جب ہم نے برسلز کا تحیر انگیز ایٹومیم دیکھا


زمانہ طالب علمی میں ہمارے گھر کے ڈرائنگ روم میں ایک ڈیکوریشن پیس ہوا کرتا تھا جو مجھے بہت پسند تھا۔ یہ ایک ایٹم کی شبیہہ کا ماڈل تھا۔ اس کی شکل کچھ ایسی تھی کہ نو گولے ایک دوسرے سے ایک جیسے فاصلے پر آپس میں ڈنڈیوں کے ساتھ جڑے ہوئے ایک جمگھٹا بنائے ہوئے ہیں۔ یا یوں سمجھیے کہ ایک مکعب ہے جس کے آٹھوں کونوں میں ایک ایک گولہ اور مکعب کے درمیان میں ایک گولہ۔ اب اس مکعب کو ایک کونے پر کھڑا کر دیں اور تصور میں سوائے نو گولوں اور ان کو ملانے والی ڈنڈیوں کے مکعب کا باقی حصہ غائب کر دیں تو یہ ایٹم کے ماڈل کی شبیہہ بن جائے گی۔

اگر آپ کے ذہن میں تصویر نہیں بنی تو کوئی مضائقہ نہیں ، آپ اس کی تصویر دیکھ لیجیے جو میں شیئر کر رہا ہوں۔ یہ سٹیل کا بنا ہوا لوہے کے کرسٹل کا ماڈل تو مجھے ویسے بھی بھاتا تھا مگر جب بھائی جان نے بتایا کہ یہ ایک عمارت کا ماڈل ہے جسے ایٹومیم (atomium) کا نام دیا گیا ہے تو پسندیدگی تجسس میں بدل گئی کہ اس شکل کی عمارت کیسی لگتی ہو گی اور کیسے اس کا توازن برقرار رکھا گیا ہے۔ ایک عرصہ سے اس عمارت کو دیکھنے کی خواہش تھی اور اللہ نے تمنا پوری کر دی۔

ہم اس وقت ایمسٹرڈیم ایئرپورٹ پر برسلز کے لئے پرواز کا انتظار کر رہے تھے جہاں سوائے ایٹومیم دیکھنے کے ہمارے لئے کوئی اور کشش نہ تھی۔

برسلز بیلجیئم کا دارالحکومت ہونے کے علاوہ یورپی یونین کا ہیڈکوارٹر بھی ہے اور بینیلکس ممالک کا سیکرٹیریٹ بھی یہیں پر واقع ہے۔ یہ ایک بارونق تجارتی شہر ہے اور ایٹومیم شہر کا ایک بڑا لینڈ مارک ہے۔ بنیادی طور پر 1958 میں برسلز میں ہونے والے عالمی میلے (58 ورلڈ ایکسپو) کی رونق بڑھانے کے لئے ایٹومیم کی تعمیر کی گئی اور پلاننگ کے مطابق اسے چھ مہینے بعد منہدم کیا جانا تھا۔ بے حد عوامی پذیرائی کے سبب اس کا انہدام سال بھر کے لئے مؤخر کیا گیا اور چند برس کے التواء کے بعد اس عجوبہ روزگار عمارت کو قائم رکھنے کا فیصلہ کر لیا گیا اور اس کے اندر میوزیم بنا دیا گیا تھا۔

برسلز جانے کے لئے پرواز اناؤنس ہو چکی تھی اور ہم جلد ہی اپنی نشستوں پر تھے۔ یہ بھی ایک مختصر دورانیے کی پرواز تھی۔ گھنٹے بھر میں ہم برسلز لینڈ کر چکے تھے۔ برسلز ایئرپورٹ ہمیں اتنا پر کشش نہ لگا۔ ایئر پورٹ کے لاکرز میں غیر ضروری سامان رکھنے کے بعد ہم ہوٹل پہنچے جو گرینڈ پلیس کے بہت قریب تھا۔ پرکشش تزئین و آرائش کے علاوہ کمرہ انتہائی آرام دہ تھا۔ کھڑکی کے پردے بھاری بھرکم تھے جو طرفین سے بندھے ہوئے تھے اور باریک چلمن نما پردے میں سے باہر جگمگاتی روشنیاں نظر آ رہی تھیں۔ جھانک کر دیکھا تو گرینڈ پلیس کا خوبصورت نظارہ کیا۔ ہم کھانے سے فارغ ہو کر گرینڈ پلیس دیکھنے گئے تھے۔

گرینڈ پلیس روشنیوں سے بقعۂ نور بنی ہوئی تھی۔ چہل پہل اتنی زیادہ تھی کہ کسی میلے کا گمان ہوتا تھا۔ شہر کے وسط میں یہ جگہ انتہائی پرکشش اور بارونق ہے۔ ساڑھے سات ہزار مربع میٹر پر مشتمل مستطیل شکل میں کھلی جگہ جس کے گرد خوبصورت عمارات ہیں جن میں ٹاؤن ہال اور بادشاہ کے محل ( جو اب عجائب گھر میں تبدیل کیا جا چکا ہے ) کے علاوہ تجارتی تنظیموں کے دفاتر ہیں۔ کافی ہاؤسز اور شاپس کے علاوہ یہاں تجارتی مراکز بھی ہیں۔ وقتاً فوقتاً یہاں مختلف مواقع پر رنگا رنگ تقریبات کا انعقاد ہوتا رہتا ہے۔ یہ جگہ اپنے سجاوٹی اور جمالیاتی حسن کے لئے مشہور ہے اور سیاحوں کے لئے بہت پر کشش ہے۔

گرینڈ پلیس کی تاریخ صدیوں پر محیط ہے اور مختلف ادوار میں یہ تباہ کاریوں کا شکار بھی ہوئی۔ ہر تباہی کے بعد اس کی آبادکاری اور تزئین و آرائش ہوتی رہی۔ اب یہ یونیسکو کے عالمی ورثہ میں شامل ہے۔

اگلے روز دوپہر کے بعد ہم ایٹومیم دیکھنے کے لئے روانہ ہوئے جو کہ ہمارا برسلز جانے کا اصل مقصد تھا۔ ٹیکسی میں دور سے ایٹومیم نظر آنے پر ہم بہت پر جوش ہوئے اور جیسے جیسے ہم اس کے قریب تر ہوتے گئے تجسس بڑھتا رہا۔ اس کی اونچائی 335 فٹ ہے۔ اس لئے دور سے نظر آنے لگتا ہے۔ ٹیکسی سے باہر نکل کر ایٹومیم کے اونچائی والے گولوں کو دیکھا تو حیرانی ہوئی کہ اتنے بڑے گولے اس قدر بلندی پر کس طرح ایک دوسرے کی باہمی سپورٹ سے فضاء میں کھڑے ہیں۔

ہم نے ٹکٹ خریدے اور زمین والے گولے میں داخل ہوئے۔ گولے کی وسعت کا اندازہ اندر جا کر ہوا۔ اس عمارت میں تمام سال نمائش کا اہتمام ہوتا ہے۔ ہر گولے کا قطر تقریباً ساٹھ فٹ ہے اور ان میں تین تین فلورز ہیں۔ گولوں کو آپس میں ملانے والی پائپس کا قطر دس فٹ ہے اور ان میں برقی زینے نصب ہیں۔ اس کے علاوہ درمیان کے تین عمودی گولوں کے درمیان ایک تیز رفتار لفٹ کی سہولت بھی موجود ہے۔ نیچے والے گولوں سے گھومتے ہوئے ہم اوپر والے گولے تک پہنچے۔

بلندی پر ہونے کے سبب یہاں سے شہر کا نظارہ کیا جا سکتا ہے۔ نیچے دیکھنے سے درمیان والے گولے بھلے لگ رہے تھے اور سڑک پر گاڑیاں تو بہت ہی چھوٹی نظر آتی تھیں۔ میرے لئے تو عمارت کے اندر نمائش کی اتنی اہمیت نہیں تھی جتنی کہ عمارت میری دلچسپی کا باعث تھی۔ اللہ تعالی نے انسان کے ذہن کو ایسی جلا بخشی ہے ایسی محیرالعقول ایجادات و تخلیقات ظہور میں آتی ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ میرا خیال تھا کہ عمارت کے اندر یا قریبی جگہ سے عمارت کا ماڈل مل جائے گا لیکن کہیں نظر نہیں آیا۔

جب ہم عمارت سے باہر نکلے تو دفاتر یا دکانوں کے اوقات کار ختم ہو چکے تھے۔ واپسی کے لئے ہمیں ٹیکسی نہیں مل سکی۔ کافی لمبا راستہ پیدل چلنا پڑا۔ خان صاحب بار بار بچوں سے کہے جا رہے تھے کہ جلدی کریں یہ جو سورج نظر آ رہا ہے اسے دن نہ سمجھیں یہ رات ہے۔

ہمارے لئے دلچسپ مشاہدہ تھا کہ ان دنوں وہاں سورج تو دیر سے غروب ہوتا تھا مگر لوگوں کے معمولات زندگی وقت کے گرد گھومتے ہیں۔ ہمارے دیکھتے دیکھتے سڑک ویران ہو گئی۔ کافی زیادہ چلنے کے بعد ہم میٹرو سٹیشن تک آئے اور ہوٹل کے قریبی سٹیشن تک پہنچ گئے۔ پیدل چلنے کی وجہ سے سب تھکے ہوئے تھے۔ کھانا کھانے کے بعد جلد سونے کی تیاری کی کیونکہ صبح آٹھ بجے تک ہمیں ائرپورٹ پہنچنا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments