آہ! پروفیسر کعبی بھی آسودۂ خاک ہوئے


گجرات کی ممتاز علمی و ادبی شخصیت، میرے استاد اور کولیگ، سابق صدر شعبۂ اردو پروفیسر منیرالحق کعبیؔ بہل پوری 23 مارچ 2021ء کو رضائے الٰہی سے وفات پا گئے ہیں۔ یہ خبر سن کر دل بہت دکھی ہوا۔ میری بدقسمتی و بے خبری کہ مجھے شام کو پتہ چلا اور میں دوپہر دو بجے ان کی نماز جنازہ میں بھی شریک نہ ہو سکا۔ ان کے ساتھ گزارے پل بہت شاندار اور ہمیشہ یاد رہنے والے ہیں۔ انہوں نے زندگی کے آلام و مصائب کو ہمیشہ خندہ پیشانی سے جھیلا، دنیاوی اور مادی مشکلات کو ہنس کر اڑا دینا ان کا کمال تھا۔

وہ بڑے زندہ دل، ہردم چاق و چوبند، متحرک علمی مزاج، تحقیقی آداب، شعری جمال اور فکری متانت کے حامل چھوٹے قد کے بڑے آدمی تھے۔ تخلیق و تنقید ان کا اوڑھنا بچھونا تھا۔ شاندار لباس، منفرد انداز، اور دین اور پاکستان سے محبت ان کا تدریسی خاصہ تھا۔ سخن وروں کی بستی گجرات میں ادب شناس اور علم دوست بہت ہوں گے لیکن پروفیسر منیرالحق کعبیؔ بہل پوری ایک ہی تھے۔

پروفیسر منیرالحق کعبی تحصیل گجرات کے تاریخی قصبہ جلالپورجٹاں کے نواحی گاؤں بہل پور میں 26 جنوری 1946ء کو درویش صفت حکیم محمد عظیم کے گھر پیدا ہوئے۔ روایت زمانہ کے مطابق ابتدائی تعلیم گاؤں سے حاصل کرنے کے بعد مرکزی قصبہ جلالپورجٹاں آ گئے اور گورنمنٹ اسلامیہ ہائی سکول سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ اسی دور میں جلالپور جٹاں کی فعال و مقبول سماجی و سیاسی شخصیت شیخ ظہور احمد سے ان کی ملاقات ہوئی، ان کے پاس بیٹھ کر روزانہ اخبار پڑھنے کی عادت اپنائی اور ان کی رہنمائی اور ترغیب پر ہی مزید پڑھنے کا رجحان پختہ ہوا۔

انٹر میڈیٹ سے ایم اے اردو تک انہوں نے مسلسل سعی و کاوش سے تمام امتحان پرائیویٹ طور پر پاس کیے۔ ثانوی تعلیم کے ساتھ ہی انہوں نے غم روزگار کو گلے لگا لیا تھا۔ کعبیؔ صاحب نے پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز سکول میں تدریس سے کیا اور ساتھ ساتھ تعلیم کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ ان کے اندر موجود آگے بڑھنے کا جذبہ انہیں سکول کی تدریس پر قناعت نہیں کرنے دیتا تھا۔ وہ علم و ادب اور تحقیق و تنقید کے میدان میں اپنا کردار ادا کرنے کے لیے 1980ء کی دہائی کے وسط میں گورنمنٹ زمیندار کالج گجرات کے شعبۂ اردو میں آ گئے۔

گجرات آ کر انہوں نے محلہ گڑھی احمد آباد میں رہائش اختیار کی۔ زمیندار کالج گجرات علمی و ادبی حوالے سے سخن وروں کی بستی کی معتبر شناخت کا حامل ادارہ تھا۔ منیرالحق کعبیؔ کو یہاں بڑی زرخیز فضاء ملی جس سے انہوں نے خوب استفادہ کیا۔ میں بطور طالب علم زمیندار کالج آیا تو وہاں اردو کے اس مقبول استاد سے ہماری کلاس کو مطالعہ پاکستان پڑھنے کا موقع ملا۔ حب الوطنی اور پاکستانیت کا ان کا اپنا خاص تناظر تھا۔ وہ راسخ العقیدہ شخص تھے اور کلاس میں روایتی پاکستانی استاد کی طرح مطلق پاکستانی تناظر میں تاریخی اسباق پڑھایا کرتے تھے۔

ان کی تعلیمات پر مذہبی بلکہ بڑی حد تک مسلکی رنگ غالب تھا ، اس لیے کلاس میں ان سے اختلاف ممکن نہیں تھا۔ مذہبی دائرے سے باہر وہ بڑے رومان پسند، جدید ادبی نظریات کے مبلغ تھے۔ 1993ء میں، میں نے بطور استاد زمیندار کالج جوائن کیا تو بڑی خوشدلی سے انہوں نے جی آیاں نوں کہا۔ سرکاری نوکری کے آداب سے پہلا تعارف انہوں نے ہی کروایا اور سمجھایا۔ ان کے ایک اور شاگرد پروفیسر کلیم احسان بٹ کے زمیندار کالج آنے سے کعبی صاحب سے قربت و بیٹھک میں اور اضافہ ہو گیا۔

میرا سارا دن شعبۂ اردو کے اساتذہ کے ساتھ ہی گزرتا تھا ، اس لیے اکثر احباب و طالب علم مجھے بھی اسی شعبے کا استاد سمجھتے تھے۔ کعبی صاحب مجلسی مزاج کے بندے تھے اور جوانوں میں نوجوان نظر آتے تھے۔ مجھے ان کے ساتھ تقریبات میں شرکت اور انتظام و انصرام کے حوالے سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔ وہ خوش ہوتے تو ان کے بلند قہقہے اس کا برملا اعلان کرتے، لیکن یہ بھی درست ہے کہ وہ کئی معاملات میں بڑے نازک مزاج تھے اور جلد خفا بھی ہو جاتے تھے تاہم حسیناؤں کی طرح جتنی جلدی ناراض ہوتے تھے، اتنی جلدی ہی مان بھی جاتے تھے اور پھر محفل کو کشت زعفران بنا دیتے۔

بہت عرصہ وہ کالج کے خبرنامہ اور سہ ماہی میگزین ”شاہین“ کے مدیراعلیٰ بھی رہے، میں بھی ان کی مجلس ادارت کا حصہ ہوتا تھا، تحریر و تقریر کی نوک پلک سنوارنے میں وہ فراخدلی سے رہنمائی فرماتے تھے۔ دلکش لباس زیب تن کر کے وہ کالج میں اور زیادہ نمایاں نظر آتے تھے اور اساتذہ کے ساتھ ساتھ طالب علموں میں بھی بہت مقبول تھے۔ کلاسوں سے فراغت کے بعد ان کے ہمراہ کالج کینٹین پر جو محفلیں جمتی تھیں، وہ گجرات میں لاہور کے پاک ٹی ہاؤس کا درجہ رکھتی تھیں۔

پروفیسر منیرالحق کعبیؔ بہل پوری

کالج سے واپسی پر موسم اچھا ہوتا تو ہم کعبی صاحب کے ہمراہ پیدل شہر تک جاتے تھے۔ صوفی کے کباب، چنے چاول، گول گپے، دہی بھلے کے لیے راستے میں رکنا اور پھر سر راہ محفل جما لینا پروفیسر کلیم احسان بٹ، پروفیسر میاں انعام الرحمان، پروفیسر محمد اسلم اعوان ، پروفیسر عارف محمود چٹھہ محفل کی رونق ہوتے۔ کئی دفعہ فلسفیانہ مزاج کے شاعر و نقاد پروفیسر طارق محمود طارق بھی رونق بخشتے۔ خوب ہلا گلا ہوتا، کسی آنے والی تقریب کے انتظامات کو حتمی شکل دی جاتی اور روزانہ ایک دوسرے کو صبح جلدی ملنے کے لیے ہنسی خوشی الوداع کہنا ان دنوں کی بہت مسرت آفریں روایت تھی، ہر دلعزیز پروفیسر منیرالحق کعبیؔ اس کے روح رواں ہوتے تھے۔

اپنے مجلسی مزاج، اور نثری و شعری مہارتوں کی وجہ سے وہ زمیندار کالج سے زیادہ گجرات کے گرلز کالجز میں مقبول و محترم سمجھے جاتے تھے۔ گجرات اور گجرات سے باہر مشاعروں اور ادبی تقریبات میں مرکزی حیثیت کے حامل ہوتے تھے۔ ایک روز پروفیسر کلیم احسان بٹ نے پروگرام بنایا کہ پروفیسر تنویر احمد چوہان آئے ہوئے ہیں سب دوست مل کر چھٹی کے بعد فلم دیکھتے ہیں۔ ہم سب دوست مل کر فلم دیکھنے جی ٹی ایس چوک کے ساتھ فیصل سینما چلے گئے، کعبی صاحب نے کہا، فلم دیکھنی ہے تو پورے موڈ سے دیکھنی ہے۔

انہوں نے ہم سب کو راستے ہی سے سپیشل پان لے کر دیے اور لطف اندوزی کے دیگر لوازمات کا بھی بھرپور انتظام کیا تاکہ فلم بینی کے دوران سماں بندھا رہے۔ وہ اس دن واقعی بڑے ظریفانہ موڈ میں تھے۔ سینما پہنچ کر ہمیں ٹکٹیں لے کر اندر جانے تک کوئی شناسا چہرہ نظر نہیں آیا، جس سے ہمارا فلم دیکھنے کا اعتماد اور بڑھا، لیکن جب فلم شروع ہوئی تو کئی ضرورت سے زیادہ رومانوی مناظر پر اندھیرے میں ڈوبے سینما کی گیلری کی ہر طرف سے اچانک کعبی صاحب کے نام کے نعرے بلند ہونے شروع ہو جاتے۔

ہم سب تو اس سے لطف اندوز ہونے لگے لیکن اچانک کعبیؔ صاحب کا موڈ خراب ہو گیا اور وہ کہنے لگے کہ یہ آپ لوگوں کی سازش ہے، ہم نے بہت وضاحتیں دیں لیکن وہ نہ مانے اور کہنے لگے فلم سٹار نیلی کی فلم ہم سب دیکھنے آئے ہیں، گیلری میں نعرے صرف میرے نام کے کیوں؟ ، آپ لوگ جوان ہیں، آپ لوگوں کے نام کے نعرے کیوں نہیں لگ رہے۔ فلم گئی جہنم میں ہم فلم دیکھنے کی بجائے ان کو منانے میں لگے رہے۔ صبح کالج پہنچے فلم دیکھنے کی خبر جنگل کی آگ کی طرح ہر طرف ہم سے پہلے پہنچی ہوئی تھی۔

کعبی صاحب جس کلاس میں جاتے طالب علم ان سے فوراً پوچھتے، کعبی صاحب نیلی کی فلم کیسی تھی؟ کعبی صاحب بہت سیخ پا ہوئے اور کئی دن ہم سے ناراض رہے۔ پھر فیصلہ ہوا کہ اب فلم دیکھنے سینما نہیں جانا۔ سینما ہال میں ان کے نعروں کا حقیقی پہلو یہ ہے کہ کعبی صاحب شہر کے ہر طبقۂ فکر کے لوگوں میں یکساں مقبول تھے، ہر کوئی انہیں جانتا تھا، بلاشبہ وہ بڑے زندہ دل انسان تھے۔ان کی مجلسی زندگی بڑی بھرپور تھی۔ اس کے باوجود وہ ادب و تاریخ کے سنجیدہ مطالعے کے لیے بہت وقت نکالتے تھے۔

معاشی معاملات جیسے بھی رہے ہوں انہوں نے کتاب کے لیے ہمشہ فراخدلی کا مظاہرہ کیا۔ ان کا ذاتی کتب خانہ کافی بڑا تھا اور اپنے ذوق کی تسکین کے لیے نایاب کتب تلاش کر کے جمع کرتے رہتے تھے۔ ادب، تاریخ اور اسلام ان کے خاص موضوعات تھے۔ مجھے کئی مرتبہ ان کی میزبانی سے لطف اندوز ہونے اور ان کے کتب خانے سے مستفید ہونے کا موقع ملا۔

1990ء کے قریب انہوں نے گجرات سے ادبی رسالہ ”زجاج“ شروع کیا جو کئی سال تک نکلتا رہا۔ شعر کے میدان میں جناب تبسم رضوانی ان کے استاد تھے۔ 1992ء میں 144 صفحات پر مشتمل منیرالحق کعبی بہل پوری کا پہلا شعری مجموعہ” رگ خواب“ زجاج پبلی کیشنز، گجرات کے زیر اہتمام شائع ہوا، جس میں 57 اردو غزلیں شامل تھیں۔ اس مجموعہ کلام کا تعارف ممتاز نقاد شریف کنجاہی اور انگریزی ادب کے نامور استاد پروفیسر حامد حسن سید کا لکھا ہوا تھا۔ اس کتاب کی بڑی پروقار تقریب رونمائی ہوئی تھی جس میں میں نے بھی ”عکس رگ خواب“ کے عنوان سے مضمون پڑھا تھا۔ تقریب رونمائی کی بڑی تفصیلی رپورٹ ماہنامہ ”ناوک“ میں شائع ہوئی تھی۔

1995ء میں ان کی اردو نثر کی تصنیف ”سلام رضا : تضمین و تفہیم اور تجزیہ ( ایک تحقیقی، تنقیدی، لسانی اور عروضی جائزہ ) جو 200 صفحات پر مشتمل تھی زجاج پبلی کیشنز کی خوبصورت پیش کش کے طور پر منظر عام پر آئی۔

کعبی صاحب کا دوسرا مجموعہ کلام“ قرب گریزاں ”جو 192 صفحات پر مشتمل تھا دسمبر 1999ء میں زجاج پبلی کیشنز نے ہی شائع کیا۔ اس مجموعے کے شروع کے 61 صفحات مختلف آراء پر ہی مبنی ہیں جن میں میری رائے کا حامل مضمون بھی شامل ہے۔ کعبی صاحب کی ذات میں مذہبی رجحان بہت نمایاں تھا جس کا اظہار وہ برملا کرتے تھے۔ چنانچہ زجاج پبلشر کے زیر اہتمام کعبی بہل پوری کی چوتھی کتاب“ معارف قصیدۂ غوثیہ (تحقیق و اردو ترجمہ ) جو 208 صفحات پر مشتمل ہے یہ مارچ 2002ء میں شائع ہوئی۔ حمد و نعت ان کے شعری ذوق کا روشن پہلو ہے۔ وہ اسلام سے قلبی محبت رکھنے والے پختہ فکر انسان تھے۔ حمد و ثنا اور مناجات ان کی فکر کی روح تھی۔

ان کی پانچویں کتاب ”حریم حمد“ جو حمد و ثناء کا شعری مجموعہ ہے ، زجاج پبلی کیشنز گجرات ہی کی وساطت سے جنوری 2004ء میں چھپ کر منظر عام پر آیا۔ علامہ ابو عمار زاہدالراشدی، پروفیسر محمد اقبال جاوید، پروفیسر غلام رسول عدیم، پروفیسر میاں انعام الرحمان کے تعارفی و توصیفی مضامین و آراء بھی ابتدائی صفحات میں شامل ہیں۔ انہی سالوں میں وہ گورنمنٹ زمیندار پوسٹ گریجویٹ کالج بھمبر روڈ گجرات کے شعبۂ اردو کے سربراہ ہو گئے اس دوران انہوں نے شعبۂ اردو میں کئی نئی اصلاحات اور روایات متعارف کروائیں اور شعبے کے وقار کو بلند کیا۔

2006ء میں وہ بڑے احترام و وقار کے ساتھ اپنی ملازمت سے ریٹائر ہو گئے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی تدریس سے الگ نہ ہو سکے اور مختلف کالجوں میں پڑھانے لگے۔ ڈاکٹر شاہین مفتی کے بطور پرنسپل مرغزار کالج گجرات آنے کے بعد انہوں نے اس کالج میں برسوں اردو کی کلاسیں پڑھائیں اور اس کالج کی ہم نصابی سرگرمیوں، شعر و ادب کی محفلوں کو سجانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ خدمات کے اس باب میں ان کا ایک اور کام کتابی روپ میں 2011ء میں زجاج پبلی کیشنز نے ہی ” مکالمات شاہین“ کے نام سے پیش کیا۔ یہ کتاب 190 صفحات پر مشتمل ہے اور اس میں ڈاکٹر شاہین مفتی کے 13 انٹرویوز کو جمع کر کے مرتب کیا گیا ہے۔

سخن وروں کی بستی گجرات کے وہ ایک اہم سخن شناس تھے۔ علم و تحقیق اور شعر و نثر ان کا کل سرمایہ حیات تھا۔ انہوں نے زندگی بھر ادب و تنقید کو ہی اپنی محبت اور محنت کا محور بنایا۔ وہ بڑے ظرف کے حامل خود دار شخص تھے۔ بلند قہقہہ ان کی شناخت تھا لیکن سب جانتے ہیں کہ قہقہے ہمیشہ تلخیوں کو چھپائے ہوتے ہیں۔ مزاح کے شاعر انور مسعود کا یہ کہنا کتنا سچا ہے کہ قہقہہ نچوڑا جائے تو آنسو نکل آتا ہے۔ بظاہر ہشاش بشاش، خوش پوش اور خوش گفتار منیرالحق کعبیؔ بڑے ہنس مکھ انسان تھے لیکن زمانے کی تلخیوں اور مادی حقائق نے اس شگفتہ مزاج شخص کو بہت کمزور بنا کر گہنا دیا تھا۔

وہ بہت عرصے سے ذیابیطس کا شکار تھے اور آہستہ آہستہ اس کی بہت سنجیدہ پچیدگیوں کی جکڑ میں آ گئے تھے۔ 2016ء سے وہ شدید بیمار رہنے لگے۔ انہی دنوں انہوں نے اپنی فیس بک پر آخری مراسلہ کے عنوان سے پوسٹ لگائی تھی جب انہیں شوگر کے باعث بینائی سے محروم ہونا پڑا۔ وہ لکھتے ہیں:

” آخری مراسلہ۔ ۔ نظر جواب دے گئی
ذہن صحرا، آنکھ ویراں، پاؤں پتھر ہو گئے
ہائے اعضائے رئیسہ، سارے بنجر ہو گئے
(کعبیؔ) ”

میں خود ڈیڑھ عشرے سے شوگر کے مرض کا شکار ہوں، اس لیے ان کی اس پوسٹ نے بہت اذیت دی تھی ، پھر میں نے ان دنوں ان سے ایک ملاقات بھی کی، ان کی حالت میرے لیے ناقابل برداشت تھی۔ بعد ازاں ادھر ادھر سے ان کے بارے میں معلوم ہوتا رہتا، بہار جیسا شخص، خزاں بن کر جی رہا تھا اور ہم جیسے دوست ان کے لیے کچھ نہ کر پا رہے تھے۔ یہ قلق ہے اور رہے گا، میں نے اہنی بساط کے مطابق کوشش بھی کی لیکن اس دنیا میں کون کسی کی سنتا ہے۔

ایک دو بار ان سے ملنے کی کوشش کی تو معلوم ہوا، انہوں نے رہائش تبدیل کر لی ہے۔ کچھ عرصہ بعد کلیم احسان بٹ صاحب نے بتایا، کہ ان کا پتہ معلوم ہو گیا ہے، وہ کعبی صاحب سے مل کر آئے ہیں وہ مجھ سمیت دوستوں بارے شکوہ کر رہے تھے۔ میں نے بات سنی ان سنی کر دی، گھر آیا تو کعبی صاحب کی تصویر آنکھوں کے سامنے سے ہٹ نہیں رہی تھی۔ دل بہت رنجیدہ اور بے بس ہوا، پھر سال بھر سے میں بذات خود صحت کے مسائل سے دوچار ہسپتال ہسپتال گھومنے لگا۔

آج 23 مارچ کو شام کو معلوم ہوا کہ پاکستانیت کا پیکر پروفیسر منیرالحق کعبیؔ بہل پوری، قرارداد پاکستان کی منظوری کے دن داعیٔ اجل کو لبیک کہہ گیا ہے۔ دوپہر دو بجے ان کی نماز جنازہ چاہ بیری والا قبرستان میں ادا کی گئی اور وہیں انہیں سپرد خاک کر دیا گیا۔

غم ہستی کا اسدؔ کس سے ہو جز مرگ علاج
شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تک

میں نے مطالعہ پاکستان کی کئی کلاسز ان سے پڑھی تھیں، میں سوچ رہا ہوں ساری عمر اسلامی فلاحی ریاست کا تصور نوجوانوں کے ذہنوں میں سمونے والا، کئی سال اس ریاست کی بے حالی و بدانتظامی کا نوحہ بن کر بے یار و مددگار جینے والا پروفیسر منیرالحق کعبی ہمیں مطالعہ پاکستان کے بہت سے ان کہے کڑوے پہلو سمجھا کر گیا ہے۔

اللہ کریم سے دعا ہے کہ وہ پروفیسر منیرالحق کعبی بہل پوری کی مغفرت فرما کر انہیں درجات کی بلندی عطا فرمائے اور اپنے فضل سے سچے عاشق رسولﷺ کو شفاعت نبی رحمت ﷺ سے نوازے۔ آمین، ثم آمین

موت کیا آ کے تجھے فقیروں سے لینا ہے
مرنے سے آگے ہی یہ لوگ تو مر جاتے ہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments