دیوار سے بہرے ۔۔۔ جنید الدین


\"\"

گزشتہ سال چوہوں نے ہمارے گاؤں پر حملہ کر دیا. یہ اس قدر اچانک اور شدید تھا کہ کوئی انھیں ایسا کرنے سے نہ روک سکا. وہ کس سمت سے آئے تھے یہ کہنا بھی مبالغہ آرائی ہی ہو گا کہ مشرق سے مغرب اور گتے کے کارخانے سے عید گاہ کی جانب ہر گلی اُن سے بھر چکی تھی. وہ ہر گھر میں داخل ہو رہے تھے اور جو چیز انھیں اچھی لگتی، اُسے اٹھاتے اور اگلے گھر پر دھاوا بول دیتے. ان کی آوازیں روایتی چوہوں کی طرح تھیں، جنھیں عام انسان سمجھنے سے قاصر تھے اور اپنی حس تخیل سے کام لے کر چونگی ادا کر رہے تھے. لیکن چوہوں سے معذور لوگوں کو فرق نہیں پڑا. اپنی حالت کے مافق انھوں نے خود کو ان سے بہ تر خیال کرتے برا بولنا شروع کر دیا. اس خوش فہمی یا غلط فہمی میں کہ معذوری طاعون سے زیادہ قابل رحم ہے انھوں نے کھونٹیاں ہاتھوں میں پکڑ کر ان کا پیچھا شروع کر دیا. وہ صحت مند لوگوں پہ حکم چلا رہے تھے کہ انھیں اٹھا کر گاؤں سے باہر پھینک دیں. صحت مند لوگ اس بات سے آگاہ کہ معذوروں پہ کسی قسم کی پکڑ نہیں ہوگی لیکن ان سے پوچھا جا سکتا ہے کہ اس سے پہلے کیا وہ معذوروں کی سب باتیں مانتے آئے تھے، جو اس کی تعمیل لازم تھی. پہلی دفعہ معذوروں نے تن دُرستوں کے سامنے خود کو سرخ رُو پایا تھا، کہ آخر ان کی بھی کوئی حیثیت ہے اور انھیں اپنی حیثیت ثابت کرنے کا موقع میسر تھا.

پہلے پہل لوگوں نے طاعون کے خدشے کے پیش نظر ان کے آگے ہتھیار ڈالنے کو ترجیح دی اور مجھے لگا کہ شاید میں اس گاؤں میں پیدا ہو گیا ہوں، جس پر عظیم جنگ جو اشوکا کی فوج نے رات گزارنے کی خاطر قبضہ کرنے کی غرض سے حملہ کرنے کے پیش نظر ان لوگوں کو آخری وارننگ دی کہ گاؤں چھوڑ دیں یا لڑائی کیلئے تیار ہو جائیں تو انھوں نے بڑے پیار سے انہیں پاس ٹھہرا لیا اور اس رات ہر پناہ دینے والے نے پناہ گزیں سے پوچھا کہ یہ لڑائی کیا ہوتی ہے. میری ماں باورچی خانے میں گئی کہ ان کی ضرورت کے مطابق جو چیز دست یاب ہو دے اور جان چھڑائے کہ ان کا کھڑا ہونا طاعون کا سبب بن سکتا تھا. لیکن یہ طاعون ہمارے دائمی لحمیات سے نہیں بل کہ انھیں برداشت کرنے کے حوصلے سے باہم پیکار تھا. ماں نے آٹا لیا کہ انھیں دے، جسے میں نے لیا کہ دعا اور بد دعا کے عوض وہ کچھ ایسا نہ مانگ لیں، جو ہماری استطاعت میں نہ ہو؛ جیسے پیسے یا کوئی پوشاک. یہ خاصا مشکل ہوتا اگر وہ ایسا ہی تقاضا کر دیتے کہ ان دنوں ہماری معاشی صورت احوال ایسی نہ تھی کہ رقم دے سکیں. ہاں کپڑوں کے بارے میں کچھ سوچا جاتا؛ ہاں اس میں مشکل یہ تھی کہ کیا وہ میرے پھٹے پرانے کپڑے لینے پہ آمادہ ہوتے، جو اس قدر خستہ ہو چکے تھے، کہ یہ تک نظر آتا تھا کہ نیچے کچھ اور بھی پہنا ہے یا نہیں.

دوسرا یہ کہ بھلا چوہوں کا پیسوں یا پوشاک سے کیا کام. لیکن برا ہو اس مادی فکر کا کہ انسان تو انسان چوہے بھی اس کی لپیٹ میں آگئے تھے. میں نے آٹا لیا اور انھیں دینے کے لیے مڑا، لیکن ابھی ان کی زنبیل میں ڈالنے کو تھا کہ ان میں سے ایک پیچھے ہٹ گیا. اس نے کوئی زنبیل نہیں پہنی تھی اور میرے خوف کے عین مطابق جو پیسے ہاتھ میں پکڑے تھے، انھیں میری طرف لہرایا اور رقم کا تقاضا کر دیا. چاہیے تو تھا کہ میں جیب میں ہاتھ ڈالتا اور کوئی سکہ اس کو تھما کر جان چھڑا لیتا، لیکن اب وہ عمر نہیں رہی تھی، جب جیب سے سکے نکلتے؛ جب کہ میں نوٹ کی شکل تک بھول چکا تھا. حتی کہ یہ بھی کہ ان کے اوپر کس کی تصویر کندہ تھی. یہی سوچتے میں نے فیصلہ کیا کہ دو بدو ان سے ٹکرا جاؤں اور اعلان کر دوں کہ میں ان کی کسی چال میں پھنسنے والا نہیں. ایسا اکثر پہلے ہو چکا تھا کہ یہی چوہے یا ان کی طرح کے دیگر ٹولیوں کی شکل میں یا اکیلے ہی ہم سب کے گھروں، بازاروں، دُکانوں حتی کہ عبادت گاہوں کے سامنے اپنی چھاؤنیاں بنا دیتے. دنیا جس قدر ہمارے لیے تنگ ہوئی اسی نسبت سے ان کے لیے وسیح ہو چکی تھی. پہلے وہ ایک کمرے میں داخل ہوتے تو دوسرے تک جانے کے لیے انھیں وقت درکار ہوتا مگر اب ایک سے نکلتے ہی دوسرے میں گھس جاتے اور کیا معلوم کس میں ان کو پکڑنے کے لیے کھونٹی تیار رہتی اور انہیں پکڑ لیا جاتا.

مگر اب انھیں فائدہ یہ ہوا تھا کہ ان کی محافظ بلیاں بن گئی تھیں. اب یہ انسان کے بس سے باہر ہو چکا تھا کہ ان کو کھانے کے لیے بلیاں پالے. اور یہی بلے ان کے سب سے اہم ساتھی کے طور پر نمودار ہوئے. وہ انھیں پیچھے سے ٹہوکتے کہ فلاں چیز کی آواز لگاؤ، فلاں چیز مانگو اور شور مچاؤ، شور مچاؤ کہ انسانوں کے کانوں کے پردے پھٹ جائیں. وہ ان کی سماعت چھین لینا چاہتے تھے. وہ ان کی جمالیاتی حس کو مفلوج کرنے میں پیہم تھے کہ اس کے بعد ہم میں اور ان میں کوئی فرق نہیں رہے گا. جب محبت، نفرت، مبارک باد اور کوسنے ختم ہو جائیں گے، تو کیا معلوم کون کس کو کیا کہے گا اور کیا سنے گا کہ اب وہ فقط دیوار بن جائیں گے. یا دیواروں کے پیچھے ہونے والی سرگوشیاں جو کسی کا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں.

میں ان کا مقصد سمجھ چکا تھا. میں نے چیخ ماری اور گاؤں سے باہر نکلنے کے لیے دوڑ لگا دی.


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments