عورت مارچ ہو یا حیا مارچ: منزل کہیں بھی نہیں


میں چھ سال کی مسکان سے کوئی دو چار بار ہی ملا ہوں۔ ذہین اور شریر سی یہ بچی اپنے والد کو نہیں جانتی۔ اس کا والد زندہ ہے مگر اس نے اسے ایک ہی بار دیکھا ہے اور وہ بھی اس طرح کہ وہ اپنے والد کو پہچانتی نہیں تھی۔ مسکان کی والدہ اس کے والد کی دوسری شادی تھی۔ خاندان کی اجازت کے بغیر اس نے شادی کی تھی۔ کچھ عرصہ ساتھ رکھا اور پھر خاندان کے دباؤ میں آ کر چھوڑ دیا۔ خاتون نے سرکاری جاب حاصل کر لی۔ وہی جاب اور چھوٹی سی مسکان اس کی زندگی کا کل سرمایہ رہے۔

والدہ کے بالوں میں اب چاندی اتر چکی تھی۔ جاب اور جوانی کا دفاع کرتے، سنبھلتے سنبھالتے اس کی زندگی وقت سے پہلے ادھیڑ عمری کو پہنچ چکی تھی۔ کیسے کیسے لوگوں کے رویے اور کیسی کیسی نظریں اس نے سہیں؟ کیسی ہوس ناک آنکھیں اس کے جسم کے گرد ناگ کی طرح لپٹیں؟ کیسے کیسے ذو معنی جملے اسے کچوکے لگا کر کر فضا میں تحلیل ہوئے؟ کبھی وہ سنیں تو اپنے معاشرے پر پھیلی چاندنی کی چادر اترتی محسوس ہو۔ اس کے نیچے جمع غلاظت کے ڈھیر اور اس کی اٹھتی بھبھک نتھنوں کو پھاڑنے لگیں۔

اس کی والدہ کی آنکھوں میں اب بھی آنسو سے چمک اٹھتے ہیں جب وہ اپنے شوہر کا ذکر کرتی ہے۔ حیرت سے آپ اسے تکتے رہ جائیں کہ کس خمیر سے بنی ہے عورت!

آخری بار اس نے اپنے شوہر کو کب دیکھا وہ بار بار بتاتی تھی۔ ”اس دن میرے سر میں شدید درد تھا، مجھے بخار ہو رہا تھا، میں اپنی بہن کے گھر جانے کے لیے مسکان کو لے کر گھر سے نکلی۔ سڑک پر بس سٹاپ پر کھڑی تھی۔ گرمیوں کی ایک گرم سہ پہر تھی۔ ایک کار آ کر رکی، اس نے کہا چلو تمہیں چھوڑ دوں۔ کار میں ایک ہی شخص بیٹھا تھا۔ میں پچھلی سیٹ پر بیٹھ گئی۔ اپنے بخار اور سر درد سے بے حال، گاڑی چلانے والے اور مسکان کے درمیان کیا باتیں ہوئی مجھے یاد نہیں۔

بس اتنا یاد ہے اس نے کہا تھا ”مسکان اب ماشا اللہ کتنی بڑی ہو گئی ہو“ ، میں نے منزل پر پہنچ کر اسے رکنے کا کہا تو اس نے گاڑی روک دی، میں اتر گئی۔ پیچھے شکریہ ادا کرنے کو مڑ کر گاڑی والے کی طرف دیکھا تو پہچان گئی کہ وہ مسکان کا باپ تھا۔ اس نے میری طرف دیکھے بغیر گاڑی آگے بڑھا دی اور میں وہیں مبہوت کھڑی مسکان کو آوازیں دیتی رہی ”مسکان! یہ تمہارے والد تھے“ ۔ اور پھر دیر تک میں اور مسکان سڑک کنارے کھڑے ایک دوسرے سے لپٹ کر ایک دوسرے کو تسلیاں دیتی رہیں۔

اس ماں بیٹی کی زندگی کا کرب لفظوں میں کیسے بیان ہو گا؟ میں نہیں جانتا۔

گائنی کی ایک ڈاکٹر کہہ رہی تھی ”الٹراساؤنڈ میں یہ دیکھنے کے بعد کہ ماں کے پیٹ میں بچی ہو تو والدین کو نہیں بتاتے، بچہ ہو تو فوراً بتاتے اور مبارک باد دیتے ہیں“ ۔ مجھے حیرت بھی ہوئی اور افسوس بھی، کہ آخر پڑھی لکھی ہونے کے باوجود بھی تمہیں بچی کی پیدائش کی خوشی کیوں نہیں ہوتی۔ کہا ”ہمیں تو فرق نہیں پڑتا بچہ ہو یا بچی۔ مگر بچی ہو تو ہم نہیں چاہتے اس کی والدہ بچی جننے سے پہلے ہی طعنوں اور تشدد کا سامنا کرے، کچھ دن ہی سہی اسے سکون سے رہنے کا حق تو ہے، جو قیامت مہینہ ڈیڑھ بعد ٹوٹنی ہے، وہ ابھی سے ہمارے بتانے پر ہی کیوں ٹوٹے“ ۔

گائنی کی ڈاکٹر بتا رہی تھی :ایک خاتون کے ہاں بچی کی پیدائش ہوئی۔ اس نے پوچھا بیٹا ہے یا بیٹی؟ پاس بیٹھی نرس نے کہا بیٹی، وہ چیخ چیخ کر رو پڑی، کہا مجھے بھی یہیں مار دو، میری بیٹی کو بھی یہیں قتل کر دو۔ میں باہر شوہر کے پاس نہیں جانا چاہتی۔ سٹاف تسلی دینے لگا۔ خاتون نے کہا : ”میری اس سے پہلے ایک دو سال کی بیٹی میرے شوہر نے گلا دبا کر مار دی ہے۔ اب کی بار اس نے کہا ہے کہ اگر پھر بیٹی پیدا کر دی تو اس کے ساتھ تمہیں بھی مار دوں گا“ ۔

اب اس کم بخت شوہر کو کون ڈھونڈ کر سمجھائے کہ جناب آپ دہری جہالت کا شکار ہیں۔ ایک تو بیٹی کو نقصان سمجھنا اور دوسرا اس کی تخلیق اور پیدائش کا ذمہ دار اس کی ماں کو سمجھنا۔

ایک عورت چار سال کی چھوٹی سی بچی کو لے کر آئی جس کا ریپ کیا گیا تھا۔ نرسز بچی کو لے کر اندر گئیں، ماں سیڑھیوں میں ہی ڈھ گئی۔ بچی بھی رو رہی تھی اور اس کی ماں بھی۔ ماں کہہ رہی تھی: ”اسے وہیں مار دو باہر واپس نہیں لاؤ۔ اسے میں سماج کی نظروں سے بچا کر بڑی بھی کر دوں تو بیاہ نہیں سکوں گی کیوں کہ شادی کی پہلی رات بھی یہ ماری ہی جائے گی“ ۔

بچی کیوں رو رہی تھی، ذرا کلیجہ تھام کر سنیے!

وہ کہہ رہی تھی ”اس انکل نے مجھ کہا تھا تمہیں ٹافیاں اور اچھی اچھی چیزوں دوں گا، مگر اس نے کچھ بھی نہیں دیا۔“

یہ ہمارے سماج میں عورت کی بے بسی کی چند حقیقی مثالیں ہیں۔ عورت کی جسمانی کمزوری اور مرد کے زور بازو نے کیا اسے اتنا اعلیٰ و برتر بنا دیا کہ وہ عورت کے متعلق اپنی مرضی سے جو بھی چاہے فیصلہ کرے؟ اس کی زندگی موت کے فیصلے بھی اس کے ہاتھ میں ہوں۔ اس کی کوکھ میں کیا ہونا چاہیے یہ فیصلہ اس کے اختیار میں ہو؟ مرد کیا عورت کے مقابلے میں کسی بھی قاعدے قانون سے آزاد اور ماورا ہے؟ مرد عورت پر کیا ہر طرح سے ہاتھ اٹھانے میں آزاد ہو جاتا ہے؟ آخر کون سا مذہب اور کون سا نظریہ ہے جس نے یہ اختیارات صنفی بنیادوں پر تقسیم کر دیے ہیں؟

عورت مارچ ہر سال آتا ہے اور سانپ کی طرح ایک لکیر چھوڑ جاتا ہے، جسے ہم بڑے عرصے تک پیٹتے رہتے ہیں۔ عورت مارچ میں بہت کچھ ہوتا ہے۔ مجرے ڈانس بھی ہوتے ہیں۔ قمیصیں بھی لٹکائی جاتی ہیں۔ کراس فائر نعرے بھی لگتے ہیں۔ عجیب و غریب سلوگنز کے بینرز اور پلے کارڈ بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ ان سب چیزوں نے معاشرے میں عورت کے مسائل کو مزید گہنا دیا ہے۔

میرے خیال میں حیا مارچ بھی عورت کے مسائل کی ترجمانی نہیں کر رہا۔ ان دونوں سے ہٹ کر ایک اور فورم ہونا چاہیے جہاں عورت کے حقیقی مسائل پر بات ہوا کرے۔ معاشرے میں پھیلی اس جہالت پر بات ہو جس کی وجہ سے کوئی عورت خودکشی پر مجبور ہو جاتی ہے۔ اس سماج کی روح میں بسی جہالت کی جڑیں اکھاڑنے کو تربیت اور اصلاح کی بہت پرزور کوششیں تحریکیں چلانے کی ضرورت ہے۔ یہ کسی مخصوص کمیونٹی کے نعروں سے حل ہونے والا مسئلہ نہیں۔ یہ کسی طعنہ گردی اور لعنت ملامت سے حل ہونے والا مسئلہ بھی نہیں۔ عورت مارچ ہو یا حیا مارچ، منزل ان دونوں راہوں میں کہیں بھی نہیں۔

اس کے لیے اہل دانش کو کسی مخصوص پس منظر کے تعصب سے ماورا ہو کر مل بیٹھ کر سوچنا ہو گا۔ کچھ مشترکہ فورمز پر بات رکھنی ہو گی۔ افہام اور تفہیم کے جذبے سے ایک دوسرے کو سننا ہو گا۔ ایک نئی فکر تخلیق کرنی ہو گی۔ مکالمے سے ایک نیا راستہ تلاش کرنے کی ضرورت پڑے گی۔ عورت کی نجات کی منزل ابھی بہت دور ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments