کراچی کی سیاست میں ایک بار پھر ہلچل


کراچی کی سیاست میں پھر ایک بار ہلچل محسوس ہو رہی ہے۔ ایم کیو ایم کے یوم تاسیس کے موقع پر سوشل میڈیا اور گلی محلوں میں افواہوں کا بازار گرم رہا۔ بانی متحدہ پر جب سے پابندی لگی ہے وہ اس وقت سے سوشل میڈیا پر چھائے ہوئے ہیں۔ ان کی ویڈیوز کو لاکھوں لوگ دیکھتے اور پسند کرتے ہیں۔ حالیہ یوم تاسیس کے موقع پر پیغام نے اندرون خانہ کارکنان کو متحرک کر دیا ہے جس کا ثبوت یوم تاسیس کے موقع پر نائن زیرو کے اطراف میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے غیر علانیہ لاک ڈاؤن تھا۔ سکیورٹی اتنی تھی کہ ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ کوئی جنگ شروع ہونے والی ہے۔ مگر شکر ہے خدا کا، کوئی ناخوشگوار واقعہ رونما نہیں ہوا۔

شنید یہی ہے کہ مقتدر حلقوں کی جانب سے بانی متحدہ کو گرین سگنل دیا جا رہا ہے۔ عذیر جان بلوچ کو آہستہ آہستہ فرشتہ بنانے کا مقصد بھی محسوس ہو رہا ہے۔ اگر متحدہ کو میدان میں آنے کی اجازت دے دی جاتی ہے تو اس کو ٹف ٹائم دینے کے لئے بھی کوئی ترپ کا پتہ موجود ہونا چاہیے۔

پاکستان بالخصوص کراچی کی سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کا کردار ہمیشہ سے بہت کلیدی رہا ہے۔ یا یوں کہہ لیجیے کہ اسٹیبلشمنٹ کے بغیر کوئی پرندہ پر بھی نہیں مار سکتا۔ مقتدر حلقوں کی نظر میں کراچی تجربہ گاہ سے زیادہ کچھ نہیں رہی۔ جس پر ہر کسی نے طرح طرح کے تجربے کیے۔ ان ہی تجربات کی بناء پر آج کراچی کا یہ حال ہے۔ وہ کراچی جو کبھی سیاحت کا مرکز ہوا کرتا تھا، خوبصورت اور کشادہ سڑکیں، صنعتی مراکز، سیاحتی مقامات جو ہر کسی کا دل لبھاتے تھے، آج وہ کراچی کھنڈر اور کسی دور افتاد دیہات کا منظر پیش کر رہا ہے جہاں کوئی بھی بنیادی سہولت میسر نہ ہو۔

پینے کا پانی ہو یا گیس اور بجلی ہو، یا اشیائے خور و نوش ہوں۔ سب پر مافیاز کا قبضہ مضبوطی اور سیاسی پشت پناہی کی بدولت قائم ہے۔ ٹیکس ہوں یا بھتہ، سب اسی شہر بے درماں سے وصول کیا جانا واجب تصور کیا جاتا ہے۔ کے الیکٹرک کی ہٹ دھرمی ہو یا دودھ فروشوں اور تاجروں کی من مانیاں، سرکاری و حکومتی ادارے ان کے سامنے بے بس، مجبور اور لاچار نظر آتے ہیں۔ عوام کو دلاسا اور تسلی دینے کے لئے جھوٹ بولے جاتے ہیں۔ درحقیقت ان مافیاز کی سرپرستی کی جا رہی ہے۔

دور طالب علمی سے پاکستان اور بالخصوص کراچی کی سیاست پر گہری نظر رہی ہے۔ سیاست اور تاریخ میرے پسندیدہ مضامین رہے ہیں۔ مگر تاریخ بھی اسی وقت تک اچھی رہتی ہے جب تک اسے مسخ کر کے پیش نہ کیا جائے۔ افسوس اب تک کراچی کی تاریخ کو صرف مسخ ہی کیا گیا ہے۔ پہلے مردم شماری کے بجائے مردم شکنی کی گئی۔ اب جو کچھ اس شہر کو ملتا تھا اس میں بھی ڈنڈی ماری جا رہی ہے۔ اب تو کان یہ سن کر پک گئے ہیں کہ کراچی منی پاکستان ہے، شہ رگ ہے، کراچی 76 فیصد ریونیو دیتا ہے، کراچی پاکستان کو چلاتا ہے وغیرہ وغیرہ۔

کراچی کی تعریفوں اور ہمدردیوں میں رطب اللسان اس کے مسائل کے سدباب سے ہمیشہ کتراتے رہے۔ عوام کے سامنے غم گسار بننے والے کراچی کو اچھوت سمجھتے ہیں۔ بانیان پاکستان کی اولادوں سے دلتوں جیسا سلوک کیا جاتا ہے۔ کوٹہ سسٹم کے تحت کراچی کے باسیوں پر سرکاری نوکریوں کے دروازے بند کیے ہوئے ہیں۔ جائز کام کے لئے بھی رشوت دینا کلچر بن چکا ہے۔ زبان کی بنیاد پر جاہل اور ان پڑھ لوگوں کا راج قائم ہے۔ سڑکیں، گلیاں موہن جوداڑو بن چکی ہیں۔

سیوریج کا انگریزوں کا دیا ہوا نظام اب گل سڑ چکا ہے۔ ٹرانسپورٹ کی حالت تو پوچھیے ہی مت۔ گرین لائن منصوبہ 7 سال بعد بھی مکمل نہیں ہو سکا۔ اورنج لائن بس سروس ایک سال کی مدت میں پوری ہونے کو تھی 5 پانچ سال ہو چکے ہیں مگر ابھی بھی پایۂ تکمیل تک نہیں پہنچ سکی۔ ترقیاتی کاموں کے نام پر کراچی اور اس کے شہریوں سے مذاق کیا جاتا ہے۔ تعمیر نو کے نام پر سڑکیں توڑ کر عوام کو تکالیف دی جا رہی ہے مگر کوئی سننے والا ہی نہیں۔ وزیراعظم کے کراچی ٹرانسفارمیشن پروگرام کے 11 سو ارب روپے بھی کافور ہو چکے ہیں۔

دور آمریت (پرویز مشرف) میں ضرور اس شہر کا نقشہ ایک بہتر طور پر نکھارا گیا مگر پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ پیپلز پارٹی کا سندھ میں مسلسل تیسرا دور حکومت ہے اور اس نے صوبے کے دارالحکومت کو کھنڈر بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ سارا خون نچوڑ کر اسے دو بوند پانی کو بھی ترسایا جا رہا ہے۔ سیاسی و حکومتی سرپرستی میں مافیاز کے چنگل میں پھنسے کراچی اور اس کے باسیوں کو بے یار و مددگار چھوڑا ہوا ہے۔

سیاسی جماعتوں اور ان کے عسکری ونگز کی وجہ سے شہر میں بھتہ خوری، اسٹریٹ کرائمز، چائنا کٹنگ، قبضہ اور دیگر جرائم ہوتے رہے۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے اور سرکاری محکمے چشم پوشی کرتے رہے اور مافیاز کا ساتھ دیتے رہے۔ اور اب غریبوں کے سر سے چھتیں چھیننے کا سلسلہ جاری ہے۔ سپریم کورٹ نے حکم دیا نالوں کی صفائی کا، تجاوزات ختم کرنے کا، مگر ہمارا عدل و انصاف بھی نرالا ہے۔ اصل ملزمان کو کیفرکردار تک پہنچانے کی بجائے غریبوں پر ہی ظلم روا رکھنا مقصود ہے۔ چائنا کٹنگ کے نام پر بے گھر کیا جا رہا ہے مگر اس قبضے کو جائز قرار دینے والے یا جب یہ قبضے ہو رہے تھے اس وقت خواب خرگوش کے مزے لینے والے قانون نافذ کرنے والوں اور سرکاری اہلکاروں کو کوئی نہیں پوچھتا۔

سیاسی جماعتوں کے تجربات نے اس شہر کو مکمل تباہ کر دیا ہے۔ مذہبی جماعتوں کے بعد لسانی تنظیم کو شہر کا حاکم بنایا گیا۔ فوجی آپریشن، ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری، چائنا کٹنگ اور دیگر جرائم میں سب جماعتوں نے اپنے اپنے حصے کا چراغ روشن کیا۔ لسانی تنظیم کے بانی پر پابندی لگا کر اسی پارٹی کے دوسرے شخص کو ڈرائی کلین پارٹی بنا کر دے دی۔ وہ بھی بری طرح ناکام رہی۔ حکمران جماعت کو کراچی جیسے بڑے شہر سے تقریباً کلین سویپ کروا دیا اور ایسے ایسے لوگ منتخب ہو گئے جو کونسلر کا الیکشن لڑیں تو کامیاب نہ ہو سکیں۔ باتیں کروڑوں کی اور دکان پکوڑوں کی، کے مصداق اس کی کارکردگی سابقہ حکمران جماعتوں سے بھی کہیں زیادہ بری رہی۔ یہ لوگ اپنے آپ کو نا اہل ثابت کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہے۔ اڑھائی سال بعد بھی کارکردگی صفر ہے۔

شہر قائد پر ایک بار پھر تجربہ کیا جا رہا ہے۔ شہر کی سب سے بڑی جماعت رہنے والی پارٹی کو دوبارہ میدان عمل میں لایا جا رہا ہے۔ ڈرائی کلین کا سلسلہ بھی شروع ہو چکا ہے۔ مگر اس دفعہ اسٹیبلشمنٹ بہت محتاط رویہ اپنائے ہوئے ہے جس کے باعث منظرنامے پر دھند کے آثار موجود ہیں۔ جب دھند چھٹے گی تو آسمان واضح ہو جائے گا اور چاند چڑھنے پر سب کو دکھ جائے گا۔

گزشتہ انتخابات میں ایک مذہبی پارٹی کو لانچ کیا گیا تھا، جس نے عام انتخابات اور تمام ضمنی انتخابات میں کئی دہائیوں سے قائم سیاسی جماعتوں کو بہت زیادہ ٹف ٹائم دیا تھا۔ این اے 249 کے ضمنی انتخاب میں حکمران جماعت اور اس مذہبی جماعت میں الائنس قائم ہو چکا ہے۔

شنید یہی ہے کہ مذہبی جماعت کا امیدوار لایا جائے گا۔ اگر ایسا ہو گیا تو یقیناً آنے والے بلدیاتی انتخابات اور پھر 2023 ء کے عام انتخابات میں مین اسٹریم پر چھا جانے میں یہ مذہبی پارٹی کامیاب ہو جائے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments