مشرف عالم ذوقی کا ناول: مردہ خانے میں عورت


ذوقی کے بھارت کے موجودہ شہریت کے نام سے جاری المیوں اور دیگر نسلی و مذہبی تناقصات پر لکھے ناول ”مردہ خانے میں عورت“ پر بات کی جائے تو یہ ایک سلگتے موضوع پر شاہکار ناول ہے جس میں ذوقی کے عصری شعور کا بھرپور آہنگ اور رنگ ہے۔

ناول ہمارے سماج اور رویوں کا روزنامچہ ہے جسے ادیب دلنشیں اور تخلیقی انداز میں پیش کر کے اور اہم بنا دیتا ہے۔

ابتداء میں ناول پر داستانوی رنگ غالب تھا لیکن آہستہ آہستہ ناول کی ہیئت میں جدید تجریدیت جیست مختلف انداز بھی شامل ہوتے گئے ، جس نے اس قدیم صنف کو نئے پیکر میں اور مقبول بنا دیا۔

مرزا ہادی رسوا سے مشرف عالم ذوقی تک ناول نے کئی پیکر بدلے ، کئی آہنگ اور رنگ اختیار کیے ، یہ سب ارتقاء ناول کی نئی زندگی کا باعث ہوا۔ صنعتی اور موجودہ دور کی صارفیت کے تقاضے ناول کی ہیئت پر اثرانداز ہوئے لیکن اس کی تخلیقی اہمیت اور ادبی قدر وقیمت میں کمی نہیں آئی۔

ذوقی نے جس دور اور جس سماج میں آنکھ کھولی ، وہاں دنگے ، فساد اور نسلی امتیاز سے قدم قدم پر سامنا ہوتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی تحریروں میں ایک گہرا دکھ اور المیہ سانس لیتا دکھائی دیتا ہے۔ کہیں کہیں تو ذوقی کا قلم قاتل کی سمت اشارہ ہی نہیں کرتا اس کی مکمل نشاندہی بھی کر دیتا ہے۔
ان کے زیر تبصرہ ناول میں بھی ان کی یہی حسیت موجود ہے۔

’مردہ خانے میں عورت‘ حال ہی شائع ہونے والا ناول ہے جو چھے ابواب پر مشتمل ہے ، باب چہارم کے عنوان کو ناول کا نام بنایا گیا ہے۔

دیگر ابواب اندھیرا مور اور مسیح سپرا، نئی دنیا پرانی عمارت اور مردہ گھر ، گل بانو،  بندوق اور قتل، مردہ خانے میں عورت، دشت لایعنیت، مردے کا مقدمہ، آخری فیصلہ اور سپرا کی ڈائری ہیں۔

ابتدائیہ میں مصنف کا بلاگ عنوان دے کر اس باب کو ناول کا حصہ بنا دیا گیا ہے۔

مرکزی کردار مسیح سپرا ہے، جو چیختی علامتوں کے درمیان اپنا کردار نبھانے کی کوشش میں ناکام ہوتا چلا جاتا ہے۔ مداری بندر، کھولتی ڈولفن ، چشمہ لگائے بندروں کا درخت کے سائے میں کتاب کا مطالعہ اور تتلی کا مداری کے پاس صوفیانہ رقص ایسے استعارے اور علامتیں ہیں جو زندہ ہیں ، چیختے ہیں لیکن مردہ خانے کے حصار سے ماورا نہیں ہو پاتے ہیں۔

یہ سب علامتیں ایک جامد اور فرسودہ سماج کی عکاسی ہیں۔ یہ دھرتی جہاں کبھی ڈائنوسار اڑتے اور دوڑتے تھے ۔ تخلیق کار نے وہاں مداری بندر اور تتلی لاکھڑی کی ہے ، یہ شدید سماجی تضادات کی نمائندہ علامتیں ہیں۔ اب ڈائنوسار کی وحشت نہیں لیکن تتلی کا مداری کے پاس رقص ، بندر کا درخت کے سائے میں بیٹھے رہ جانا فطرت کے اصولوں سے متصادم ضرور ہے ، سو یہ موجودگی امن کے بجائے شدید تضاد اور طوفان کی نمائندگی ہے۔

مسیح سپرا تتلی بندر مداری اور جھولتی ڈولفن کو دیکھ کر حیران ہے کہ کیسا دیس ہے ، جہاں ہر آدمی اپنے رنگ کے چشمے لگائے پھرتا ہے اور اسی رنگ میں میں ہر انسان کو دیکھنا چاہتا ہے۔ اس کی نگاہ ایک نیم پلیٹ پر پڑتی ہے جس پر ’مردہ خانہ‘ تحریر ہے۔
یہاں سے ناول ایک اور جست لیتا ہے ، پراسرار وادیوں میں لایعنیت کا صحرا جہاں بس ایک زندہ انگلی قطب نما ہے ،  بی بی مریم کا مجسمہ ، دیوار پر رینگتا ہوا سرخ چیونٹا۔

جہاں مسیح سپرا نے خوبصورت مجسمہ اور پرندہ دیکھا یونانی داستانوں کا طویل عرصہ تک جینے والا فینکس جو اپنی راکھ سے پھر زندہ ہو جاتا ہے ۔ فینکس مریم کے ہاتھ میں اور مسیح صلیب پر یہ پیغام دیتا ہوا کہ میں دوبارہ آؤں گا۔

یہاں ناول قاری کو گہری اداسی سے دوبارہ زندگی کی سمت کمال ہنر سے واپس لے آتا ہے ، یوں سپرا بھی عقاب کے پنکھ لیے زندہ ہو جاتا ہے۔  زندگی اور موت کے درمیان کی یہ کیفیت طاری ہے کہ ضحاک سامنے آ جاتا ہے۔

دو زہر اگلتے سانپ لیکن ان کے دھانے سونے کے نہیں۔ مسیح سپرا اس سماج کا ایک زندہ کردار ہے۔
اسے تین زبانوں پر عبور ہے
جو زندوں سے تنگ آ کر خود کو مردہ سمجھ لیتا ہے
وہ زندگی اور موت کو اب انسانوں کے بجائے زندگی اور موت کے لیے استعمال ہونے والے الفاظ میں دیکھتا ہے۔

وہ جینا چاہتا ہے لیکن اس کا ادراک فہم اور دانش اسے جینے نہیں دے رہی ، یوں وہ مردہ اور مردہ خانے میں رہنا گوارا کرلیتا ہے۔

زندگی اور موت اسے ڈیتھ اور مرتیو کے مختلف زبانوں کے لفظوں میں تقسیم نظر آتی ہے۔ وہ اس زمانے میں پلٹتا ہے جب وہ مردہ خانے کے مجومدار سے ملا کرتا تھا جو اسے بتاتا تھا کہ سفید کفن میں لپٹے مردے کیسے باتیں کرتے ہیں۔

اس کے پاس مردوں کے زندوں سے زیادہ فعال ہونے کی کہانیاں اور ان کی سینگوں کا ذکر ہے۔ سپرا کو خود بھی سر پر اگا تھا ، اس لیے اسے سینگوں کا تجربہ تھا۔

حیرت ہے کہ مردہ خانے والے باہر کے سب کو مردہ سمجھ رہے تھے ، سپرا نے بھی مردہ خانے کا کلچر اپنا لیا، گھڑیاں توڑ دیں کہ مردوں کو وقت کا حساب رکھنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔

مارخیز کا خزانہ بدوش جس نے بوڑھے کو طوطے کا تحفہ دیا
طوطی ایک خاص علامت ہے جو رٹو کیفیت کی علامت بھی ہے
گل بانو نظیرا اور مسیح سپرا اس ٹوٹتے بکھرتے سماج کا کردار ہیں
جس سماج میں لوگ خود کو مردہ سمجھنے پر مجبور ہیں

البتہ مسیح سپرا کے برعکس گل بانو کا کردار زیادہ انقلابی اور زندگی آمیز ہے ، اس مردہ خانے میں ایک گل بانو ہی ہے جو سماج کی گواہی اور زندگی کا اثبات ہے۔

گل بانو، دلی کے ایک ایسے علاقے میں رہتی ہے، جو بدنام ہے جہاں راتیں جاگتی ہیں
نظیرا گل بانو کے ڈیرے کا دلال ہے لیکن خانہ بدوشوں اور مقامیوں کی جنگ میں وہ مزاحمتی گروہ کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں۔ پولیس کے تشدد اور پروہتوں کے فریب کو وہ مزید قریب ہو کر دیکھتے ہیں۔

یوں وہ ایسے قافلے کا حصہ بن جاتے ہیں جو فریب کے اس جال کو سمجھنے لگتا ہے جو حکمرانوں اور اونچی ذات کے مراعات یافتہ طبقے نے بن رکھا ہے۔

یہاں گل بانو اور ایک عالم کا مکالمہ اہم ہے جو غرناطہ جیسے حالات پیدا ہونے پر رنجیدہ ہو کر ماضی کے حالات کا اطلاق موجودہ حالات پر کرتا ہے۔

وہی آپسی اختلاف اور نسلی و مذہبی عصبیت کا شکار اکثریت کا تطہیری عمل کہ عیسائیت قبول کرو یا ملک چھوڑ دو۔

ذوقی کے اکثر ناول بھارت کے معاشرے کا عکس ہیں ، وہاں کے سماجی اور ریاستی مظالم کا نوحہ ہیں ، تقسیم سے جڑے المیے دنگے فساد ، غارت گری ، منافرتیں ، پاک پوتر اور ملیچھ کے قصے ان ناولوں کا اہم موضوع ہیں۔

مردہ خانے میں عورت، بھارت کے شہریت سے جڑے مسائل کا وائیٹ پیپر ہے،
مرکزی اور ذیلی کردار انہی سماجی انحرافات کے گرد گھومتے ہیں جنہیں ذوقی نے کمال مہارت سے دلچسپ اور فکر انگیز بنا دیا ہے۔

ذوقی کے تمام ناول ان سماجی المیوں کو اجاگر کرتے ہیں لیکن اس ناول میں سب علامتیں اور استعارے انہی المیوں کی عکاسی ہے مشرف عالم ذوقی نے ان سب موضوعات کو اس سلیقہ سے برتا ہے کہ کہیں بھی پروپیگنڈا نہیں لگتا ۔ یہ وہ زمینی حقائق ہیں جن کا ہندوستانی سماج کو سامنا کرنا پڑ رہا ہے، مردہ خانے میں عورت کا زندہ وجود ایک گواہی ہے کہ عورت کسی بھی تبدیلی کا بنیادی محرک ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments