جیلی فش: پاکستان کے ساحلوں پر بڑی تعداد میں جیلی فش کے نمودار ہونے کی وجہ کیا ہے؟


جیلی فش

یہ برف ہے، پانی کا بلبلا، ایک شفاف پتھر یا ساحل پر موجود لفافے؟ یہ منظر دیکھ کر شروع میں نظر کا دھوکہ ضرور ہوتا ہے، لیکن یہ دراصل پاکستان کے مختلف ساحلوں پر اچانک نمودار ہونے والی جیلی فش ہیں جن کے حوالے سے لوگوں کے ذہنوں میں کئی سوالات ہیں۔

چند روز قبل پاکستان کے صوبہ سندھ اور بلوچستان کے ساحلوں پر اچانک بڑی تعداد میں مردہ جیلی فش نظر آنے لگیں۔

ایک فٹ سے لے کر نصف فٹ چوڑی اور کلو سے ڈیڑھ کلو وزنی یہ سمندری حیات سمندری لہروں کے ساتھ تیرتی ہوئی کراچی کے سی ویو سے لے کر بلوچستان کے اوڑماڑہ ساحل تک دیکھی گئیں۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ جیلی فش آخر آئی کہاں سے اور ان کا ساحلوں پر اس طرح نمودار ہونے کا کیا مطلب ہے؟

لیکن اس سے پہلے یہ جان لیتے ہیں کہ جیلی فش آخر ہوتی کیا ہے؟

یہ بھی پڑھیے

کیا ہلسا مچھلی معدوم ہو رہی ہے؟

بنگلہ دیش میں مچھلیاں نایاب ہونے لگیں

’مچھیروں کی مایوسی کی وجہ ان کی توقعات ہیں‘

استولا سمندری حیات کے لیے محفوظ علاقہ

جیلی فش کا شمار ان قدیم جانداروں میں ہوتا ہے جو معدومیت کا شکار نہیں ہوئے۔ نیشنل جیوگرافک کی ایک رپورٹ کے مطابق جیلی فش ڈائنوسارز سے بھی پہلے کرہ ارض پر موجود تھیں۔

جیلی فش فلیم سینیڈیریا فیملی کا حصہ ہے اور اس کا جسم 98 فیصد پانی سے بنا ہوا ہے اور اس میں کوئی بھی ہڈی نہیں ہوتی۔ یہ جاندار دماغ، دل یا آنکھوں سے بھی محروم ہوتی ہے، اس کا منھ اس کے وسط میں ہوتا ہے جبکہ اس کے چھوٹے چھوٹے بازو ہوتے ہیں۔

جیلی فش کی کئی اقسام ہیں جن میں سے بعض زہریلی ہیں اور ان کا ڈنک جان لیوا بھی ثابت ہو سکتا ہے۔

اس کی خوراک چھوٹی مچھلیاں، جھینگے اور سمندری پودے ہوتے ہیں جبکہ وہ خود کچھووں کی پسندیدہ خوراک ہے۔ ماہرین کے مطابق اس کی زندگی ایک سال تک محیط ہوتی ہے۔

پاکستان کے ساحلوں پر جیلی فش کا ڈھیر کیوں لگا؟

جیلی فش

جنگلی حیات کے عالمی ادارے ڈبلیو ڈبلیو ایف کے معاون معظم خان کا کہنا ہے کہ جب سمندر میں جیلی فش کی تعداد بڑھی تو ماہی گیروں نے اس کا فائدہ اٹھانا شروع کیا اور اس کی ہارویسٹنگ کا آغاز ہو گیا۔ انھوں نے بتایا کہ اسے نمک اور پھٹکڑی لگا کر چین برآمد کیا جاتا ہے۔ برآمد ہونے والی جیلی فش کی دو اقسام ہیں ایک کو ‘اصلی’ اور ایک کو ‘جنگلی’ کہا جاتا ہے۔

انھوں نے بتایا کہ ’چین کی مارکیٹ میں کووڈ کی وجہ سے مندی کا رجحان ہے اور کووڈ کے بعد انھوں نے برآمدات پر بھی کچھ پابندیاں لگائی ہیں اس لیے پاکستان سے وہاں جیلی فش جا نہیں رہی یا کم جا رہی ہے اس لیے اس موسم میں ماہی گیروں نے اس کی ہارویسٹنگ نہیں کی اور یہ مردہ حالت میں ساحلوں تک پہنچ گئیں۔

آج کل بھاؤ نہیں ہے

کراچی کے ساحل پر ماہی گیر جال لگا کر بھی مچھلیاں پکڑتے ہیں۔ سی ویو پر بھی ایک درجن کے قریب ماہی گیر ایک طویل جال سمندر میں لے گئے اور وہاں سے کھینچ کر کنارے تک لائے اور اس میں سے جیلی فش نکال نکال کر ساحل پر پھینکتے رہے۔

ایک ماہی گیر آفتاب نے بتایا کہ مارچ سے لے کر مئی، جون تک جیسے جیسے پانی کی سطح بلند ہوتی ہے اور یہ گرم ہوتا ہے یہ جیلی فش ساحل کی طرف آتی ہیں۔

جیلی فش

آفتاب نے بتایا کہ ’عام دنوں میں جال میں مچھلی زیادہ آتی ہے لیکن ان دنوں میں جیلی فش بھی آ جاتی ہے، پہلے یہ جیلی فش چین خرید لیتا تھا ابھی ان کا بھاؤ نہیں اس لیے ہم اس کو پکڑ کر باہر پھنیک دیتے ہیں۔‘

انھوں نے بتایا کہ ’ایک ایسا وقت بھی تھا جب چین والوں کو جیلی فش کی طلب ہوئی تو ماہی گیروں نے مچھلی چھوڑ کر اس کا کاروبار شروع کر دیا اور ساحل پر جال لگا کر مچھلی پکڑنے والوں سے لے کر کشتی والے ماہی گیروں تک بس اس کا شکار کرتے رہے لیکن آج کل اسے کوئی نہیں خریدتا۔‘

انٹرنیٹ پر تلاش کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان اور چین کی کئی کمپنیاں جیلی فش چین برآمد کرتی ہیں۔ ’پاکستان فشر فوک‘ کے رہنما کمال شاہ کا کہنا ہے کہ مارکیٹ میں جیلی فش 20 سے 25 روپے فی کلو فروخت ہوتی تھی لیکن اب اس کی قیمت سات آٹھ روپے بھی نہیں، جس وجہ سے ماہی گیر اس کو نہیں پکڑ رہے۔

پاکستان کی سمندری حدود میں جیلی فش کی تعداد اتنی زیادہ کیوں؟

جیلی فش

جنگلی حیات کے عالمی ادارے ڈبلیو ڈبلیو ایف کے معاون معظم خان کے مطابق پاکستان میں جیلی فش کی پچاس سے زائد اقسام پائی جاتی ہیں جو سندھ کی کریکس سے لے کر بلوچستان کی کلمت تک پھیلی ہوئی ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ جس طرح پہاڑوں پر پھول کھلتے ہیں اس طرح سمندر میں جیلی فش کا بلوم آتا ہے جس کی وجہ سے یہ بڑی تعداد میں ملتی ہیں۔ 15 سال پہلے تک یہ اس تعداد میں نہیں ملتی تھیں اور اس کی ایک بڑی وجہ موسمیاتی تغیر ہے۔

ان کے مطابق اس کے علاوہ بڑے پیمانے پر مچھلی کا شکار اور وہ سمندری حیات جو جیلی فش کو خوراک کے طور پر استعمال کرتی ہیں ان کی تعداد میں کمی بھی جیلی فش کی تعداد میں اضافے کے ایک وجہ سمجھی جاتی ہے۔

کراچی یونیورسٹی کے شعبے میرین سائنس کی سربراہ ڈاکٹر راشدہ قادری کا کہنا ہے کہ جیلی فش میں اضافے کی متعدد وجوہات ہیں، جن میں Eutrophication یعنی پانی میں معدنیات اور نشوونما کے اجزا شامل ہو جانا، سیوریج سمندر میں جانے سے سمندری نباتات بڑھنا، اس کے علاوہ انسانی سرگرمیاں اور سمندری درجہ حرارت میں اضافہ شامل ہیں۔

’اگر ان کو کنٹرول کیا جائے تو جیلی فش کی تعداد معمول پر آ سکتی ہے۔‘

جیلی فش کے پکوان

جیلی فش

چین کے علاوہ جاپان اور کوریا میں بھی جیلی فش کو کھانوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ فلوریڈا یونیورسٹی کی ریسرچر ین ہوا شے کی ریسرچ کے مطابق چین میں یہ ایک روایتی طعام ہے، شادی کی تقریب یا کوئی بڑی تقریب اس وقت تک ادھوری سمجھی جاتی ہے جب تک اس میں جیلی فش کا سلاد شامل نہ ہو۔

اس خشک جیلی کو پانی میں کئی گھنٹے رکھ کر اس کا نمک نکال دیا جاتا ہے پھر اس کو مختلف فلیورز اور ساسز کے ساتھ استعمال کیا جاتا ہے۔

نیشنل جیو گرافک کی ایک رپورٹ کے مطابق جیلی فش کو بعض روایتی چینی ادویات میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔

اس تحقیق کے مطابق جیلی فش قدرتی ڈائٹ فوڈ ہے جس میں پانی اور پروٹین وافر مقدار میں موجود ہیں۔ اس کے بڑے پیمانے پر استعمال کی وجہ سے چین اور تھائی لینڈ میں جیلی فش کے شکار پر پابندی بھی لگائی گئی تاکہ اس کو بچایا جا سکے۔ تاہم امریکہ، انڈیا سمیت کئی ممالک اب جیلی فش کو برآمد کر رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32469 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp