میڈیکل ڈیتھ اسکواڈ


تعلیم کے بعد صحت کسی بھی ریاست کا اہم شعبہ ہوتا ہے۔ جبکہ اس شعبے کو اگر خدمت کے لحاظ سے دیکھا جائے تو اس کا کوئی ثانی نہیں اور اگر بزنس کے لیے دیکھا جائے تو بھی اس کا کوئی نام البدل نہیں۔ اور کسی بزنس ایکسپرٹ کا کہنا ہے 5 ایسے کاروبار ہیں جو دنیا کے ختم ہونے تک چلیں گے جن میں دوسرے نمبر پر میڈیکل فیلڈ آتی ہے۔ جبکہ اس میں کوئی شک نہیں پاکستان میں یہ شعبہ خدمت سے زیادہ بزنس پر چلتا ہے اور جس کا زیادہ تر کام غیر قانونی ہوتا ہے جس میں متعلقہ شعبے سے منسلک ریاست کے اول و آخر ذمہ داران جن میں ملک کے وزیراعظم، ہیلتھ منسٹرز، ہیلتھ سیکریٹریز سے لے کر ڈائریکٹرز، ڈی ایچ اوز، ڈاکٹرز، لیب ٹیکنیشنز، میڈیکل اسٹور والے اور بالخصوص (میڈیسن سیلز مین و میڈیسن کمپنیاں ) وغیرہ شامل ہوتی ہیں۔

کچھ دن پہلے صبح اٹھتے ہی ایک بری خبر کا سامنا کرنا پڑا ایک رشتہ دار کا شیرخوار بیٹا فوت ہو گیا تھا۔ میں نے موت کی وجہ معلوم کی تو پتا چلا کہ ایسے ہی ایک دن پہلے معمولی بخار آیا ڈاکٹر کو دکھایا ڈاکٹر نے دوائی دی پہلے ڈوز کے فوراً بعد بچہ سن ہو گیا اور پھر رات دھیر گئے چل بسا۔ مزید معلومات کے مطابق کسی دوسرے ڈاکٹر کو بلایا گیا جس صاحب نے کہا بچے نے کوئی زہریلی چیز کھائی ہے جس کی وجہ سے ان کی موت واقع ہوئی ہے۔

والدین نے کہا 15 ماہ کا بچہ جس کا زیادہ وقت ماں کی گود میں گزرتا ہے ہماری نظروں کے سامنے تو اس نے کوئی ایسی چیز نہیں کھائی۔ خیر ہمیشہ کی طرح جو اللہ پاک کی رضا یہ کہہ کر میں بھی یہ بات یہاں پر ختم کر دیتا ہوں۔ جبکہ ایسے والدین اور کئی اموات جن کا باقاعدہ تعلق 8 نمبر ادویات سے یا پھر بغیر مرض کی تشخیص کے ادویات لکھ کر دینے سے منسلک ہیں اور بے درد میڈیکل ڈیٹھ اسکواڈ اس میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ بالخصوص دیہات یا پھر چھوٹے قصبوں میں اگر کوئی واقعہ اس نوعیت کا پیش آ جائے تو نہ یہ اخبار کی زینت بنتا ہے اور نہ ہی ذمہ داران اس کو کوئی اہمیت دیتے اور نہ ہی سوشل میڈیا پر وائرل ہوتا ہے بس مرنے والا اللہ کی رضا سے مر جاتا ہے اور رونے والے روتے رہتے ہیں۔

کافی عرصے سے میں دیکھ رہا ہوں میں زیادہ دور نہ جاتے ہوئے صرف میڈیکل فیلڈ کے حوالے سے اپنے ارد گرد کی صورتحال کی بات کروں تو جس طرح گداگروں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اسی طرح میڈیکل سیلز مین کی آمد، میڈیکل اسٹورز اور نان پروفیشنل ڈاکٹرز میں بھی اضافہ دیکھنے میں نظر آ رہا ہے۔ میں اکثر کہتا ہوں شدت سے بیروزگار بندہ اچانک صحافی بن جاتا ہے اور در در کی ٹھوکریں کھانے والا اکثر ٹیچر بن جاتا ہے جبکہ میٹرک میں بیالوجی یا کیمسٹری میں 55 نمبرز لینے والا کسی بڑے مقصد میں ناکام ہونے والا عطائی ڈاکٹر بن جاتا ہے۔

اور یہ گروہ اپنی ایک چین بنا کر یونین کی شکل اختیار کر جاتا ہے اور پھر پاورفل بن جاتا ہے جس کے سامنے حکومت اور ادارے بے بس نظر آتے ہیں۔ جیسے تعلیم کے شعبے میں ٹیچر یونین، ٹرانسپورٹ میں ٹرانسپورٹ یونین وغیرہ اسی طرح میڈیکل میں میڈیکل یونین کے نام سے یہ گروپ منسوب ہے۔ اور جس طرح ٹیچر یونین بچے کی تعلیم پر بات کرنے سے گریز کرتے ہیں اور ٹرانسپورٹ یونین ٹرانسپورٹ کی بہتری پر اسی طرح میڈیکل یونین جعلی ادویات یا پھر بغیر تشخیص کے علاج یا نان پروفیشنل کے متعلقہ فیلڈ میں آنے سے گریز کرتے ہیں۔

میرے دو تین دوست شعبہ صحت کے پیشے سے منسلک ہیں ممکن ہے اس تحریر کے بعد دو تین دن مجھ سے وہ ناراض رہیں مگر اچھی بات ہے وہ مجھے علاقائی مسائل کو قلم کی ضبط میں لانے پر داد بھی دیتے ہیں خیر یہ ہمارا آپس کا معاملہ اس کو بعد میں دیکھ لوں گا۔ میرا ذاتی تجربہ رہا ہے ہمارے شہر میں میڈیکل اسٹورز پر دستیاب ادویات کو آسانی سے جعلی کرار دینا میری طرح عام آدمی کے بس کی بات نہیں ہوتی۔ مگر اس کا عام لوگ اس طرح تجربہ کرتے ہیں جب وہ اپنے مریض کو کراچی جیسے شہر لے کر جاتے ہیں اور اتفاقاً سے متعلقہ ڈاکٹرز مریض کامعائنہ کرنے کے بعد وہی ادویات لکھ کر دیتا ہے جو لوکل ڈاکٹر نے لکھ کر دی تھی اور ان ادویات کا ایک ڈوز اپنے شہر کے میڈیکل اسٹورز پر وہی ادویات کی 50 خوراکوں سے زیادہ مفید ہوتا ہے اور اثر انداز بھی ہوتا ہے۔ جبکہ ابھی تک میں اس معلومات پر کام کر رہا ہوں کہہ اس کی کیا وجوہات ہو سکتی ہیں۔ لیکن اس سے پہلے رہا نہیں گیا تو سوچا پہلے سے ہی اس میڈیکل ڈیٹھ اسکواڈ کو قلم کی ضبط میں لایا جائے۔

حکومت نے میڈیکل اسٹورز، کمپنیوں یا کلینکس کے لیے مانیٹرنگ ٹیمیں بھی تشکیل دے رکھی ہیں۔ جو متعلقہ شعبے میں تجربہ رکھتے ہیں جن کو ڈرگز کے بارے میں موثر معلومات ہوتی ہے مگر وہ لمبی دعوتوں کے سامنے بے بس ہو جاتے ہیں آتے ہیں سیر کر کے چلے جاتے ہیں۔ خیر ہر شعبے میں نگرانی کا لیول پاکستان میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ جو انویسٹیگیٹ نوٹیفیکشن سے ہوتا ہوا ٹیم تشکیل دینے تک اور اس کے بعد ٹی اے ڈی اے اور متعلقہ علاقے میں سیرسپاٹے سے ہوتے ہوئے فائنل رپورٹ تسلی بخش تک جاکر مکمل ہوتی ہے۔

ہمارے ہاں 80 فیصد ڈاکٹر حضرات اور میڈیکل سیلز مین کا ایسا بندھن ہے جو آج کل شاید ہر قسم کے بزنس ریلیشن سے زیادہ طاقتور اور منظم نظر آتا ہے۔ اس کی ایک مثال یہ ہے متعلقہ ڈاکٹر جو ادویات مریض کو لکھ کردے وہ اس کے پارٹنر میڈیکل اسٹور کے علاوہ کسی اور اسٹور سے مل سکے یا متعلقہ کمپنی کے سیلز مین جن کے ساتھ باہمی تعلقات ہوتے ہیں ان کی کمپنی کے علاوہ کوئی اور دوا لکھ کردے وہ کسی اور میڈیکل اسٹور سے کم ہی ملتی ہے۔

جبکہ سرکاری ہسپتالوں اور بی ایچ یوز میں ڈاکٹرز کی موجودگی غنیمت سمجھی جاتی وہ اگر کسی دن موجود ہوں کیونکہ ان کا فوکس شام والی شفٹ پر ہوتا ہے اور وہ شفٹ ان کی ذاتی کلینکس پر لگتی ہے۔ لیکن سرکاری ہسپتال میں بیٹھ کر بھی ایسے چند ڈاکٹر حضرات مریضوں کو ادویات کوشش کریں گے ایسی لکھ کردیں جن کا سرکاری بی ایچ یوز یا اسٹورز پر نام و نشان تک نہیں ہوگا جبکہ فارمولے میں اگر دستیاب ہو بھی جائے تو کمپنی برانڈ کا کہہ کر مریض کو موبالائز کرنے کی کوشش کریں گے عام اسٹور سے لی جائے اور یہی موبلائزیشن باقاعدہ میڈیکل میڈیسن کمپنی یا میڈیسن سیلز مین کے ساتھ باہمی بزنس کا حصہ ہوتی ہے۔

ادویات میں کوالٹی اور رزلٹ کے حوالے سے ایک ڈاکٹر اور میڈیکل اسٹور مالک سے جب میں نے دریافت کیا تو ان کا کہنا تھا۔ ڈرگ کی پیکنگ کمپنی اور لوگو ایک جیسا ہے ہاں یہ اور بات ہے میڈیسن سیلز مین ایریا وائز مختلف ہوتے ہیں اس وجہ سے ہم رزلٹ میں فرق جو آ رہا ہے اس پر بات نہیں کر سکتے۔ ممکن ہے ایک ہی میڈیسن کی مختلف کاپیز بنائی جاتی ہو جو ایریا وائز سپلائی کی جاتی ہو یا کوئی اور وجہ ہو۔ بہرحال حکومت کو اس میڈیکل ڈیتھ اسکواڈ کے بارے میں سوچنا ہوگا اور معاملے کی چھان بین کی اشد ضرورت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments