انوکھی شادی



آج کے مادہ پرستی کے دور میں جب ہرشخص تمام رشتے بھلاکر دولت کے پیچھے بھاگ رہا ہے، دولت کے لئے اس دوڑنے معاشرہ میں کافی بگاڑ پیدا کیاہے اور کئی خرابیوں کوجنم دیکرمعاشرتی اقدارکی دھجیاں بکھیردی ہیں مگراس دور میں کچھ لوگ ایسے بھی موجود ہیں جواپنے آبا و اجداداور اسلامی اقدار کوزندہ رکھے ہوئے ہیں، اس کی ایک تازہ مثال ایک انوکھی شادی ہے جس میں دلہن نے مہر میں کتابیں دینے کامطالبہ کیا۔ عام طور پردلہنیں حق مہر میں گاڑی، بنگلہ، دولت یا دیگر قیمتی تحائف کا تقاضا کرتی ہیں لیکن خیبرپختونخوا کے ضلع مردان میں ایک دلہن نے انوکھا مطالبہ کر کے اپنے شوہر، رشتہ داروں کے ساتھ ساتھ لوگوں کوبھی حیران کر دیا، دلہن نے تمام روایتی مطالبات کے بجائے مہر میں اپنے شوہر سے ایک لاکھ روپے کی کتابیں مانگ کرایک انوکھی روایت قائم کی، نئے جوڑے کے نکاح نامے میں مہر کی رقم کے سامنے خانے میں لکھا گیا ہے کہ ایک لاکھ روپے پاکستانی رائج الوقت مالیت کی کتب، شاید ہی کسی نکاح نامے میں ایسا کوئی ذکر ہو۔

ان کے مطابق خیبر پختونخوا میں اکثر حق مہر میں لڑکے والوں سے 10 سے 20 لاکھ روپے مانگے جاتے ہیں جبکہ جہیز میں قسم قسم کی فرمائشیں کی جاتی ہیں، ان روایات کو ختم کرنے کے لئے کسی کو تو پہل کرنی ہوگی جو انہوں نے کر دی ہے، ان کے مطابق رسم و رواج کے خلاف جو بھی پہلا قدم آٹھاتا ہے توانہیں شدید تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے لیکن ہمارے اس فیصلے پرابھی تک کسی نا کوئی تنقید نہیں کی بلکہ سب نے اس کو خوب سراہا ہے۔

ڈاکٹرسجادژوندون اورنائلہ شمال صافی چند دن پہلے رشتہ ازدواج میں منسلک ہو گئے ہیں، اس سلسلے میں شوہرکے آبائی گاؤں میں ولیمہ کی تقریب منعقد کی گئی جس میں دونوں کے رشتہ داراورگاؤں کے لوگ شریک ہوئے، نئے جوڑے نے تاریخ رقم کردی اورایک انوکھے انداز سے شادی کے بندھن میں بندھ کرلوگوں کے لئے مثال قائم کردی، بیوی نے مہرمیں ایک لاکھ روپے کی معلومات عامہ کی کتابیں دینے کا انوکھا اورمنفردمطالبہ کیا اورشوہرنے قبول کر کے پوراکر دیاجودونوں کی تعلیم دوستی کامنہ بولتاثبوت ہے، دونوں تدریس کے شعبہ سے وابستہ ہیں، ڈاکٹرسجاد کاتعلق ضلع مردان کی تحصیل رستم کے گاؤں بھائی خان سے ہے، انہوں نے پشتو میں پی ایچ ڈی کی ہوئی ہے اوراسلامیہ کالج یونیورسٹی پشاور میں لیکچرارکے فرائض انجام دے رہے ہیں جبکہ ان کی شریک حیات نائلہ شمال صافی چارسدہ سے تعلق رکھتی ہیں، ادبیات میں پی ایچ ڈی کر رہی ہیں اور گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج چارسدہ میں لیکچرارکے فرائض نبھارہی ہیں، دونوں ادب سے بھی لگاؤ رکھتے ہیں اور اکثر ادبی محفلوں میں ملاقات ہوتی رہتی تھی، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ ملاقاتیں دوستی کی وجہ بنی جوآخرکارپسندکی شادی پر منتج ہوئی، دونوں میاں بیوی درس تدریس کے ساتھ تصنیف وتالیف سے بھی گہرالگاؤرکھتے ہیں، ڈاکٹرسجادڑوندون نے چھ جبکہ نائلہ شمال صافی نے ایک کتاب بھی تصنیف کی ہے۔

نائلہ شمال صافی نے بتایاکہ مہرمیں کتابیں لکھنے سے اگرایک طرف دنیاکوکتاب اورعلم کی اہمیت بتانامقصودتھاتو دوسری اس دور میں جہاں ہر طرف غربت نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں، مہنگائی نے عوام کاجینادوبھرکر دیا ہے، ایسے میں مہرمیں فرسودہ مطالبات سے گریزکرنابھی تھا، عام طورپردیکھا گیا ہے کہ شادی کے وقت بیوی کاحق مہرگھر، جائیداد، گاڑی، دولت یازیور ہوتاہے اوریہ لڑکی کے ساتھ ساتھ خاندان کے افراد کا بھی مطالبہ اور خواہش ہوتی ہے، مہرمیں لی گئی چیزیں ذاتی مفادات سے وابستہ ہوتی ہیں مگرمیں نے نکاح کے وقت جس حق مہر کا مطالبہ کیا ہے اور لکھوا بھی دیا ہے اس سے میرامقصد صرف یہی تھا کہ ہم اپنی ذاتی مفادات سے نکل کر قومی مفادات کی فکر کریں، یہی ہم دونوں کی کوشش تھی کہ ہمارے اس چھوٹے عمل اورا قدام سے ہماری آنے والی نوجوان نسل کو کتاب کی اہمیت کا احساس دلایا جائے اور کتاب کی قدروقیمت سے انکوآگاہ کیاجائے، ایک مقصد پاکستانی قوم اوردنیاکویہ پیغام دینابھی تھا کہ جس طرح پختونوں کو انتہا پسند اور دہشتگرد کے طور پر پیش کیاجا رہا ہے یہ تاثربالکل غلط ہے، پختون دہشتگرد اور انتہا پسند نہیں بلکہ کتاب سے دوستی رکھنے والی قوم ہے۔

مہر میں ایک لاکھ روپے کی کتابیں مانگنے کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ ہمارے ملک میں مہنگائی بہت زیادہ ہے جس کی وجہ سے ہم یہ چیزیں افورڈ نہیں کر سکتے اور دوسرامقصد یہ تھا کہ ملک اور معاشرہ میں موجود غلط رسومات ہماری زندگی غذاب بنارہی ہے، ان غلط رسومات کا خاتمہ بھی ضروری ہے، ادب سے محبت کرنیوالی ایک لکھاری کی حیثیت سے میں نے مہرمیں کتابیں اس لیے بھی مانگی ہیں کہ اگرہم کتاب کی قدر نہیں کریں گے توعام لوگوں سے کتاب کے قدرکی توقع کیسے کر سکتے ہیں، نائلہ شمال صافی نے کہا کہ انہوں نے سجاد ژوندون کے ساتھ ساتھ کتابوں سے بھی رشتہ جوڑ لیا ہے۔

ڈاکٹر سجاد ژوندون نے بتایاکہ معاشرتی امن، اقداراور روایات تبدیل کرنے کے لئے وقت کے ساتھ ساتھ اصلاحات کی ضرورت ہوتی ہے اور اگر اصلاحات نہ کی گئیں تویہ روایات ختم ہوجائیں گی، اب جبکہ دنیاگلوبل ویلج بن چکی ہے توہم نے بھی پختونولی اورجہیزوغیرہ کو ایک نئی شکل میں پیش کر دیاہے، اس کے لئے ہم خصوصاًمیری اہلیہ نائلہ نے فیصلہ کیاکہ ہمای قسمت میں جولکھاہے وہ توملتارہے گا اس کے لئے ہم محنت بھی کریں گے مگراس وقت جو اہم مسئلہ ہمیں درپیش ہے وہ جہیزکاہے، نائلہ نے دوٹوک الفاظ میں کہا میں نہیں چاہتی کہ غیر حقیقی اور فرسودہ مطالبات کی چکرمیں پڑکردونوں گھرانوں میں تلخیاں، نفرتیں اوردوریاں پیداہوں اوراس دوستی کونظرلگ جائے، ہم نے یہ تما م خرابیاں دورکرنے، روایتی مطالبات کے بجائے دوستی اوررشتوں کو برقراررکھنے اوراسے مزید مضبوط بنانے کے لئے کتاب کا انتخاب کیا، کتاب کا انتخاب ہم نے اس لیے بھی کیا کہ سوشل میڈیا اور ٹیکنالوجی کی وجہ سے کتاب کاکلچرختم ہو گیا ہے ، خاص طورپرخیبرپختونخوامیں کتب بینی اور کتاب دستی ختم ہو رہی ہے، ہم نے ایک مثال قائم کر کے ایک تحریک کا ا؟

غازکر دیاہے جس کافائدہ یہ ہوگا کہ یہ کلچرختم ہونے کے بجائے دوبارہ زندہ ہوگا، انہوں نے کہا کہ جب میں نے اپنی منگیتر کے مہر کے مطالبے کے بارے میں سنا تو بہت خوشی ہوئی کہ اس سے مہر میں مانگی جانے والی زیادہ رقوم کے رواج کا سلسلہ ختم ہو جائے گا، ادب اورتعلیم سے جنون کی حد تک محبت رکھنے والی میری شریک حیات نائلہ شمال صافی کا مطالبہ تھا کہ مہر میں بنگلہ، گاڑی یا نقد رقم کے بجائے صرف معلومات کی کتابیں دی جائیں، ان کی خواہش تھی کہ ہمارے بیڈروم میں کتابوں کے علاوہ اورکوئی چیز نہ ہو، اپنی شریک حیات کی یہ خواہش اورمطالبہ مجھے بھی اچھالگا اورمیں نے خوشی سے قبول کرتے ہوئے نکاح کے دوران ایک لاکھ روپے کی کتابیں مہر میں دیکرپوراکر دیا۔ ان کے مطابق جہاں بہت سارے لوگ کسی اچھے کام کو سراہتے ہیں تو وہاں ان کے مخالفین بھی ہوتے ہیں تاہم ہمارے معاملے میں ابھی تک کسی نے بھی اس اقدام کی مخالفت نہیں کی۔

خیبر پختونخوا میں پختون روایات کے مطابق شادی کے دعوت نامے پر دلہے کا نام اور دلہن کے والد کا نام لکھا جاتا ہے مگرنئے جوڑے نے ان روایات کوبھی توڑتے ہوئے ایک نئی مثال قائم کی، نئے جوڑے نے شادی کے دعوت نامے پر نہ صرف دلہن کا نام لکھا بلکہ دعوت نامے کے اوپر دونوں کی تصاویر بھی لگادی ہیں، اس حوالے سے ڈاکٹرسجادژوندون کاکہناتھا کہ شادی میاں بیوی کی رضامندی سے ہوتی ہیں، ایسا ہرگز نہیں کہ بیوی خاوند کی پراپرٹی ہوتی ہے، دعوت نامے پربیوی کانام لکھنے ورتصویرلگانے میں میری اہلیہ نائلہ کی مرضی شامل ہے۔

مہرمیں بیوی نے جوکتابیں مانگیں اور شوہر نے اسے خرید کردی ہیں ان کی تعدادڈھائی سے زیادہ ہے، ان کتابوں میں تاریخ، انگریزی، اردو اور پشتو لیٹریچر کے کتب شامل ہیں جونائلہ شمال صافی نے اپنے بیڈروم میں قائم لائبریری میں سجارکھی ہیں، دونوں کا فیصلہ ہے کہ یہ کتابیں علاقہ بھر کے تعلیم یافتہ نوجوانوں کومطالعہ کے لئے فراہم کی جائیں گی۔ نوجوان یہ کتابیں حاصل کرنے کے لئے ان کے گھر آسکتے ہیں اور ان کا مطالعہ کر کے استفادہ کر سکتے ہیں اور ضرورت پر وہ یہ کتابیں اپنے ساتھ لے جا سکتے ہیں جو پڑھنے کے بعد واپس کریں گے۔

یہاں یہ بات بھی قابل ذکرہے کہ ان میں میاں بیوی کی جانب سے ادب پر لکھی گئیں کتابیں بھی شامل ہیں۔ اس شادی نے جہاں اس تاثر کو رد کیا کہ کتابوں کے چاہنے والے نہیں ہیں وہاں اس سے یہ پیغام بھی جاتا ہے کہ کتاب سے محبت اب بھی ہے اور یہ محبت ختم نہیں ہوئی، اس جوڑے کے حق مہر کو لے کر سوشل میڈیا پر بہت سے قارئین نے اس قدم کو سراہا ہے۔

ظاہر یوسفزئی
Latest posts by ظاہر یوسفزئی (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments