سیز فائر کا اعلان اور خدشات


ہمارے وزیراعظم عمران خان صاحب نے بھارتی انتخابات کے موقع پر نریندر مودی کی جیت کی دعا کرتے ہوئے اس توقع کا اظہار کیا تھا کہ ان کی جیت سے پاکستان اور انڈیا کے تعلقات بہتر ہو جائیں گے۔ نریندر مودی نے مگر حکومت بنانے کے فوراً بعد راجیہ سبھا میں تین بل منظور کروا کر کشمیر کی حیثیت تبدیل کر دی۔ صدارتی حکم کے تحت پیش کیے گئے پہلے بل کے ذریعے بھارتی آئین کے آرٹیکل تین سو ستر کو منسوخ کر کے کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ کر لیا۔

دوسرے صدارتی حکم کے تحت بھارتی آئین کے آرٹیکل پینتیس اے کا خاتمہ عمل میں لایا گیا جس کے بعد کوئی بھی انڈین شخص کشمیر میں جائیداد خرید سکتا ہے۔ یہ پابندی مہاراجہ ہری سنگھ نے انیس سو چوبیس میں عائد کی تھی تاکہ کشمیر کے باہر کے لوگ وادی کے باسیوں کے روزگار پر ڈاکہ نہ ڈال سکیں۔ تیسرے صدارتی حکم کے تحت کشمیر کی نئی حد بندی کی گئی ہے اور لداخ کو کشمیر سے الگ کر کے بھارت کے ساتھ جوڑا گیا ہے۔

یہاں آرٹیکل 35 اے کی مزید وضاحت ضروری ہے تاکہ یہ سمجھنے میں مشکل نہ رہے کہ اس کی غیر موجودگی کشمیریوں کے حق خود ارادیت کے لیے کس قدر مضر ہو سکتی ہے۔

آرٹیکل 35 اے مقبوضہ کشمیر کے باشندوں کو خصوصی حقوق فراہم کرتا تھا۔ بھارت کے آئین کے آرٹیکل 35 اے کے تحت جموں و کشمیر کی اسمبلی کو یہ اختیار حاصل تھا کہ وہ خود اپنے مستقل شہری کی تعریف طے کرے۔ 1954ء میں بھارتی صدر کے ایک حکم کے بعد آرٹیکل 35 اے کو آئین میں شامل کیا گیا تھا۔ صاف لفظوں میں کہا جائے تو بھارتی آئین کا آرٹیکل 35 A ریاست جموں و کشمیر کے مستقل باشندوں کے حقوق کا تعین کرتا تھا اور غیر ریاستی باشندوں پر غیر منقولہ جائیداد کی خرید پر پابندی عائد کرتا تھا۔

یہ آرٹیکل درحقیقت مہاراجہ ہری سنگھ کے قانون باشندہ ریاست سے اخذ کیا گیا تھا اور ریاستی باشندوں کو حقوق و مراعات دیتا تھا اور غیر ریاستی باشندوں پر پابندیاں عائد کرتا تھا جنہیں مہاراجہ ہری سنگھ کے قوانین باشندہ ریاست کے ذریعے نافذ کیا گیا تھا۔ یہ آرٹیکل 14 مئی 1954 کو بھارتی آئین میں ایک صدارتی حکم کے ذریعے شامل کیا گیا تھا۔

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ مہاراجہ ہری سنگھ نے جب 26 اکتوبر 1947 کو بھارت کے ساتھ عارضی الحاق کیا تو دفاع، خارجہ اور مواصلات کے شعبے بھارت کے سپرد کیے تھے۔ اس عارضی الحاق کے معاہدے کے تحت باقی تمام معاملات میں ریاست آزاد و خود مختار تھی۔

بھارتی آئین کی دفعہ 370 اور 1954 کا ملحقہ آئینی آرڈر دراصل ریاست جموں و کشمیر اور بھارتی وفاق کے باہمی تعلقات کا تعین کرتا تھا۔ شیخ عبداللہ کی حکومت اور جواہر لال نہرو کی حکومت کے درمیان 1952 میں طے پانے والے معاہدے کے مزید اختیارات بھارت کے سپرد کیے گئے۔ 1952 کے اس معاہدے میں طے کی جانے والی باتوں کو ایک صدارتی حکم کے ذریعے 14 مئی 1954 کو نافذ کیا گیا۔ اس آئینی حکم نامے کے ذریعے بھارت اور ریاست جموں و کشمیر کے سیاسی اور آئینی تعلقات کا تعین کیا گیا اور آرٹیکل 35 A اسی حکم نامے کا ایک حصہ تھا۔

اس غاصبانہ اقدام کے خلاف احتجاج کے جرم میں بھارتی فورسز نے پانچ اگست دو ہزار انیس سے لے کر اب تک حریت رہنماؤں سمیت ہزاروں افراد کو گرفتار کر کے عقوبت خانوں میں رکھا ہوا ہے۔ ڈیڑھ سال سے زائد عرصہ سے مقبوضہ کشمیر کے عوام گھروں میں محصور ہیں انہیں نماز جمعہ اور نماز جنازہ کی ادائیگی تک کی اجازت نہیں مل رہی۔ بنیادی انسانی حقوق مانگنے والوں کو شیلنگ، تشدد اور پیلٹ گنوں کے ذریعے مسلسل معذور کیا جا رہا ہے۔ محاصرے کے باعث خوراک اور ادویات کی قلت ہے اور لوگ سنگین بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں۔ لوگوں کو روزگار میسر ہے اور نہ کاروباری و زرعی سرگرمیوں کے مواقع دستیاب ہیں۔ فون، انٹرنیٹ، میڈیا اور مواصلات کے تمام ذرائع پر قدغنیں ہیں۔

بھارتی جارحیت سے صرف مقبوضہ کشمیر کے عوام کی زندگیاں ہی اجیرن نہیں ہوئیں بلکہ کنٹرول لائن کے اس پار آزاد کشمیر کے شہری بھی اس غاصبانہ اقدام کے بعد بڑھنے والی سیز فائر کی خلاف ورزیوں سے بری طرح متاثر ہوئے۔

گزشتہ دنوں مگر اچانک پاکستان اور انڈیا کے ڈی جی ایم اوز نے 2003ء کے سیز فائر معاہدے کے احترام کا اعلان کر دیا۔ امریکی ادارے بلوم برگ کے مطابق یہ معاہدہ متحدہ عرب امارات کے ایما پر کئی ماہ سے جاری خفیہ سفارتکاری کا نتیجہ ہے۔

بلوم برگ کی اس رپورٹ کے مطابق اگلا قدم یہ ہو گا کہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے ہاں اپنے اپنے سفیر واپس تعینات کریں گے۔ واضح رہے کہ جب بھارت نے اگست 2019 میں کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کی تھی تب پاکستان نے دہلی سے اپنا سفیر واپس بلا لیا تھا۔ اس کے جواب میں بھارت نے بھی ایسا ہی کیا تھا۔ اطلاعات کے مطابق سفیروں کی تعیناتی کے بعد دونوں ممالک تجارت کی بحالی اور کشمیر کے تنازعہ کو حل کرنے کے لیے مذاکرات شروع کریں گے۔

دونوں ممالک کے ڈی جی ایم اوز کی طرف سے سیز فائر معاہدے کی پاسداری کے عزم کے اظہار کے فوراً بعد پاکستانی چیف جنرل قمر باجوہ نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ماضی کو دفن کر کے آگے بڑھنے کی بات اور ساتھ یہ بھی کہا کہ جب تک ہم اپنا گھر ٹھیک نہیں کریں گے ، بہتری نہیں آئے گی۔ امن کی خواہش ہر شخص کے دل کی آواز ہے اور ہر کوئی چاہتا ہے کہ تہتر سال سے جاری محاذ آرائی کی بدولت جو وسائل دفاع پر خرچ ہوتے ہیں وہ خط غربت سے بھی نیچے زندگی بسر کرتے دونوں ممالک کے اسی کروڑ سے زائد عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ ہوں۔

لیکن عمران خان کی طرف سے مودی کی جیت کی دعا ٹرمپ کی ثالثی کی پیشکش پانچ اگست کی بھارتی غاصبانہ حرکت یو اے ای کی کوششوں سے ہونے والے سیز فائر معاہدے آرمی چیف کے گھر کو ٹھیک کرنے کی بات اور وزیراعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر کے بیان کہ ”وہ آزاد کشمیر کے آخری وزیراعظم ہیں“ کو ملا کر سوچتا ہوں تو ذہن میں بہت وسوسے اور خدشات ابھرتے ہیں جنہیں بیان کرنے کی ہمت کی تو اس ہفتے بھی کالم شائع نہیں ہو پائے گا۔

لہٰذا اس دعا کے ساتھ کالم کا اختتام کرتے ہیں کہ رب کریم ہمارے خطے کو حقیقی و دائمی امن نصیب فرمائے اور کشمیر کا کوئی ایسا حل نکل آئے جو کشمیریوں کی امنگوں کے مطابق ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments