کیا عمران حکومت پٹرول پر نواز شریف حکومت سے زیادہ مارجن لے رہی ہے؟


کیا نواز حکومت فی لیٹر پٹرول پر عمران حکومت کے مقابلے میں عوام سے زیادہ پیسے لیتی تھی؟

پیمرا کا 22 مارچ کو نیوز میڈیا کو لکھا گیا ایک خط سامنے آیا ہے جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ حکومت بہت سے ملکوں کے مقابلے میں پٹرول بہت ارزاں نرخوں پر فراہم کرتی ہے اور میڈیا کو کہا گیا ہے کہ وہ ایک کمپین لانچ کرے جس میں وہ عوام کو پٹرول کی قیمت کے تعین کے بارے میں حقیقی اعداد و شمار سے آگاہ کرے اور انہیں پٹرول کی قیمت میں متوقع اضافے کے لیے تیار کرے۔

پیمرا کی اس اپیل پر ہم رضاکارانہ طور پر ان حقیقی اعداد و شمار پر روشنی ڈالتے ہیں۔ پچھلے دنوں سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ بہت چلی تھی جس میں مسلم لیگ نواز کے دور کی قیمتوں کا تحریک انصاف کی قیمتوں سے تقابل کیا گیا تھا۔ اس چارٹ سے صاف ظاہر تھا کہ نواز شریف کے زمانے میں پٹرول تقریباً ایک ڈالر فی لیٹر کی قیمت پر پاکستان میں فراہم کیا جا رہا تھا لیکن تحریک انصاف کی حکومت میں اس کی قیمت تقریباً اڑسٹھ سینٹ کے لگ بھگ ہے۔ لیکن کیا یہ اعداد و شمار درست ہیں یا کچھ چھپایا گیا ہے؟

پہلی نمایاں بات یہ ہے کہ مسلم لیگ نواز کی حکومت 31 مئی 2018 تک رہی جب کہ اس چارٹ میں صرف جون 2013 سے فروری 2014 تک کی قیمتیں دکھائی گئی ہیں۔ پاکستان سٹیٹ آئل کی ویب سائٹ کے مطابق مسلم لیگ نواز کی حکومت کے آخری مہینے یعنی مئی 2018 میں پٹرول کی قیمت تقریباً 76 سینٹ تھی۔

اچھا اب تقابل کیسے کریں؟ پٹرول کی قیمت اس وقت کے ایکسچینج ریٹ سے ڈالر میں تبدیل کر کے ایک کام تو ٹھیک ہو گیا۔ لیکن حکومت ایک لیٹر پر اوپر کتنے فیصد چارجز زیادہ لے رہی ہے؟ اس کا تعین کیسے کریں؟

ایسا کرنے کے لیے ان ہی تاریخوں میں خام تیل کی قیمت دیکھ لیتے ہیں کہ فی بیرل خام تیل کتنے کا تھا۔ یہ بات یاد رہے کہ خام تیل کو ریفائنری سے گزار کر پٹرول، ڈیزل اور مٹی کا تیل وغیرہ بنایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ تیل کی قیمت میں دوسرے عنصر بھی شامل ہوتے ہیں جیسے درآمد کرنے کا خرچہ، بینک چارجز، انشورنس، سٹوریج چارجز، آئل مارکیٹنگ کمپنی کا مارجن، پٹرول پمپ والے کا منافع اور مختلف اقسام کے ٹیکس وغیرہ۔

لیکن بہرحال خواہ خام تیل اور ریفائنڈ پٹرول کی قیمت کچھ بھی ہو، یہ سب خرچے یکساں شرح سے لاگو ہوتے ہیں۔ اس لیے تقابل کے لیے ہم فی بیرل خام تیل کی قیمت کو پیمانے کے طور پر استعمال کر سکتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ ایک لیٹر خام تیل کے اوپر ریفائنڈ تیل پر فی لیٹر کتنا مارجن لیا جا رہا تھا۔ دوبارہ یاد رہے کہ خام تیل کی قیمت کو صرف مارجن کا اندازہ لگانے کے لیے پیمانے کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے اور اس سے مختلف قیمتوں والی پراڈکٹس تیار کی جاتی ہیں۔

ہمارے جائزے میں خام تیل کی قیمت کے اعداد و شمار ویسٹ ٹیکساس انڈیکس سے لیے گئے ہیں اور پرچون پٹرول کی قیمت پاکستان سٹیٹ آئل سے لی گئی ہے۔

ایک بیرل میں تقریباً 159 لیٹر خام تیل ہوتا ہے۔

اکتوبر 2013 میں مقامی مارکیٹ میں پٹرول کی پرچون قیمت ایک ڈالر 7 سینٹ تھی۔ خام تیل کی قیمت اس وقت 103 ڈالر 74 سینٹ فی بیرل تھی، جس کا مطلب ہے کہ فی لیٹر خام تیل اس وقت 65 سینٹ کا تھا۔ یعنی حکومت ایک لیٹر پر 41 اعشاریہ 80 سینٹ اوپر لے رہی تھی جو چونسٹھ فیصد بنتا ہے۔ سنہ 2018 تک فی لیٹر مارجن کی شرح 64 سے 80 سینٹ کے درمیان رہی۔

جبکہ تحریک انصاف کی حکومت میں جنوری 2021 سے مارچ 2021 تک پٹرول کی پرچون قیمت تقریباً ستر سینٹ کے آس پاس رہی جو مسلم لیگ نون کے ایک ڈالر کی قیمت سے کم ہے۔ جنوری 2021 میں تحریک انصاف کی حکومت نے فی لیٹر 127 اور 106 فیصد مارجن لیا، فروری میں یہ شرح 108 اور 85 فیصد رہی، اور مارچ میں 86 فیصد۔

یعنی اس شرح کے مطابق تحریک انصاف کی حکومت کو عالمی منڈی میں تیل جتنے کا دستیاب تھا، اس کے مطابق اس نے مسلم لیگ نون کی حکومت کے مقابلے میں زیادہ مہنگا بیچا۔ لیکن کیا یہ حقیقت ہے یا ہمیں اعداد و شمار کے گورکھ دھندے میں الجھا کر بے وقوف بنایا جا رہا ہے؟

کیا آپ نے نوٹ کیا ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت کے ان اعداد و شمار میں اگست 2018 سے لے کر دسمبر 2020 تک کا ڈیٹا غائب ہے؟ آئیے صرف 2020 کے اس چشم کشا ڈیٹا پر ہی نظر ڈالتے ہیں جس کے مطابق تحریک انصاف کی حکومت نے خام تیل پر 363 فیصد تک کا مارجن لیا۔

جنوری 2020 میں عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمت 61 اعشاریہ 18 ڈالر فی بیرل یعنی 38 سینٹ فی لیٹر تھی۔ مقامی پٹرول کی قیمت اس وقت 76 سینٹ تھی۔ یعنی حکومت کو خام تیل 38 سینٹ میں پڑ رہا تھا اور اس پر 37 سینٹ اوپر لیے جا رہے تھے اور یوں 96 فیصد مارجن تھا۔

فروری میں خام تیل 32 سینٹ فی لیٹر تھا جس پر مارجن 45 سینٹ یعنی 142 فیصد تھا۔ مارچ میں خام تیل کی قیمت 29 سینٹ فی لیٹر تھی اور اوپر 149 فیصد لیا جا رہا تھا۔

25 مارچ ایک دلچسپ دن ہے۔ اس وقت مقامی مارکیٹ میں ریفائنڈ پٹرول جنوری 2020 کے 76 سینٹ سے سستا ہو کر 61 سینٹ فروخت ہو رہا تھا۔ لیکن عالمی منڈی میں اس خام تیل کی قیمت صرف 15 سینٹ فی لیٹر تھی یعنی مارجن 297 فیصد تک پہنچ گیا تھا۔

یکم اپریل کو مقامی مارکیٹ میں پٹرول کی قیمت 59 سینٹ تھی، عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمت 13 سینٹ فی لیٹر تھی، اور مارجن کی شرح 363 فیصد ہو گئی جو مئی میں 315 فیصد رہی۔

آخر جون میں مقامی مارکیٹ میں مارجن کی شرح 107 فیصد کرتے ہوئے پٹرول کی قیمت 74 روپے 52 پیسے کر دی گئی جو تقریباً 46 سینٹ بنتے ہیں لیکن مارکیٹنگ کمپنیوں کو کنٹرول نہ کیا گیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ملک میں 25 دن کے لیے پٹرول کی شدید قلت پیدا ہو گئی۔ آخر کار حکومت نے آئل کمپنیوں کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے اور 26 جون کو پٹرول کی قیمت 60 سینٹ کر دی گئی۔ یوں مارجن کی شرح 107 سے بڑھ کر 149 فیصد ہو گئی۔

نومبر 2020 میں پٹرول پر مارجن کی شرح 178 فیصد رہی۔

ان حقیقی اعداد و شمار سے ظاہر ہے کہ مسلم لیگ نون کی حکومت پٹرول پر ستر سے اسی فیصد کی شرح سے مارجن لے رہی تھی جو تحریک انصاف کی حکومت کے زمانے میں ایک وقت پر 363 فیصد تک جا پہنچا۔ اس وقت یہ مارجن 86 فیصد ہے جو بڑھانے کی تیاری کی جا رہی ہے۔

دوبارہ یاد رہے کہ خام تیل کی قیمت کو صرف ایک پیمانے کے طور پر استعمال کیا گیا ہے تاکہ مارجن کی شرح کا ایک رف اندازہ لگایا جا سکے۔ آنے پائیوں کے حساب سے بالکل درست اعداد و شمار پاکستان میں تیل کے شعبے سے وابستہ کوئی ماہر ہی دے سکتا ہے۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments