کشمیر کا تنازع، حقائق کی روشنی میں(قسط 4)


شیخ عبداللہ کا، جواہر لعل نہرو سے ملاقات سے پہلے، پریم ناتھ بزاز سے میل جول بڑھ چکا تھا۔ پریم ناتھ بزاز، شیخ عبداللہ کے ہم عمر کشمیری پنڈت اور بڑے معاملہ فہم ہندو برہمن تھے۔ گریجویٹ تھے اور شیخ عبداللہ کی طرح وہ بھی سیاسی افق پر نئے نئے نمودار ہوئے تھے۔ گلینسی کمیشن کے ممبر رہے تھے اور اس کمیشن کی سفارشات مرتب کرنے میں ان کا بڑا ہاتھ تھا۔ وہ ہندوانہ تعصب سے مبرا، مسلمانوں کے جائز مطالبات کے حق میں تھے، لہٰذا مسلمان ان سے خوش اور ان کی اپنی پنڈت برادری ان سے نالاں تھی۔

وہ غیر مذہبی بنیادوں پر سیاست اور کشمیریوں کے بلا تفریق نسل و مذہب، حقوق اور کشمیر کی آزادی کے علم بردار تھے۔ بزاز کے نزدیک کشمیریوں کا اصل مسئلہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان مذہبی تعصب یا منافرت نہیں بلکہ یہ ظالم و مظلوم، حاکم و محکوم اور مال دار و محروم کے درمیان اختیارات سے تجاوز، عدم انصاف اور سلب حقوق کا معاملہ ہے۔ بزاز شیخ عبداللہ، مولانا محمد سعید اور بخشی غلام محمد کو 1932ء میں اپنے خیالات کا ہمنوا بنا چکے تھے۔

وہ شیخ عبداللہ کو اس بات پر پوری طرح قائل کر چکے تھے کہ ریاست کی سیاست یا آزادی کی تحریک غیر مذہبی، ترقی پسندانہ رجحان اور جمہوری بنیادوں پر استوار ہونی چاہیے۔ چناں چہ شیخ عبداللہ 1932ء سے ہی یہ سوچنا شروع ہو گئے تھے کہ انہیں صرف مسلمانوں کا ہی ترجمان نہیں ہونا چاہیے بلکہ اپنی سیاست کا دائرہ کار وسیع کرتے ہوتے ریاست کے ہر طبقہ کی ترجمانی کرنی چاہیے۔ یہ ان کے نزدیک صحت مندانہ سوچ تھی۔ مسلم لیگ ان دنوں موجود تو تھی مگر کانگریس کے مقابلے میں کہیں ناتواں تھی۔

محمد علی جناح مسلم لیگ کی کارکردگی سے بد دل ہو کر برطانیہ میں بیٹھ رہے تھے۔ انہیں 1934ء میں ہندوستان میں واپس آ کر، قائداعظم بننے کے لئے ابھی چار سال کا عرصہ درکار تھا۔ ایسے میں کشمیر کے ایک مسلم سیاسی رہنما شیخ عبداللہ کا جواہر لعل نہرو سے 1934ء میں ملاقات کرنا اچنبھے کی بات نہیں لگتی۔ لیکن اس ملاقات نے آگے چل کر ریاست کے مستقبل پر انمٹ نقوش چھوڑے اور اسے ہمیشہ کے لئے مخدوش بنانے میں خاصا کردار ادا کیا۔

شیخ عبداللہ، پریم ناتھ بزاز کے ساتھ مل کرایک حکمت عملی ترتیب دے چکے تھے، اب اسے بروئے کار لانے کا مرحلہ تھا۔ ریاست کے سیاسی حالات، پے درپے واقعات کی وجہ سے 1931ء سے غیر یقینی چلے آرہے تھے۔ مسلمان چوں کہ عدم تحفظ کا شکار تھے اور ان میں مذہب کے حوالے سے حساسیت زیادہ تھی، اس لئے شیخ عبداللہ کے لئے عوامی اجتماعات میں اپنے تبدیل شدہ خیالات کا اظہار مشکل ہو رہا تھا۔ 1935ء میں پریم ناتھ بزاز نے شیخ عبداللہ کی حمایت اور تعاون سے ایک ہفتہ وار جریدے ’ہمدرد‘ کا اجراء کیا۔

یہ رسالہ ہندو مسلم، دونوں، کے جمہوری حقوق کا پاس دار تھا۔ اس میں بڑی باقاعدگی سے دونوں قوموں کے مل کر آزادی کی جدوجہد کرنے اور اس کے فوائد و ثمرات پر مدلل مضامین چھپنے لگے۔ شیخ عبداللہ نے بھی برسر عام، ہندو مسلم اتحاد کی بات کرنے لگ پڑے۔ الغرض ’ہمدرد‘ نے مسلم کانفرنس کو نیشنل کانفرنس میں تبدیل کرنے کی راہیں ہموار کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا (یوسف صراف۔ کشمیریز فائٹ فار فریڈم

چوہدری غلام عباس ایک مسلم سیاسی جماعت کو سیکولر جماعت میں تبدیل کرنے کے حق میں نہیں تھے۔ ان کا استدلال تھا کہ ایک طرف ہم ان قوانین کے خاتمے کا مطالبہ کرتے ہی جن کی رو سے ریاست میں گائے کے ذبیحہ پر پابندی ہے اور ایک ہندو کے مسلمان ہونے پر اسے اپنی جائیداد سے محروم کر دیا جاتا ہے اور دوسری طرف اسی ہندو کے ساتھ، جو انہی قوانین کے نفاذ پر مطمئن اور تسلسل پر بضد ہے، کے ساتھ ایک ہی سٹیج پر جمع ہو کر باہمی حقوق کی بات کریں۔ کیا ایسا کرنے سے ہم ظاہری تضاد کے مرتکب نہیں ہوں گے، کیا ہمارے مطالبات کو زک نہیں پہنچے گی اور وہ کہیں پس منظر میں نہیں چلے جائیں گی؟

ان تحفظات کے باوجود، مسلمانوں میں ہم آہنگی اور یگانگت برقرار رکھنے کے لئے، چوہدری غلام عباس کے سبھی ساتھی سوائے چوہدری حمیداللہ کے، مسلم کانفرنس کو نیشنل کانفرنس میں تبدیل کرنے پر راضی ہو گئے۔ چناں چہ یہ کام مسلم کانفرنس کی جنرل کونسل کے 10 جون 1939ء کے اجلاس، منعقدہ سری نگر، میں انجام پا گیا۔ اب شیخ عبداللہ اپنے تئیں پوری ریاست جموں و کشمیر کے رہنما بن گئے تھے۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ ڈوگرہ اور خالصہ راج سے قبل ریاست میں ہندو اور مسلمان امن سے رہتے چلے آرہے تھے۔ ان میں مذہبی منافرت نہ ہونے کے برابر تھی۔ اگر تھی بھی تو بیرونی تسلط کی وجہ سے کہیں پس منظر میں چلی گئی تھی۔ بیرونی تسلط کے خلاف دونوں کے احساسات ایک جیسے تھے۔ دونوں ہی اپنے بنیادی حقوق کی بحالی اور جبری تسلط سے رہائی چاہتے تھے۔ یعنی دونوں کے مفادات قدرے مشترک اور ایک دوسرے سے متصادم نہیں تھے۔ لیکن خالصہ راج میں جب مسلمانوں کے مذہبی مقامات کو تالہ بند کیا گیا اور ان کے مذہبی معاملات میں مداخلت کی گئی تو یہاں سے مسلمانوں اور ہندوؤں کے مفادات میں تفاوت سامنے آنا شروع ہو گیا۔

ڈوگرہ راج میں تو ہندو اقلیت ایک غالب قوت تھی۔ اب ان کے مفادات کی راہیں مسلمانوں کے مفادات سے الگ ہی نہیں ہوئیں بلکہ ان میں ٹکراؤ کی صورت پیدا ہو گئی۔ مسلمانوں کے بنیادی حقوق کی بحالی سے ہندوؤں کی مراعات پر زد پڑتی تھی۔ جو ان کے لئے قابل قبول نہیں تھی۔ گائے کے ذبیحہ پر پابندی اور اس پر سزا، ہندو دھرم کی پاس داری تو ہو سکتی ہے لیکن یہ قانون مسلمان اکثریت کے لئے بیزاری، دل آزاری اور لاچاری کا باعث تھی۔

اسی طرح کسی ہندو کا اپنا مذہب چھوڑ کے اسلام میں داخل ہونے پر اپنی جائیداد سے محروم ہو جانا، ہندوؤں کے لئے باعث تسکین ہو سکتا ہے لیکن کسی مسلمان کے لئے نہیں۔ مسلمانوں کی مساجد اور خانقاہوں کو ریاست کا اپنی تحویل میں لے کر انہیں مقفل کر دینا اور مسلمانوں کے مذہبی معاملات میں مداخلت، مسلمانوں کے لئے باعث تشویش بات تھی۔ یہ معاملات ہندوؤں کے لئے اگر باعث اطمنان نہیں بھی تھے، تب بھی ان کی طرف سے ان معاملات پر کسی ردعمل کا سامنے نہ آنا حکمرانوں کے ہاتھ مضبوط کرنے کے مترادف تھا۔

ڈوگرہ راج کے آغاز 1846ء سے 1931ء تک مسلمانوں کا ہندو اقلیت سے مصالحانہ رویہ، ہندو اقلیت کے جذبہ خیر سگالی یا ان کے حسن سلوک کی وجہ سے نہیں تھا۔ مسلمان، ہندو حاکموں کے جبر اور انہی کی شہ پر ہندو اقلیت کے غلبے اور ان کی چیرہ دستیوں اور اپنے حقوق کی پامالی پر بے بس تھے اور خاموشی اختیار کرنے کے علاوہ ان کے لئے اور کوئی چارہ کار نہیں تھا۔ یہ صورت حال ہندو حاکم اور اقلیت، دونوں کے لئے اطمینان بخش تھی۔ 1931ء میں سری نگر میں 22 مسلمانوں کے قتل پر جب مسلمان سراپا احتجاج تھے تو سری نگر اور جموں میں ہندوؤں نے اپنی ہندو سرکار کی حمایت میں اور مسلمانوں کے خلاف مظاہرے کیے تھے۔

ان مظاہروں میں مزید کچھ مسلمان، ہندوؤں کے ہاتھوں اپنی جان گنوا بیٹھے تھے۔ اسی طرح گلینسی کمیشن کی سفارشات سامنے آنے پر سری نگر میں ہندوؤں نے شدید احتجاج کیا تھا اور اس تحریک کو ’روٹی‘ احتجاج کا نام دیا تھا۔ گویا وادی میں 95 فی صد مسلمانوں کے حقوق کی بحالی کی سفارشات، 5 فی صد ہندوؤں کی روزی پر لات مارنے کے مترادف تھی۔ اگر گلینسی کمیشن کی سفارشات پر نظر ڈالی جائے تو ان سفارشات میں، جن میں مسلمانوں کے حقوق کی بحالی کی بات کی گئی ہے، ہندوؤں کے خلاف کوئی بات نظر نہیں آتی:

گلینسی کمیشن کی سفارشات

1۔ مسلمانوں کے مقدس مقامات، خانقاہ سوختہ (نوا کدل) ، خانقاہ بلبل شاہ، خانقاہ دارا شکوہ (سری نگر) ، مال شاہی باغ (گاندربل)، خانقاہ صوفی شاہ (جموں ) ، باہو مسجد، باہو (جموں ) اور سری نگر عید گاہ، مسلمانوں کی تحویل میں واپس دی جائیں۔

2۔ ہر شخص کو اپنے مذہبی شعائر کو ادا کرنے کی پوری آزادی ہونی چاہیے۔

3۔ وہ زمینیں، جن کے مالکانہ حقوق ریاست نے وادی کشمیر اور تحصیل میرپور میں اپنے پاس رکھے ہوئے ہیں، ان پٹہ داروں کے، یہ جن کے تصرف میں ہیں، حوالے کیے جائیں۔

4۔ مسلمانوں کی تعلیم کے لئے لئے ایک مسلمان انسپکٹر مقرر کیا جائے اور ’مسٹرشارپ‘ کی سفارشات کو مدنظر رکھتے ہوئے مسلمان اساتذہ کی تعداد بڑھائی جائے۔

5۔ سبھی مذاہب کے لوگوں کو منصفانہ طور پر سرکاری ملازمتوں میں حصہ دیا جائے۔ ملازمتوں کو مشتہر کیا جائے۔ کسی مقامی ضلعی سطح پر اسی ضلع کے لوگوں کو تعینات کیا جائے۔

6۔ چرائی (جانوروں کو قدرتی چراگاہوں میں چرانے کا) ٹیکس، کچھ علاقوں میں بالکل ختم کیا جائے اور کچھ علاقوں اس کی شرائط نرم کی جائیں۔

7۔ تحصیل میرپور میں وہ زمین جو قابل کاشت بنائی گئی ہے، اس پر واجب الادا مالیہ ختم کیا جائے۔
8۔ کسانوں کے حقوق، دوسرے شعبوں کے لوگوں کو دی گئی مراعات کی وجہ سے کم نہیں ہونے چاہیں۔

9۔ (ٹیکسوں کی مد میں ) غیر قانونی جبری وصولیاں ختم کی جائیں۔ اختیارات کی مرکزیت ختم کی جائے تاکہ وزراء اور مختلف شعبوں کے سربراہ اپنے فرائض بطریق احسن انجام دے سکیں۔

10۔ ریاستی کام کے لئے بے گار میں پکڑے گئے لوگوں کو ان کے کام کا مناسب معاوضہ دیا جائے۔

11۔ دیہاتیوں کو جنگلوں کی قدرتی مراعات، از قسم سوختنی اور عمارتی لکڑی سے، فوائد حاصل کرنے کی اجازت ہونی چاہیے۔

12۔ صنعتوں کی ترقی کے لئے حکومت کی فوری توجہ کی ضرورت ہے۔
اس کے علاوہ کمیشن نے شادی ٹیکس، گوشت کے ناغوں میں کمی اور کچھ دوسری معمولی اصلاحات کی سفارش کی۔

لیکن اس کے باوجود وادی کے پنڈتوں نے احتجاج کیا اور ایک مضحکہ خیز اور بے بنیاد مطالبہ بھی داغ دیا کہ سری نگر کی ’خانقاہ معلیٰ‘ پہلے ہندوؤں کا ’کالی مندر‘ تھا، جس پر مسلمانوں نے قبضہ کر لیا ہے۔ اسے واگزار کرا کے، ہندوؤں کے حوالے کیا جائے۔ اور تو اور انہوں نے اپنے ہی ہم مذہب اور ہم ذات پنڈت پریم ناتھ بزاز، جنہوں نے گلینسی کمیشن کے ممبر ہونے کے باوصف مسلمانوں کے حقوق کی حمایت کی تھی، کا ان کے اپنے علاقے میں جینا دو بھر کر دیا۔

آخر کار انہیں اپنا آبائی گھر چھوڑ کر مسلمانوں کے محلے میں آباد ہونا پڑا۔ اس احتجاج سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ مسلمانوں کے حقوق اور ہندوؤں کی مراعات ایک دوسرے کی ضد تھیں۔ وادی کے ہندو ( برہمن پنڈت) ، خالصہ راج میں بالعموم اور ڈوگرہ راج کے دوران بالخصوص، پچھلی ایک صدی سے، حکمرانوں کا ہم مذہب اور تعلیم یافتہ ہونے اور اپنی چالاکی، ہوشیاری اور عیاری کے طفیل وادی میں ریاستی انتظامی محکموں میں اعلی و ادنیٰ سبھی عہدوں پر قابض تھے۔

ان کا مسلمانوں کے حقوق پر اشتراک تبھی ممکن ہو سکتا تھا کہ وہ مسلمانوں کی عددی اکثریت کو تسلیم کرتے ہوئے، جن عہدوں پر وہ خود قبضہ جمائے بیٹھے تھے، ان پر مسلمانوں کے حق کو فوقیت دیتے۔ وہ یہ کرنے کو تیار نہیں تھے۔ صوبہ جموں میں ہندو اقلیت 38 فی صد تھی۔ اگر وادی میں 5 فی صد ہندو، 95 فی صد مسلمانوں پر غالب تھے تو اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ جموں کے ہندو، جو ویسے ہی مہا سبھائی اور جن سنگھی ذہنیت کے مالک تھے اور جنہیں اپنے ہندو مہاراجہ کی سرپرستی حاصل تھی، مسلمانوں کے حقوق کے کیوں کر اور کس قدر خواہاں ہو سکتے تھے۔

مسلمان تو ڈوگرہ راج کے ظلم اور جبر و تشدد سے نجات اور اپنے جمہوری حقوق کی جنگ لڑ رہے تھے۔ انگریز ریاست کے معاملات میں اس قدر دخیل نہیں تھے کہ ان کے خلاف کوئی آواز اٹھائی جاتی۔ ان حالات میں مسلمانوں اور ہندوؤں کے حقوق کے لئے نیشنل کانفرنس کی صورت میں ایک مشترکہ پلیٹ فارم کا ظہور، بظاہر تو پر کشش لگتا ہے لیکن عملاً اس کی افادیت نہ ہونے کے برابر تھی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پریم ناتھ بزاز کی سیاست نیک نیتی اور حق گوئی پر مبنی تھی جس پر وہ خراج تحسین کے مستحق ہیں۔

انہوں نے ہی کشمیریوں کو یہ نعرہ ’کشمیر کشمیریوں کا ہے‘ دیا تھا۔ کشمیریوں کے جمہوری حقوق کے حصول میں ان کی حق گوئی و بے باکی پر انہیں اپنی برہمن برادری کی لعن طعن ہی براداشت نہیں کرنا پڑی، شیخ عبداللہ بھی ریاست کا وزیراعظم بننے کے بعد ، ان پر کوئی زیادہ مہربان نہیں رہے تھے اور آخر کار انہیں ریاست بدر کر دیا گیا تھا۔

مسلم کانفرنس کے نیشنل کانفرنس بن جانے کے بعد گنتی کے چند ہندوؤں ہی نے نیشل کانفرنس میں شمولیت اختیار کی۔ ان میں قابل ذکر نام ’سردار بدھ سنگھ ،  پنڈت جیا لال کلام، لالہ گردھاری لال ڈوگرہ، پنڈت کیشپ بندھو اور پنڈت پریم ناتھ بزاز کے تھے۔ شیخ عبداللہ کے جواہر لعل نہرو کے ساتھ گہرے تعلقات ہونے، نہرو کے مئی 1940ء میں جموں و کشمیر کا دس روزہ دورہ کرنے اور ہندوؤں کو نیشل کانفرنس میں شمولیت کی ترغیب دینے کے باوجود، ہندوؤں نے وادی اور جموں میں نہ تو اپنی فرقہ ورانہ پارٹیاں ختم کیں اور نہ ہی نیشنل کانفرنس میں شمولیت اختیار کی۔

پنڈت جیا لال کلام اور پنڈت کیشپ بندھو تو جماعت کی پہلی سالگرہ آنے سے پہلے ہی، اپریل 1940ء میں محض اس لئے جماعت چھوڑ گئے کہ شیخ عبداللہ نے ایک اجلاس میں یہ کہہ دیا تھا کہ میں اول و آخر مسلمان ہوں۔ چوہدری غلام عباس بھی نہرو کے دورہ کے بعد نیشنل کانفرنس سے الگ ہو گئے۔ اکتوبر 1940ء میں کچھ سیاسی کارکنوں نے مسلم کانفرنس کے احیاء کا اعلان کر دیا۔ چوہدری غلام عباس بھی دو سال کی خاموشی کے بعد 1942ء میں مسلم کانفرنس میں پھر سے فعال ہو گئے۔

نیشنل کانفرنس کے حوالے سے ہندوؤں کا رویہ دیکھ کر، شیخ عبداللہ پر سے بھی متحدہ قومیت اور سیکولرم کا طلسم ٹوٹنا شروع ہو گیا۔ انہوں نے 28 جولائی 1941ء میں سری نگر میں ایک عوامی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے برملا کہہ دیا کہ ایسی ریاست، جس میں پنڈت (ہندو) دریائے جہلم کے کنارے مسلمانوں کے ایک غسل خانہ بنانے کو برداشت نہیں کر سکتے، وہاں متحدہ قومیت کے پرچار کا کوئی فائدہ نہیں۔ وہ لوگ جو مسلمانوں کے دریائے جہلم کے کنارے منہ ہاتھ دھونے کو بھی گوارا نہیں کرتے، وہ ہمارے ساتھ کیوں کر متحد ہو سکتے ہیں؟

(یوسف صراف۔ کشمیریز فائٹ فار فریڈم)

اسی دوران ریاست جموں و کشمیر میں صدیوں سے رائج فارسی (عربی) رسم الخط کو تبدیل کر کے سنسکرت کا دیوناگری (ہندی) رسم الخط رائج کرنے کی کوشش کی گئی۔ ۔ ۔ ۔ نیشنل کانفرنس کی ورکنگ کمیٹی کے مسلمان ممبر، ہندی رسم الخط کے حق میں نہیں تھے، چنانچہ انہوں نے رسم الخط میں تبدیلی کو ماننے سے انکار کرتے ہوئے، اسے شر انگیز اور کشمیری قوم سے دشمنی قرار دیا اور حکومت کے اس اقدام کی پر زور الفاظ میں مذمت کی۔

پریم ناتھ بزاز چاہتے تھے کہ حکومت سے یہ مطالبہ کیا جائے کہ ہندی اور عربی دونوں رسم الخطوط کا سیکھنا مسلمان اور ہندو طلباء کے لئے لازمی قرار دیا جائے۔ ورکنگ کمیٹی نے ان کا مشورہ ماننے سے انکار کر دیا۔ پریم ناتھ بزاز نے ورکنگ کمیٹی سے استعفے ٰ دے دیا۔ شیخ عبد اللہ کے تعلقات پریم ناتھ بزاز سے ان کے مشترکہ جریدے ’ہمدرد‘ کے معاملے میں بھی کشیدہ ہو گئے، چناں چہ کمیٹی کے اگلے اجلاس، منعقدہ جنوری 1941ء میں ان کا استعفا منظور کر لیا گیا۔

یہی معاملہ نیشنل کانفرنس کی جنرل کونسل کے اجلاس منعقدہ سری نگر، 25 مئی 1941ء میں پھر زیر بحث آیا۔ کونسل نے پھر حکومت کے اس اقدام کی مذمت کر تے ہوئے، اس فیصلے کو واپس لینے کا مطالبہ کیا۔ پنڈت پریم ناتھ بزاز نے اس قرارداد کی مخالفت کی جب کہ ایک اور پنڈت نے قرارداد میں ترمیم پیش کرتے ہوئے اس معاملے کو آل انڈیا کانگریس کے رہنماؤں کے پاس بھیجنے کا مشورہ دیا تاکہ ان سے رائے لی جا سکے۔ شیخ عبداللہ نے اس مشورے کی سخت مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ آل انڈیا کانگریس ہندوستانیوں کی جماعت نہیں بلکہ یہ سمپورن آنندوں اور پیارے لالوں کی کانگریس ہے۔ ( سمپورن آنند سنسکرت اور ہندی کا عالم، محقق اور متعصب ہندو سیاست دان اور پیارے لال، کرم چند گاندھی کا پرائیویٹ سیکریٹری تھا ) ۔ عبداللہ نے اپنی تقریر جاری رکھتے ہوئے کہا ’گاندھی جی ہمیشہ وہ نہیں کہتے جسے وہ صحیح سمجھتے ہیں، انہوں نے ہزار بار غلط فیصلے کیے ہیں۔ ہندو اگر انہیں مہاتما سمجھتے ہیں تو سمجھتے رہیں، لیکن میں ایسا کرنے کو تیار نہیں۔ ماضی میں انہوں نے سینکڑوں غلطیاں کی ہیں۔ ان کا ہر کام خود اپنے قول کے برعکس ہوتا ہے۔ ہندوستان میں (مسلم ہندو) فرقہ واریت انہی کی پیدا کردہ ہے۔ انہوں نے ہی برصغیر کی سیاست کو زہر آلود کیا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ قصور مسلمانوں کا نہیں بلکہ خود گاندھی جی کا ہے، جن کا رویہ مسلمانوں کے ساتھ نہایت غیر منصفانہ ہے۔ مجھے علم ہے کہ کانگریس اس وقت ہندوؤں کے ہاتھ میں ہے۔ یہ کانگریس، دراصل انتہائی متعصب اور جنونی ہندوؤں، سمپورن آنند اور پیارے لال کی کانگریس ہے۔ (ہفتہ وار الاصلاح۔ شمارہ جون 1941ء)

پریم ناتھ بزاز شیخ عبداللہ کی تقریر کے دوران کونسل کے اجلاس سے، احتجاجاً اٹھ کر چلے گئے۔

ان واقعات سے یہ نتیجہ اخذ کرنا چنداں مشکل نہیں کہ ریاست کشمیر میں مسلمانوں کے جمہوری حقوق کا تحفظ صرف اس صورت میں ممکن ہو سکتا تھا کہ ہندو اقلیت کی بالا دستی کو قبو ل کیا جائے اور اسے برقرار رکھا جائے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب شیخ عبداللہ اس حقیقت سے آگاہ تھے کہ ریاست کی سیاست میں ان کا وصال صنم کا خواب پورا نہیں ہو سکے گا تو وہ پریم ناتھ بزاز اور جواہر لعل نہرو کے بھرے میں آ کر خدا کو ہی کیوں چھوڑ بیٹھے؟

جاری ہے۔۔۔۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments