لکھن ہاری الطاف فاطمہ شفق کی مسافرت میں ۔۔۔۔ اب سورج دستک دے


ممتاز فکشن نگار اور مترجم الطاف فاطمہ صاحبہ سے گزشتہ دنوں ملاقات ہوئی۔ ان کی صحت اچھی نہیں ہے۔ پہلے سے مضمحل قویٰ اور بھی مضمحل لگے۔ ہڈیوں کا ڈھانچہ۔ انھیں دیکھ کر پتا چلتا ہے کہ بڑھاپے کی تباہ کاریاں کیا ہوتی ہیں۔ مجرد ہونے پر اس عمر میں اور بھی زیادہ کشٹ کاٹنا پڑتا ہے۔ رگ وپے میں خودداری کوٹ کوٹ کر بھری ہے اس لیے گمان ہے کہ وہ عزیز از جان بھانجے بھتیجوں کے یہاں جانے کو بھی رضا مند نہ ہوتی ہوں گی۔

میں جس دن ملنے گیا پنشن کے لیے بینک کا پھیرا لگا کرآئی تھیں جہاں انھیں تین گھنٹے خوار ہونا پڑا۔ جانا بھی ضروری ٹھہرا کہ پنشنرز کو تین ماہ بعد بنفس نفیس پیش ہوکر بتانا پڑتا ہے کہ ”ہاں! میں زندہ ہوں۔“ الطاف فاطمہ کو مال روڈ دیکھ کر سخت وحشت ہوئی۔ اس پرتعجب نہ ہوا کہ اب تو اس سڑک سے گزرتے، ان کا بھی دم گھٹتا ہے جنھوں نے مال روڈ کا عروج نہیں دیکھا، الطاف فاطمہ نے تو اس کا وہ رنگ روپ دیکھ رکھا ہے جس کی کوئی مثال نہ تھی۔

تقسیم سے پہلے مال روڈ کیسی تھی؟ اس کے لیے پران نول کی کتاب Lahore A sentimental Journey اور تقسیم کے بعد کا مال روڈ محسوس کرنے کے واسطے انتظار حسین کی ”چراغوں کا دھواں“ ضرور پڑھنی چاہیے۔ الطاف فاطمہ نے اب جو بینک جانے کے لیے گھر سے بہ امرمجبوری قدم نکالا اورانھیں پیلے پھول بہت نظرآئے توان کوغصہ آیا۔ ہم سے کہنے لگیں ’شریف برادران کو کیا کسی جوتشی نے بتایا ہے کہ ان کے اقتدار کو رنگا رنگ کے پھول نہیں، پیلے پھول ہی راس ہیں۔‘ ان کا یہ دکھڑا سن کرہمیں ڈاکٹرمہدی حسن یاد آئے جو اس شہرمیں پیپل کے بجائے کجھور کے درختوں کی بھرمار پر دل گرفتہ ہیں۔

الطاف فاطمہ نے خوشی خوشی بتایا کہ ان کی بھانجی ”چلتا مسافر“ کا ترجمہ کر رہی ہیں۔ اپنے تخلیقی کاموں میں یہ ناول انھیں سب سے عزیز ہے۔

تنک سی ڈبیا ڈب ڈب کرے
چلتا مسافر گر گر پڑے

ان کے ناول ”دستک نہ دو“ کا ترجمہ رخسانہ احمد کے قلم سے پہلے ہی ہوچکا ہے۔ ادھر ہندوستان سے ان کے ماموں اور اردو کے منفرد افسانہ نگار رفیق حسین کے افسانے تین برس قبل انگریزی میں شائع ہوئے تھے۔ ہم نے انھیں بتایا کہ نیر مسعود کے افسانے محمد عمرمیمن نے ترجمہ کرکے انگریزی میں شائع کرادیے ہیں تو یہ جان کر خوش ہوئیں۔

تقسیم سے پہلے لکھنؤ میں نیر مسعود اور ان کے گھر کی دیوار سے دیوار ہی نہیں مکینوں کے دل بھی آپس میں ملے تھے۔ وہ اس خانوادے سے آج بھی ویسی ہی یگانگت محسوس کرتی ہیں جیسی تقسیم سے پہلے ان کے دل میں تھی۔ نیر مسعود ان کے سگے بھائیوں جیسے ہیں اور یہ ان کے لیے آج بھی شمو باجی ہیں۔ چند سال پہلے نیر مسعود کی میکسیکن بہو ازابیلا کا تحقیق کے لیے لاہور آنا ہوا تو الطاف فاطمہ سے ملنے کی ان کے سسر نے خاص طور سے تاکید کی تھی۔

ایک بار ہم بھی ان کے ہم راہ اردو کی اس مایہ ناز ادیبہ سے ملنے گئے تو ازابیلا سے مل کر ان کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا۔ نیر مسعود کی بہو کا جس اپنے پن سے انھوں نے سواگت کیا وہ ناقابل فراموش ہے۔ میکسیکو کی ازابیلا، لکھنؤ کے نامور علمی گھرانے کی بہوکیسے بنیں، یہ کہانی ممتاز براڈ کاسٹراور ادیب رضا علی عابدی سے سن لیں۔

”اس کی پہلی زبان ہسپانوی اور انگریزی اور دوسری زبان اردو اور ہندی ہے۔ ازابیلا کئی برس سے تحقیق میں مصروف ہے۔ امریکا میں اردو سیکھنے کے بعد وہ لکھنؤ پہنچی جہاں وہ مسعود حسن رضوی ادیب مرحوم کے گھرانے میں گئی۔ ادیب مرحوم کے بیٹے نیر مسعود رضوی بھی علم وکمال کے اونچے درجے پر فائز ہیں اور ان سے ملاقاتکیے بغیر تحقیق کے بہت سے گوشے تاریکی میں رہ جاتے ہیں۔

ایک اتفاق یہ بھی ہے کہ وہ میرے ننھیال کی طرف سے میرے عزیز بھی ہیں۔ ازابیلا ملنے گئی تو نیر مسعود کے ساتھ ہی اسے ایک بونس بھی ملا۔ اس کی ملاقات ان کے بیٹے تمثال مسعود سے ہوئی اور پھر وہی ہوا جو تمام خوش گوارکہانیوں میں ہوتا ہے۔ میکسیو کی بیٹی لکھنؤ کی بہو بن گئی۔ اب تو اس کی بول چال اور اس کا اٹھنا بیٹھنا لکھنؤ والوں جیسا ہوچلا ہے۔ ”

الطاف فاطمہ نے ایک دفعہ مجھے بتایا تھا کہ کئی برس پہلے ہندوستان سے ایک ادیب آئے تو ان کے ہاتھ نیرمسعودکو اپنی کتاب بجھوانے کے لیے ٹی ہاؤس گئیں وہاں ایک شاعر نے ان سے پوچھا وہ کس کا انتظار کر رہی ہیں؟ انھوں نے مدعا بیان کیا تو موصوف کہنے لگے :آپ کا نیر مسعود سے کیا رشتہ؟ ”نیر میرا بھائی ہے“ الطاف فاطمہ نے جواب دیا۔ اس پر وہ صاحب بولے کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ وہ تو شیعہ ہیں۔ اس چھوٹی سوچ کے حامل شخص کو معلوم نہ تھا کہ انسانی تعلقات کی ایک سطح وہ بھی ہوتی ہے جہاں عقیدوں پر باہمی محبت مقدم ہوجاتی ہے۔

یوں بھی دلوں کے بیچ یہ نفرت ہمیشہ سے تو نہ تھی۔ ممتاز ادیب انتظارحسین پچاس برس سے زائد عرصہ کے بعد اپنی بستی ڈبائی گئے تووہاں ان کی ملاقات ایسی بزرگ خاتون سے ہوئی، جس نے ان کے والد کی آنکھیں دیکھ رکھی تھیں، محترمہ نے دوران گفتگو کہا: ”ارے کمبختوں نے اب یہ سنی شیعہ کا فضیحتا کھڑا کر دیا ہے۔ پہلے ایسا کب تھا۔ ہمارے خاندان اکٹھے تھے۔ کوئی سنی کوئی شیعہ، کوئی تفریق نہیں تھی۔“

الطاف فاطمہ کا نیر مسعود سے اس زمانے کا ناتا ہے جب بقول، احمد مشتاق اک زمانہ تھا کہ سب ایک جگہ رہتے تھے اور اب کوئی کہیں کوئی کہیں رہتا ہے۔ ہاں، ایک زمانہ وہ بھی تھا اور یہ دوچاربرس نہیں نصف صدی سے بھی پہلے کی بات ہے جب انتظار حسین حلقہ ارباب ذوق کے سیکرٹری تھے اور الطاف فاطمہ اور احمد مشتاق، حلقہ کی ایگزیکٹوکمیٹی کے رکن۔ اب الطاف فاطمہ تو لاہورمیں زیست کر رہی ہیں اور احمد مشتاق 35 برس سے امریکا میں مقیم اور کہتے ہیں :

اب جہاں کوئی نہیں رہتا وہاں رہتا ہوں میں

الطاف فاطمہ نے بڑے دکھ سے بتایا کہ نیر مسعود کی بڑی بہن برجیس کا کراچی میں انتقال ہوگیا۔ مجھے یہ اطلاع گذشتہ برس آصف فرخی نے دی اوربتایا تھا کہ برجیس باجی کا نواسہ شارق، حبیب یونیورسٹی میں ان کا شاگرد ہے، اسی سے یہ خبر انھیں ملی۔

لکھنؤ چھوڑے ستر برس ہو چلے لیکن وہ اب بھی دل میں بستا ہے۔ اس شہر کے ادلتے بدلتے مزاج اور مٹتی تہذیب کے باب میں انیس اشفاق کے ”دکھیارے“ کی مجھ سے پہلے تعریف کرچکی تھیں، اپنی رائے کا اعادہ کیا اور کہنے لگیں ناول دوبارہ پڑھنا چاہتی ہوں لیکن وہ کہیں ادھر ادھر ہوگیا ہے۔ مجھ سے کہا کہ ممکن ہوتو مجھے ”دکھیارے“ لادینا۔ میں نے ہامی بھرلی۔ ایک ملاقات میں ان نے بتایا تھا کہ وہ نیر مسعود کے افسانے کئی بار پڑھ چکی ہیں۔

الطاف فاطمہ نے ”چلتا مسافر“ اور ”خواب گھر“ کی اشاعت تازہ کی نوید دی اوراس کا کریڈٹ نوجوان مترجم، ہما انور کودیا۔ ان کے بقول، ’وہ لڑکی مجھ پر بہت مہربان ہے۔‘ دونوں مذکورہ ناول جمہوری پبلی کیشنز نے شائعکیے ہیں۔ مجھ سے کہا کہ آصف فرخی سے پوچھو کہ وہ میری لاطینی امریکا کے افسانوں کے ترجموں والی کتاب کب چھاپے گا؟ میں نے یقین دلایا کہ میں اس بارے میں ان سے ضرورمعلوم کروں گا۔ بائیں کان کی قوت سماعت جاتے رہنے کا ذکر کیا اورکہا کہ اب دوسروں کی سننے کا انحصارداہنے کان پر ہے۔ بینائی کا حال پہلے سے پتلا نظرآیا۔ جس تخت پر بیٹھی تھیں اس کے نیچے سے پاندان کھسکا کر اس میں سے چھالیہ نکالی اوراسے سروطے سے پیس کر منہ میں رکھا۔

ممتاز ادیب محمد سلیم الرحمٰن کی قدردان ہیں۔ ان کی خیریت دریافت کی۔ محمد سلیم الرحمٰن نے اردو کے گیارہ منتخب افسانوں کو انگریزی میں منتقل کیا تو اس انتخاب میں نہ صرف یہ کہ الطاف فاطمہ کا افسانہ ”ننگی مرغیاں“ شامل کیا بلکہ کتاب کا عنوان ہی Naked Hens قرار پایا۔ یہ کتاب جب میں انھیں دینے گیا تو مسرت کا اظہار کیا اور بذریعہ خط مترجم کا شکریہ ادا کیا۔ ایلسا مارسٹن کی کہانیاں کے ”زیتون کے جھنڈ“ کے عنوان سے ہونے والے ترجموں پر محمد سلیم الرحمٰن کا تبصرہ پسند آیا تو بھی خط کے ذریعے تاثرات ان تک پہنچائے۔ الطاف فاطمہ اور محمد سلیم الرحمٰن میں یہ قدرمشترک بھی ہے کہ دونوں ہی سرکاری اور غیرسرکاری ایوارڈ ٹھکرا چکے ہیں۔

الطاف فاطمہ، لکھنؤ کی مٹی ہیں۔ زندگی میں ان جیسی مہذب اور شائستہ ہستیاں بہت کم ملیں۔ جب ان کی صحت اچھی تھی تو سردیوں میں جب جب جانا ہوا وہ اپنے ہاتھ سے چائے بناکردیتیں، گرمیوں میں ٹھنڈے سے تواضع کرتیں۔ میں نے ایک دفعہ کہا کہ رہنے دیں، آپ کوچائے بنانے میں زحمت ہوگی تو بتایا کہ ہماری تہذیب میں مہمان کی بہت قدر ہے اور لکھنؤ میں پالکی میں سوار ہوکر مہمان آتا تو پالکی والے کو معاوضے کی ادائیگی میزبان کرتا۔

میں رخصت ہونے لگا تو مجھ سے کہاکہ اب تم مہینوں بعد صورت دکھاتے ہو، آتے رہا کرو۔ میں نے عرض کی کہ شادی کے بعد مصروفیات بڑھ گئی ہیں لیکن اب انشا اللہ کوشش ہوگی کہ آنے میں لمبا وقفہ نہ ہو اور جلد ہی ”دکھیارے“ لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوں گا۔

اس نیک دل خاتون نے ساری زندگی ادب کو دی لیکن ہمارے معاشرے اورحکومتوں نے اس سے اتنی بے اعتنائی برتی کہ رونا آتا ہے۔ وہ اس بے حسی پر کھل کر شکوہ نہیں کرتیں لیکن ان سے ملاقاتوں میں اندازہ ہوا کہ اس بات کا رنج ان کو ہے اور یہ بالکل فطری ہے۔ ارباب بست وکشاد اور ادبی پروہتوں کا الطاف فاطمہ کو نظراندازکرنا افسوس ناک ہے۔ اس ناقدری کی بنیادی وجہ زاہدہ حنا کے بقول، الطاف فاطمہ کا تعلقات عامہ کے پرچے میں بری طرح فیل ہونا ہے۔ یہ بات انھوں نے 18 دسمبرکو اپنے کالم میں لکھی لیکن اس سے برسوں پہلے بھی وہ نہایت جچے تلے لفظوں میں الطاف فاطمہ کا اصل ”قصور“ بیان کرچکی ہیں۔ ان کے بقول:

”یہ گوشہ گیر لکھن ہاری نہ کلکٹر، نہ کمشنر نہ کسی ادبی تحریک میں شریک نہ تحسین باہمی کے کسی دائرے میں شامل، نہ مے سے کام نہ مے پرستوں سے کلام، نہ سر کے گرد رسوائیوں کا ہالہ، نہ شانوں پر سرکاری انعام واکرام کا دوشالہ، ایک ایسی جوگن بیراگن کی طرف ادب کے بادشاہ گر نظر بھر کربھی کیوں دیکھتے۔ سو الطاف فاطمہ اپنی لکھت کی گٹھری کاندھے پر دھرے، ناقدری کا، کالا پانی کاٹ رہی ہیں۔ اردو ناول و افسانے کے پارکھ ان سے سرسری گزرے تو یہ الطاف فاطمہ کا گھاٹا نہیں، اردو ادب کا زیاں ہے۔“
Dec 30, 2016


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments