۔

اس مشن کے بعد تینوں میں سے کوئی بھی دوبارہ خلا میں نہیں گیا، اور یہ اگلے 10 برس تک ناسا کا واحد انسانی مشن رہا۔ مگر ایڈ خلائی پروگرام سے وابستہ رہے اور دوسرے خلانوردوں کو منتخب کرتے اور تربیت دیتے رہے۔

ان کے خیال میں اس واقعے سے مائیکرو مینجمنٹ یا کسی کام کی جزیات میں افسرانہ دخل اندازی کے بارے میں سبق حاصل کیا جا سکتا ہے۔

ایڈ کہتے ہیں کہ ’ہمارے مشن نے ثابت کیا کہ مائیکرومینجمنٹ کام نہیں کرتی سوائے پرواز کے آغاز اور اختتام کے وقت۔ خوش قسمتی سے خلائی سفر کرنے والوں نے یہ سبق سیکھ لیا ہے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32506 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp