ریاض بٹالوی مرحوم: کہانیاں جسے ڈھونڈ لیتی تھیں


صحافت کی دنیا میں آج بھی اردو فیچر نگاری کا سب سے ممتاز نام ریاض بٹالوی کا ہے۔ وہ منفرد اسلوب کے حامل فیچر نگار، افسانہ نویس، ڈرامہ نگار قلم کار اور عوامی خدمت کے لیے شاندار کردار ادا کرنے والے سوشل ورکر تھے۔ انہوں نے صحافت کو ایک پیشہ سے بڑھ کر سماجی خدمت کا ذریعہ بنایا اور مثبت و متحرک کردار کی نئی مثال قائم کی۔ لوگ انہیں صحافت میں نئے انداز متعارف کروانے اور لوگوں کے مسائل کے حل کے لیے اپنے قلم کو کامیابی سے استعمال کرنے والے عوام دوست صحافی کے طور پر یاد کرتے ہیں۔

دنیائے صحافت میں فیچر نگاری پر 41 سال حکمرانی کرنے والے ریاض بٹالوی کا تعلق متحدہ پنجاب کے ضلع گورداسپور سے تھا۔ اس کا سرحدی قصبہ بٹالہ بڑا مردم خیز خطہ سمجھا جاتا ہے۔ اسی قصبہ بٹالہ میں متوسط گھرانے میں میاں جلال الدین کے گھر 05 فروری 1937ء کو بیٹا پیدا ہوا، جس کا نام ریاض الحسن رکھا گیا۔ وہ دس بہن بھائیوں پر مشتمل بڑی فیملی تھی، وہ پانچ بھائی اور پانچ بہنیں تھیں۔ قیام پاکستان کے بعد اس گھرانے نے پاکستان ہجرت کا فیصلہ کیا اور بٹالہ سے ہجرت کر کے گجرات آ بسا۔

گجرات میں کچہری روڈ پر رہائش اختیار کی۔ ہجرت کی کہانی کسی بھی گھرانے کے لیے خوش گوار نہیں ہوتی، بہت سے مسائل اس کے ساتھ رہتے ہیں۔ ایسے ہی حالات کا شکار میاں جلال الدین کا گھرانا بھی تھا۔ مشکلات کے اس دور میں ریاض الحسن نے ابتدائی تعلیم گجرات سے ہی حاصل کی۔ انہیں لکھنے پڑھنے کا شوق تھا لیکن حالات نے انہیں زیادہ رسمی تعلیم حاصل نہ کرنے دی۔ انہیں جلد روزگار کے لیے تگ و دو شروع کرنا پڑی، تاہم انہوں نے خداداد تخلیقی صلاحیتوں کی بدولت قلم و قرطاس سے رشتہ بھی بنایا، اور کئی مقامی صحافی دوستوں کے ساتھ مل کر صحافت کے میدان میں قسمت آزمائی، مگر مقامی سطح پر سازگار ماحول نہ ہونے کی وجہ سے کامیاب نہ ہو سکے۔

وہ گجرات سے نکلنے والے مختلف مقامی ہفتہ وار اخبارات میں بھی لکھتے اور چھپتے رہے۔ ان کے تخلیقی مزاج کے مقابلے میں گجرات کی صحافت کا میدان بہت چھوٹا تھا۔ وہ طبعاً افسانہ نگار تھے اس لیے اپنے تخلیقی و قلمی ذوق کی تسکین کے لیے انہوں نے افسانے لکھنے شروع کیے۔ پچاس کی دہائی کے وسط میں ان کے افسانے مقبول ہونے لگے تھے۔ اس دور میں پروفیسر سرور کی ادارت میں پشاور سے نکلنے والے اخبار ”بانگ حرم“ کا بہت چرچا تھا۔ ریاض الحسن کے افسانے ریاض بٹالوی کے قلمی نام سے اسی اخبار میں شائع ہوتے تھے۔ ان کا ایک افسانہ ”ماں“ بہت مشہور ہوا تھا۔

60۔ 1959ء میں انہوں نے صحافت کو مستقل پیشہ بنانے کا فیصلہ کیا اور راولپنڈی چلے گئے۔ وہاں پہنچ کر اس دور کے مقبول اخبار، نسیم حجازی کے ”کوہستان“ سے وابستہ ہو گئے۔ جہاں ان کا تعارف عنایت اللہ صاحب سے بھی ہوا۔ عنایت اللہ نے 1953ء میں نسیم حجازی سے مل کر راولپنڈی سے اخبار کوہستان نکالا تھا۔ ریاض بٹالوی نے کچھ عرصہ اس کے ساتھ راولپنڈی میں ہی کام کیا۔ پھر جب 16 ستمبر 1963ء کو عنایت اللہ نے لاہور سے ”روزنامہ مشرق“ کا آغاز کیا تو ان کے پرانے ساتھی ان کے ساتھ ہی لاہور آ گئے۔ ریاض بٹالوی بھی ابتدائی چند دنوں میں ہی اپنے پرانے رفیق صحافی مدیر عنایت اللہ اور اقبال زبیری کے ساتھ کام کے لیے مشرق اخبار میں آ گئے۔

یہ ایوب خان کے مارشل لاء کا زمانہ تھا، سخت سنسرشپ کی وجہ سے سیاسی خبریں بہت کم ہو گئی تھیں اور زباں بندی اس حد تک تھی کہ مارشل لاء جو گل کھلا رہا تھا اس بارے میں لکھنا، چھاپنا تو دور کی بات، اشارے کنائے میں بھی بات کی اجازت نہ تھی۔ ان حالات میں اخبار والوں کے پاس مواد کی بہت کمی ہوتی تھی جب کہ روزانہ اخبار کی اشاعت کے لیے زیادہ سے زیادہ مواد اور مسالہ کی ضرورت ہوتی تھی۔ اس فضا میں نئے اخبار مشرق کو نئے مواد کا مسئلہ اور چیلنج درپیش تھا۔

ایسے وقت میں صحافیوں نے سیاست سے ہٹ کر نئے نئے متبادل ذرائع تلاش کرنا شروع کیے جس سے اخبار کو غذا فراہم کی جا سکے۔ مغرب میں اخبارات کو حیات انسانی کی رنگا رنگی سے مزین کرنے کے لیے فیچر نگاری کی اہمیت نمایاں ہے۔ اردو اخبارات نے اس حوالے سے مغربی طرز صحافت کے مقبول سلسلے فیچر نگاری کو اردو صحافت میں بھی بھرپور طور پر آزمانے کا فیصلہ کیا۔ اردو میں تب تک فیچر نگاری بڑی واجبی سی تھی۔ نئے امکانات کو کھنگالنے کی مشق میں ریاض بٹالوی نے اپنے صحافیانہ جوہر و تجربے کی بنیاد پر عوام الناس کے مسائل اور بکھیڑوں کو کرید کر افسانوی اسلوب و مہارت کا تڑکا لگایا تو اسے بہت پذیرائی ملی۔

انسانی معاملات میں دلچسپی سے ریاض بٹالوی کو تو ایسے جیسے سونے کی کان مل گئی۔ ایک ماہر کان کن کی سی مشقت سے وہ اس کان سے بہت سا صحافتی مواد کشید کرتے اور اسے اپنے مخصوص عوامی طرز تحریر کے قالب میں ڈھال کر پیش کرتے، اس تحریر کو مشرق کے چیف نیوز ایڈیٹر اقبال زبیری کی رہنمائی و مشاورت سے جس طرح مشرق کے صفحات پر نمایاں کر کے چھاپتے، اس نے اردو صحافت میں فیچر کو نئی اڑان بخشی۔ مشرق میں یہ روزانہ کا معمول تھا کہ ریاض بٹالوی اور اقبال زبیری مل کر موضوع تلاش کرتے، مواد کیسے ملے گا پر گفتگو کرتے، تصاویر کیسی ہونی چاہئیں اور کیسے بنیں گی ، پر تبادلۂ خیال کرتے، اس مکالمے و مشاورت کے بعد ریاض بٹالوی صحافتی ریاض میں جت جاتے، لوگوں سے ملتے، کریدتے اور شام کو آ کر لکھتے، سرخیاں نکالتے اخبار کے بہت ماہر اور خطاط اعلیٰ شریف گلزار کے ساتھ مل کر اسے لے آؤٹ سمجھاتے اور پھر ریاض بٹالوی کا فیچر سنڈے ایڈیشن کے صفحۂ اول پر اجاگر ہوتا۔سلگتے موضوعات کے چشم کشا حقائق کے پوشیدہ پہلو بھی بڑی محنت اور مہارت سے بے نقاب کرتے تھے۔

مخصوص طرز تحریر، مشاق کھوجی کی سی تحقیق، اور دلکش پیش کش کی وجہ سے ریاض بٹالوی کے فیچر مقبول عام ہونے لگے۔ پھر صحافت کی تاریخ میں وہ وقت بھی آیا کہ وہ کہانی کو نہیں بلکہ کہانی ریاض بٹالوی کو ڈھونڈتی پھرتی تھی تاکہ وہ ان کے اسلوب کے قالب میں ڈھل کر امر ہو سکے۔ ان کی مہارت اور کمال تھا کہ وہ کہانی کی جزئیات کو بھی وسیع تناظر دیتے تھے اسی لیے ان کی تحریر قاری کے قلب پر دستک دیتی تھی۔

ریاض بٹالوی تخلیقی اعتبار سے افسانہ نگار تھے ، شاید یہی وجہ ہو گی کہ انہوں نے صحافت میں بھی فیچر نگاری کا انتخاب کیا۔ ان کے ذوق، شوق اور پیشے کا حسین امتزاج ہی تھا کہ ان کے فیچر افسانوی زبان و حقائق کے بھرپور عکاس ہوتے تھے۔ انہی دنوں ریاض بٹالوی اور اخبار نے مل کر فرار کی داستانوں پر مشتمل ایک اور دلچسپ تجربہ کیا۔ کہا جاتا ہے یہ سلسلہ بھی جدت پسند عنایت اللہ صاحب کے ذہن ہی کی اختراع تھا۔ اعلان شائع ہوا کہ

” اے لاہور والو ; تم مجھے بخوبی جانتے ہو۔ ہر روز میری تصویر بھی پاکستان کے بہترین اخبار میں دیکھتے ہو، تو اب تمہاری مجرم شناسی کا امتحان ہوتا ہے۔ میں لاہور میں چلتا پھرتا رہوں گا۔ تم نے مجھے پکڑنا ہے۔ جو مجھے پکڑ لے گا، ایک اچھی خاصی رقم بطور انعام کا حق دار ہو گا۔“

اخبار میں اس اعلان کا چھپنا تہلکہ خیز ثابت ہوا۔ اخبار میں اشتہار شائع ہوتا کہ ریاض بٹالوی فرار ہو گیا ہے جو شہری آج اسے ڈھونڈے گا، اسے نقد انعام دیا جائے گا۔ ریاض بٹالوی مواد کی تلاش میں بھیس بدل کر کبھی گداگروں کی ٹولی میں گھس جاتے، اور کبھی مسافر بن کر شہر کی گلیوں میں گشت کرتے۔ سرکاری دفاتر میں غریب سائل بن کر جاتے، اور جو ان پر بیتی ہوتی وہ قلم بند کرتے اور یہ کہانی فیچر بن کر اخبار میں شائع ہوتی۔

اس مہم کے دوران وہ گرفتار بھی ہوئے، پھر انہوں نے جیل کے حالات پر فیچر لکھا۔ قارئین روزانہ اخبار میں یہ اشتہار دیکھتے اور انہیں پکڑنے کی کوشش کرتے لیکن کامیاب نہ ہو پاتے۔ کئی دنوں بعد وہ کیمرے والے کی غلطی کی وجہ سے سینما سے نکلتے ہوئے پکڑے گئے۔ ریاض بٹالوی سینما بینی پر فیچر کے سلسلے میں پلازہ سینما میں چھ سے نو بجے والا شو دیکھنے گئے۔ بھرے رش میں ٹکٹ لیا، ہال میں گئے، وقفہ ہوا، شو ختم ہو گیا، کوئی انہیں پہچان نہ سکا۔

آخر باہر نکلنے لگے تو روزنامہ مشرق کے فوٹو گرافر نے صبح کے اخبار میں چھاپنے کے لیے ان کی تصویر کھینچی۔ کیمرے کے فلش سے روشنی کا ایک جھماکا ہوا، تو اچانک ایک شہری کے دماغ میں بھی خیال کی روشنی کوند گئی کہ آیا اس وقت، یہ تصویر کیوں؟ اس زمانے میں میں کیمرے عام نہیں تھے۔ اس شہری نے ارد گرد کا بغور جائزہ لیا اور آخرکار ریاض بٹالوی کو دریافت کر لیا۔ ریاض بٹالوی اس دور میں اخبار پڑھنے والوں کے مقبول ہیرو تھے۔

ریاض بٹالوی کے فیچروں کا ایک سلسلہ ”ایک حقیقت، ایک افسانہ“ کے عنوان سے شروع ہوا، انسانی المیوں کے کیسے کیسے روپ بے نقاب ہوئے۔ دکھ، درد اور مصائب سے لبریز کیسی کیسی کہانیاں منظر عام پر آئیں۔ سیدھا، سچا واقعہ ہوتا مگر اس کا رنگ جیسے کوئی افسانہ ہو۔ ہجرت کے دکھ ریاض بٹالوی کی ہڈ بیتی تھی۔ اس کے تناظر میں انہوں نے 1947ء کی ہجرت و فسادات میں جدائیوں و مظالم کے واقعات کی تلاش میں انسانوں کو کھنگالا تو دل دہلا دینے والی کہانیوں کا سیلاب آ گیا۔

ہجرت کے طوفان میں بچھڑے لوگ جدائیوں کو مقدر سمجھ کر صبر کی چادر اوڑھ کر جی رہے تھے لیکن جب ریاض بٹالوی نے ان المیوں کو کریدا، ایسے گھرانوں اور افراد کا کھوج لگایا اور ان سے پوچھا کہ ان پر کیا گزری، تو کیسی کیسی دردناک و المناک کہانیاں منظر عام پر آئیں۔ ریاض بٹالوی نے انہیں اپنے فیچروں کا موضوع بنایا تو اسے کتنے زیادہ خطوط آنے لگے۔ فیچر پڑھ کر کتنے ایسے بچھڑوں کا ملاپ ہوا، جنہیں ان کے پیارے مرا ہوا سمجھ کر بھلا بیٹھے تھے۔کئی مرے ہوئے لوگ ان کہانیوں کے ذریعے زندہ ہو گئے تھے۔

ریاض بٹالوی پیشے کے اعتبار سے صحافی تھے مگر اندر سے سماج سدھار سوشل ورکر تھے۔ ریاض بٹالوی نے ایک کالم ”اسے بھی پڑھیے“ کے عنوان سے شروع کیا۔ یہ کالم روزنامہ مشرق کے صفحہ نمبر 2 پر بائیں ہاتھ چھپتا تھا،  اس میں بھی عوامی شکایات اور مشکلات کو بیان کیا جاتا۔ اس سلسلے کے ذریعے بھی انہوں نے عوام کی بہت سی مشکلات حل کروائیں۔ اس دور میں بے بس اور مشکلات کا شکار لوگوں کے لیے یہ کالم فری ہیلپ لائن کا درجہ رکھتا تھا۔

دردناک کہانیوں نے انہیں غمناک و بے بس بنانے کی بجائے متحرک و فعال بنا دیا تھا۔ انسانی المیے اور معاشرتی مسائل ان کے موضوعات ہوتے تھے۔ وہ محض فیچر نہیں لکھتے تھے بلکہ ان عوامی مصائب و مشکلات کے تدارک کے لیے کمر کس لیتے تھے۔ وہ ہسپتالوں سے رابطے کرتے ڈاکٹرز سے ملاقاتیں کرتے اور نادار مریضوں کے علاج معالجے کا بندوبست کرتے، لوگوں کے مسائل حل کروانے کے لیے دفاتر کے چکر لگاتے، افسروں سے رابطے کرتے اور معاملات کو سلجھانے کی مقدور بھر کوشش کرتے۔

ان کی تحریروں میں ”ریڈر سروس“ اور ”سنڈے فیچر“ کو قارئین نے ہمیشہ پسند کیا اور خوب سراہا۔ ممتاز ادیب مرحوم انتظار حسین نے لکھا ہے کہ ”ایسے واقعات سے اس اخبار کو یہ اشارہ ملا کہ اخبار کے ذریعے خدمت خلق کا فریضہ بھی انجام دیا جا سکتا ہے۔ سو اخبار میں ایک شعبہ اسی مقصد کے لیے قائم کیا گیا جس کا انچارج بن کر ریاض بٹالوی نے بڑی سرگرمی سے یہ فریضہ سرانجام دیا۔ اس واسطے سے پتہ چلا کہ اس صحافی کے اندر تو ایک خادم خلق بھی چھپا بیٹھا تھا یعنی عبدالستار ایدھی کی نمود سے پہلے اس قماش کا ایک صحافی“ ۔

روزنامہ مشرق کے ان کے ایک اور ساتھی عالی رضوی ریاض بٹالوی بارے لکھتے ہیں کہ ”فیچر نگاری کے حوالے سے تو اس کی شخصیت ایک علامت، ایک استعارہ، اور ایک روایت بن کر ابھری اور معاشرے کے زیردست طبقوں کی آواز میں ڈھل کر جور و استبداد کے ایوانوں سے ٹکرا گئی۔ انسانی آلام، سماجی مصائب، اور عوامی مسائل پر لکھے گئے فیچروں اور سچی کہانیوں نے اسے لوگوں کی نگاہ میں ایک ایسا افسانوی، دیو مالائی اور رومانوی کردار بنا دیا جو کبھی رابن ہڈ بن کر مظلوموں کی مدد کرتا نظر آتا ہے، کبھی ٹارزن کے بھیس میں دکھوں کی مہمات سر کر رہا ہوتا ہے، کبھی ہرکولیس کی صورت زمینی بلاؤں کا مقابلہ کر رہا ہوتا ہے اور کبھی فیوجٹی کی طرح برسوں سے بچھڑے ہوئے رشتوں کو ملا رہا ہوتا ہے۔“

حب الوطنی ریاض بٹالوی کی شخصیت کا نمایاں جوہر تھا۔ 1965ء کی پاک بھارت جنگ شروع ہوئی تو انہوں نے قلم کی طاقت کا رخ بھی اسی طرف موڑ دیا۔ جنگ کے زمانے میں انہوں نے ایک تحریر کے ذریعے قوم کو ”ایک ٹیڈی پیسہ، ایک ٹینک“ کا نعرہ دیا جو بہت مقبول ہوا۔ ان کا کہنا تھا کہ قوم کا ہر فرد، چھوٹا ہو یا بڑا، اگر صرف ایک پیسہ روز بچا کر قومی خزانے میں جمع کرائے تو روزانہ ایک امریکی ٹینک خریدا جا سکتا ہے۔ یہ بات اس قدر پسند کی گئی کہ ملک بھر میں بالعموم اور پنجاب میں بالخصوص جگہ جگہ دکانوں پر چندہ باکس نظر آنے لگے یا دیواروں پر لٹکا دیے گئے جن پر یہ نعرہ نمایاں درج ہوتا تھا۔

اس چندہ کو جمع کر کے اکٹھا کر لیا جاتا اور پھر لوگ اسے لے کر مشرق کے دفتر آ جاتے اور ریاض بٹالوی کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر یہ پیسے دیتے اور وہ ان پیسوں کو ملک کے دفاعی فنڈ میں جمع کروا دیتے۔ عالی دماغ ریاض بٹالوی کی صحافت کا امتیاز ہے کہ ان کا ٹیڈی پیسہ ٹینک کا نعرہ ملک گیر تحریک کی شکل اختیار کر گیا تھا۔ عوام کے ان پر اعتماد کی روشن مثال ہے کہ انہوں نے کروڑوں روپے اس تحریک میں ملک و قوم کی نظر کر دیے تھے۔ 1971ء میں بھی ان کی تحریریں اور فیچر حب الوطنی کے فروغ کا سبب بنے تھے۔ جنگ میں بے گھر ہونے والوں کی مدد کے لیے انہوں نے لکھا تو مشرق کے دفتر کے باہر لوگ راشن بھرے ٹرک لے کر پہنچ گئے تھے۔

پرنٹ میڈیا کے ساتھ ساتھ ریاض بٹالوی ٹیلی ویژن ناظرین میں بھی بڑا مقام رکھتے تھے۔ اس دور میں پی ٹی وی کا راج تھا اور پی ٹی وی کے ڈراموں کی دھوم اور دھاک چار سو تھی۔ ریاض بٹالوی کی مقبولیت نے پاکستان ٹیلی ویژن کے جوہر شناسوں کو بھی متاثر کیا اور ان کی توجہ اور نگاہیں بھی ان پر مرکوز ہو کر رہ گئی تھیں۔ پی ٹی وی نے ان کے فیچروں کی بنیاد پر اس عہد کی مقبول ترین سیریل ”ایک حقیقت، ایک افسانہ“ شروع کی۔ ریاض بٹالوی کے فیچر پر مبنی ڈرامہ ”دبئی چلو“ لوگوں میں مقبولیت کے ریکارڈ قائم کر گیا تھا۔ اس سلسلے کے تمام ڈرامے مشہور ہوئے تاہم ”روبی کس کی بیٹی ہے“ ، ”سناٹا“ ، ”وہی منزلیں، وہی راستے“ ، ”عکس اور آئینے“ ، ”تلاش“ ، ”خلش“ دبئی چلو کی طرح زیادہ مقبول ہوئے۔ افسانہ نگار اور فیچر نگار ہونے کے ساتھ بطور ڈرامہ نویس ان کی شناخت بھی بہت شاندار ہے۔

ریاض بٹالوی کی قابل تحسین صحافتی خدمات کے اعتراف میں حکومت پاکستان نے 14 اگست 1986ء کو انہیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی سے نوازا۔ ریاض بٹالوی روزنامہ مشرق سے 32 سال وابستہ رہے۔ ان کا فیچر مشرق کی جان اور صحافت کی آن ہوتا تھا۔ جنرل ضیاء کے دور میں ٹرسٹ کے اخبار بدحالی کا شکار ہوئے تو اخبار کی بندش سے پہلے جن صحافیوں نے گولڈن شیک ہینڈ کے ذریعے علحیدگی اختیار کی، ان میں ریاض بٹالوی بھی شامل تھے۔

بعد ازاں وہ روزنامہ جنگ لاہور سے منسلک ہو گئے اور سنڈے میگزین کے درمیانی صفحات پر فیچر کا سلسلہ شروع کیا لیکن وہ اخبار جنگ کے ماحول میں زیادہ دیر نہ چل سکے اور اخبار چھوڑ گئے۔ مختصر عرصہ کے لیے روزنامہ خبریں و انصاف میں بھی لکھا۔ 1999ء میں ان کی چند تحریروں پر مشتمل کتاب ”اور فرات بہتا رہا“ : مٹتی تہذیبوں، اجڑتے تمدنوں، اور انسانی ہجرتوں کا سفر۔ 149 صفحات پر مشتمل اس کتاب کو مشہدی پبلی کیشنز لاہور نے شائع کیا۔ اس کا پیش لفظ ممتاز کہانی کار مرحوم انتظار حسین نے لکھا ہے جبکہ فلیپ منو بھائی اور عالی رضوی نے لکھے ہیں۔ عالی لکھتے ہیں:

” ریاض بٹالوی کی ہر دلعزیزی کا راز سچائی کی کھوج اور اس کی روح میں اتر جانے والی تحریر اور جادوئی اسلوب ہے ، ”اور فرات بہتا رہا“ سچائی کی اسی کھوج کی کامیاب کاوش ہے۔ یہ کتاب بیک وقت تاریخ بھی ہے، ناول بھی، سفرنامہ بھی، داستان گوئی بھی، حقیقت بھی، فسانہ بھی، نغمہ بھی اور نوحہ بھی۔ وہ ماضی کے تہہ خاک مزاروں میں مہم جو بن کر اترا ہے۔ اس نے گزرے زمانوں کی راکھ کو سیاح بن کر کریدا ہے اور ادوار کے اساطیری سرابوں میں صحرانورد بن کر بھٹکا ہے اور اس نے تاریخ کے خرابوں میں ہونے والی انسانی غارت گری اور مذہبی درندگی پر چپکے چپکے آنسو بھی بہائے ہیں۔ ”

وقت گزرتا گیا اور ساتھ ساتھ صحافت کے تقاضے بھی بدلنے لگے اور پھر ان کی خراب ہوتی صحت آڑے آنے لگی اور اس طرح ریاض بٹالوی خبریں کے چیف ایڈیٹر ضیاء شاہد کی خواہش اور فرمائش کے باوجود لکھنے کا سلسلہ جاری نہ رکھ سکے چنانچہ انہوں نے معذرت کر لی۔ ان کا رجحان اب زیادہ تر رفاہی کاموں کی طرف ہو گیا تھا۔ وہ گنگا رام ہسپتال کی پیشنٹ سوسائٹی میں بہت متحرک ہو گئے تھے۔ ان کا معمول تھا کہ وہ اکثر صبح گھر سے پھول لے کر گنگارام ہسپتال جاتے، وہاں مریضوں کی عیادت کرتے، انہیں پھول پیش کرتے، ان کی مشکلات جانتے اور ایم ایس اور اپنے دوست ڈاکٹر پروفیسر اکبر چوہدری سے ملتے اور مریضوں کی مشکلات کے حل کے لیے کوشش کرتے۔کئی سال یہ سلسلہ جاری رہا۔

15 جنوری 2003 کی صبح بھی وہ اسی معمول کے مطابق گھر سے پھول لے کر مریضوں کو دینے نکلے کہ راستے میں ہی ان کی اپنی طبعیت خراب ہو گئی، لوگوں نے ان کی بگڑتی حالت دیکھ کر رکشے میں ڈالا اور پاس ہی گنگا رام ہسپتال لے گئے۔ وہاں پہنچے تو ان کے چاہنے والے ڈاکٹر بھاگم بھاگ انہیں دیکھنے پہنچے اور بچانے کی سرتوڑ کوشش کی لیکن سب کوششیں رائیگاں گئیں اور سہ پہر وہ داعی اجل کو لبیک کہہ گئے۔ 16 جنوری 2003 ء کو میکلوڈ روڈ لاہور کے مومن پورہ قبرستان میں انہیں سپرد خاک کر دیا گیا۔

اس طرح آسمان صحافت پر فیچر نگاری کا یہ آفتاب پوری آب و تاب سے چمکنے کے بعد ہمیشہ کے لیے غروب ہو گیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments