حکومت عوامی احساسات کا خیال کرے


اگر یہ کہا جائے کہ حکومت کی انتظامی گرفت کمزور پڑ چکی ہے تو غلط نہ ہو گا کیونکہ ہر کوئی اپنی من مانی کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ اس کے ماتحت سویلین ادارے تو بالکل کسی کی پروا نہیں کر رہے۔ انہوں نے اپنی الگ دنیا بسا رکھی ہے جس میں وہ مکمل آزادی کے ساتھ رہ رہے ہیں۔ انہیں کوئی نہیں پوچھ سکتا ، کوئی نہیں ٹوک سکتا۔

اڑھائی برس کے بعد بھی ہمارے حکمرانوں کی سمجھ میں یہ بات نہیں آئی کہ ایسے مسائل جن کا تعلق براہ راست انتظامیہ سے ہے ، اس پر توجہ دے کر انہیں حل کیا جا سکتا ہے ۔ بس وہ یہی کہتے چلے آ رہے ہیں کہ حزب اختلاف ان کو آگے نہیں بڑھنے دے رہی۔ یعنی حزب اختلاف حکومت کے اعصاب پر سوار ہے لہٰذا وہ مجبور ہیں کہ عوامی مشکلات کو ختم نہیں کر سکتے؟

ان سے پوچھا جا سکتا ہے کہ ہمارے ہاں کی حزب اختلاف تو ہمیشہ سے یہی کچھ کرتی چلی آئی ہے۔اس کا یہ خیال ہوتا ہے کہ اسے تو جیتنا تھا مگر اسے دھاندلی کے ذریعے ہروا دیا گیا لہٰذا وہ شور مچاتی ہے اور حکومت کو دباؤ میں لاتی ہے تاکہ وہ یکسوئی سے اپنا کام نہ کر سکے۔ مگر ایک اچھی حکومت اسے خاطر میں نہیں لاتی اور بہترین حکمت عملی اور منصوبہ بندی سے امور مملکت سر انجام دیتی ہے۔ فلاحی منصوبے بناتی ہے اور ان پر عمل درآمد کرتی ہے مگر ایسا کبھی نہیں ہوا اور موجودہ حکومت بھی اب تک صرف اور صرف بدعنوانی پر ہی نگاہ جمائے ہوئے ہے ، جس سے مطلوبہ نتائج برآمد نہیں ہو سکے۔ نتیجتاً عوام کی حالت خراب سے خراب تر ہوتی جا رہی ہے۔

مزید ستم یہ کہ انہیں کوئی بڑا ریلیف دینے کی بجائے ان پر اور ٹیکسوں کا بوجھ لادا جا رہا ہے جس کی ان میں سکت نہیں مگر اس کی حکومت کو خبر ہی نہیں ، اگرخبر ہے بھی تو وہ خاموش ہے۔

ادھر پی ڈی ایم والے ہیں کہ وہ اپنے ساتھ ہونے والی مبینہ دھاندلی کا روایتی انداز میں رونا رو رہے ہیں۔ انہوں نے عمران خان کی حکومت کو تسلیم ہی نہیں کیا مگر حیرت ہے کہ وہ ایوانوں میں بھی بیٹھے ہیں۔ ضمنی انتخابات میں بھی حصہ لیتے ہیں۔ انہیں جو سہولتیں ملنا ہوتی ہیں وہ بھی لیتے ہیں۔ بہرحال عجیب سیاست کاری ہو رہی ہے ، ویسے اسے سیاست کاری نہیں کہنا چاہیے کیونکہ سیاست عوام کے لیے کی جاتی ہے، انہیں پریشانیوں سے نجات دلانے کے لیے کی جاتی ہے۔ ان کا بچوں کو روشن مستقبل دینے کے لیے ہوتی ہے۔ آسانیاں پیدا کرنے کے لیے ہوتی ہے مگر یہ تو لوگوں کی اذیتوں میں اور اضافہ کرتی ہے۔ ان کی جمع پونجیوں کو ہتھیانے کے لیے ہے۔

کسی بھی حکومت کو (ماضی و حال) دیکھ لیں اس نے مسائل حل کم نہیں کیے ، ان میں اضافہ ہی کیا ہے۔ جو حل ہوتے نظر آئے ہیں وہ محض گونگلوؤں سے مٹی ہی جھاڑنے کے مترادف ہوتے ہیں۔ اور ان کی وجہ سے جو قرضہ سر پر چڑھایا گیا وہ ناقابل برداشت ہو گیا۔

عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ جو بھی حکومت آئی ہے ،اس نے اپنے مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے سیاست کی ہے ۔ اگر ایسے منصوبے بنائے ہوتے یا ایسا نظام وضع کیا ہوتا کہ جس کے تحت عوام کو خودبخود سہولتیں ملنا شروع ہو جاتیں اور انصاف سستا اور آسان ملنے لگتا تو آج حالت ایسی نہ ہوتی۔

چلیے پچھلی حکومتوں نے جس طرح کی بھی سیاست و حکمرانی کی سو کی،  اس حکومت کو تو چاہیے تھا کہ وہ لوگوں کو مایوسیوں کے بھنور سے باہر نکالتی کیونکہ اس بے بلند بانگ دعوے کیے تھے کہ وہ تبدیلی لائے گی اور عوام کو ایک نئے پاکستان سے روشناس کرائے گی۔

اب دیکھا جا سکتا ہے کہ کورونا ویکسین جو فی الحال چین کی طرف سے تحفتاً دی گئی ہے ، وہ لوگوں کو مفت لگائی جا رہی ہے مگر نجی کمپنیوں کو بھی اجازت دے دی گئی ہے کہ وہ اسے تیار کرنے والے ممالک سے خرید کو قیمتاً جو لوگ لگوانا چاہیں انہیں لگا سکتی ہیں کیونکہ اس نے صاف کہہ دیا ہے کہ وہ نوے فیصد لوگوں کو ویکسین فراہم نہیں کر سکتی ، مگر وہ ان کی کھال ادھیڑ سکتی ہے۔  آئے روز مہنگائی کر کے اور نئے نئے ٹیکس لگا کر ان کی پس انداز کی گئی رقوم پر ہاتھ صاف کر سکتی ہے۔رشوت، ملاوٹ، قبضہ گیری، بدعنوانی، دھوکا دہی، غنڈہ گردی اور زیادتی سے رخ پھیر سکتی ہے۔

یہ درست ہے کہ موجودہ حکومت اس گمبھیر صورت حال پر اکیلے قابو نہیں پا سکتی تو پھر وہ حزب اختلاف کو کیوں ساتھ لے کر نہیں چل رہی ۔ اس کا تعاون حاصل کرنے سے کیوں کتراتی ہے۔ وہ این آر او نہ دے اداروں پر انحصار کرے تاکہ عوام کے لیے کچھ ہو سکے۔ مگر وزیراعظم ایک ہی بات پر اڑے ہوئے ہیں۔ اس طرح مجموعی حالات ابتر ہو چکے ہیں۔ جلسے جلوسوں کا سلسلہ چل نکلا ہے۔ حزب اختلاف جسے پی ڈی ایم کہتے ہیں حکومت گرانے کے درپے ہے۔ دھرنے کی سیاست کا بھی ایسا رواج ہوا ہے کہ سیاسی جماعت ہو یا کوئی غیرسیاسی، دھرنے دیتی دکھائی دیتی ہے۔ اس کے باوجود حکومت کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی اور وہ کبھی بجلی مہنگی کر دیتی ہے اور کبھی گیس و پٹرول۔

جب ہم یہ سطور رقم کر رہے ہیں۔ ٹی وی کی سکرین پر یہ پٹی چل رہی ہے کہ صدر مملکت نے ٹیکسوں میں اضافے کا آرڈیننس جاری کر دیا ہے۔ اب کوئی کیا کرے ، یہ تو صریحاً ظلم ہے۔ اگر یہ آئی ایم ایف کی شرط ہے تو بھی ایسا نہیں کرنا چاہیے ، عوام تو جیتنے جی مر رہے ہیں ، انہیں تو پہلے ہی زندگی کی ضروریات پوری طرح میسر نہیں۔

بہرکیف حکمران طبقہ آنکھیں بند کر کے ٹیکسوں کی لاٹھی گھما رہا ہے۔  اسے کسی سے ہمدردی نہیں ۔ اسے آئی ایم ایف کی قسطوں کی فکر ہے، ہم اپنے کسی کالم میں یہ عرض کر چکے ہیں کہ لوٹا اہل اختیار نے اور ستم ڈھائے جاتے ہیں غریب اور کمزور عوام پر اور اب اگر سٹیٹ بینک کو خود مختار بنا دیا جاتا ہے جو صرف آئی ایم ایف کے اہم عہدیدار کو ہی کچھ بتا سکے گا تو اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس ملک کی معیشت اور عوام کی حالت کیا ہو گی؟

سچ یہ ہے کہ یہاں واقعتاً اندھیر مچ چکا ہے ، عوام کو مختلف حربوں کے ذریعے ذہنی و جسمانی طور سے جکڑا جا رہا ہے۔ ایسا سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کیا جا رہا ہے تاکہ وہ خوف کی فضاء میں رہیں اور جدوجہد کے راستے پر نہ آ سکیں مگر کیا یہ ممکن ہو سکے گا؟ نہیں ایسا ہو گا نہیں کیونکہ زیادہ دیر تک ایک حالت کا قائم رہنا ممکن نہیں ہوتا ، لہٰذا سیاسی بہروپیے جتنا چاہیں غریب عوام کو دبانے کی کوشش کریں ، انہیں ایک ایسی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جو اس نظام کو یکسر بدل کر رکھ دے گی کہ جس نے چوہتر برسوں سے لوگوں کی مسکراہٹیں چھین رکھی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments