وقت آج بھی کسی دُلے بھٹی کا منتظر ہے



آج کل مصروفیات کچھ اس طرح ہیں کہ شب و روز لائبریری میں کتابیں تلاش کرنے اور پھر مطالعہ کرنے میں گزر رہے ہیں۔

کتابوں کے خزانے میں سے کون سی کتاب پہلے پڑھی جائے اور کون سی کتاب کو آئندہ کے لائحہ عمل میں شامل کیا جائے، یہ فیصلہ کرنا قدرے مشکل ہوتا ہے۔ آج ایک کتاب ہاتھ لگی ہے ، یہ کہانی میں نے تلاش تو بہت کی لیکن شاید ہمارے اس ہیرو کو کسی نے اہمیت نہیں دی ، اس لئے اس کی کہانیاں بھی منظر سے غائب ہیں۔

دُلا بھٹی کی کہانی بہت کم لوگوں کو پتا ہے۔ اور زیادہ تر لوگ تو شاید نام سے بھی واقف نہ ہوں۔ میں ”کہانی“ کا لفظ اس لیے بھی استعمال کر رہا ہوں کیونکہ دلا بھٹی مؤرخین کے نزدیک بھی اہمیت کا حامل نہیں رہا اور اس کی داستان پرانے زمانے کی طرح سینہ بہ سینہ لوگوں تک پہنچتی رہی ہے۔

پنجاب کا ایک خاص کلچر ہے یہاں ، دوڑہے لکھے جاتے ہیں اور سنائے بھی جاتے ہیں۔ افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ دلا بھٹی بھی پنجابی کے شعروں میں دفن ہو کر رہ گیا ہے۔

لکھاری نے بڑی خوبصورتی کے ساتھ پنجابی شاعری کو اردو میں ترجمہ کر کے تاریخ رقم کرنے کی کوشش کی ہے۔ دلا نام سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ یہ عبداللہ نام کی کوئی بگڑی ہوئی شکل ہے۔ لیکن لکھاری کے بقول یہ تأثر غلط ہے کیونکہ یہ ایک علاقائی نام ہے۔ کہا جاتا ہے کہ دلے کے باپ اور دادا  شہنشاہ اکبر ، جس کے ظلم و ستم اس دور میں مشہور تھے اور اس نے اپنا نیا دین بھی پیش کر دیا تھا ، اس کے خلاف اتر آئے اور پھر کامیاب بھی ہوتے چلے گئے۔ ان کامیابیوں سے حوصلہ پا کر انہوں نے اپنی فوج بھی بنا لی تھی لیکن سرکار کے خلاف کب تک لڑ سکتے تھے۔ ایک دن پکڑے گئے اور شاہی دربار میں پیش کیا گیا۔ وہاں دلے کے باپ اور دادا دونوں کو پھانسی لگایا گیا اور ان کی کھالیں اتار کر ان میں بھوسا بھرا گیا یہ سب کچھ ہو رہا تھا اور  دلا اس وقت چھوٹا سا تھا۔

ماں نے انتقامی پس منظر میں تربیت کی اور دلے کو اس طرح کا جنگجو بنا دیا کہ وہ تاریخ میں امر ہو گیا۔ نسل راجپوتوں سے ملتی تھی اس لئے خون میں غیرت، غصہ اور انتقام پہلے سے موجود تھا۔ اور پھر ماں نے یاد بھی کروا دیا کہ دلے اکبر نے تیرے باپ دادا کو نہ صرف پھانسی پر لٹکایا ہے بلکہ کھالیں اتار کر ان میں بھوسا بھی بھرا تھا۔ دلا جو پہلے سے ہی ایک اچھا جنگجو تھا ، سرکار کے قافلے لوٹتا اور اپنے ساندل بار کے علاقے میں تقسیم کر دیا کرتا تھا۔

دلا غریبوں کی مدد کرتا تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ پنجابیوں اور خاص طور پر پنڈی بھٹیاں کا ہیرو بن گیا تھا۔ اعتزاز احسن نے اپنی کتاب ’سندھ ساگر‘ میں میں دلا بھٹی کی بغاوت کو کسانوں کی ایک تحریک کا نام دیا ہے۔ جو لکھاری کے بقول کسی حد صحیح مانی جا سکتی ہے کیونکہ بار کا علاقہ دوسرے علاقوں کی نسبت زیادہ خوشحال ہوتا تھا لیکن ان دنوں فصل اچھی نہیں ہو رہی تھی اور مغل اپنا ٹیکس معمول کے مطابق وصول کر رہے تھے۔

یہ وجہ بھی دلا بھٹی کو تاریخ میں زندہ رکھنے کے لئے کافی تھی، لیکن اکبر کے دوسرے مظالم اور آزادی کی امنگ زیادہ اہم وجوہات تھیں جنہوں  نے ایک خوبصورت نوجوان کو بغاوت پر اکسایا۔ شہنشاہ اکبر کے دربار میں دلے کو ایک باغی چور اور ڈاکو بنا کر پیش کیا جاتا تھا لیکن وہ مقامی لوگوں میں ایک ہیرو کی حیثیت حاصل کر چکا تھا۔

کہتے ہیں کہ دلا کافی سالوں تک شہنشاہ اکبر کے شکنجے میں نہیں آیا اور پھر جب بادشاہ ہارنے لگتے ہیں تو سازشوں کے جال میں پھنسا کر اپنا مخالف گرفتار کر لیتے ہیں۔ ایسا ہی دلے کے ساتھ بھی ہوا، مختلف روایات ہیں لیکن کتاب میں یہی لکھا گیا ہے کہ موجودہ لنڈا بازار لاہور میں دلے بھٹی کو پھانسی دی گئی تھی اور اس کا نام لینے پر بھی پابندی تھی۔

اکبر کے ادوار کی تاریخ میں دلے کا نام نہیں ملتا، کسی نے بھی اسے خاص اہمیت نہیں دی لیکن پنجابی لوک کہانیوں میں وہ آج بھی زندۂ جاوید ہے۔ لاہور کے مشہور صوفی شاہ حسین کا دلے سے بہت یارانہ تھا،  وہ بھی پھانسی کے وقت لنڈا بازار میں موجود تھا۔

ہم پنجابی اپنے ہیروز کو مانتے بھی نہیں اور پہنچاتے بھی نہیں۔ دلے کی قبر میانی صاحب قبرستان میں ہماری لاعلمی کا رونا ہو رہی تھی۔ حکومتی سرپرستی بھی دلے کو حاصل نہیں ورنہ اب تک مزار اور چبوترے بن چکے ہوتے۔ دلا ہمارا اپنا ہماری مٹی کا ہیرو تھا ۔ ہمیں پرائے اور مانگے تانگے کے ہیروز نہیں اپنی مٹی کے ہیروز کی ضرورت ہے۔

وقت آج بھی کسی دلے کا انتظار کر رہا ہے، کیونکہ ہم میں ایسی ہمت نہیں کہ اندھے، بہرے، لنگڑے اور کم ظرف نظام اور معاشرے کے خلاف آواز حق بلند کر سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments