اسلام آباد پولیس اور سیف سٹی پراجیکٹ


کسی بھی محکمے میں سب لوگ اچھے نہیں ہو سکتے اور کسی بھی محکمے میں سب لوگ برے نہیں ہو سکتے۔ پولیس کے محکمے کے لیے ہمارے عمومی خیالات اس سے متصادم ہیں۔ بدقسمتی سے پولیس کے بارے میں خیال آتے ہی لوگوں کے ذہنوں میں پہلا خیال رشوت کا آتا ہے، حفاظت کا تصور کم کم ہی ذہنوں میں در آتا ہے۔ پولیس کے ساتھ ہمارا یہ رویہ نیا نہیں مدتوں پرانا ہے۔ ایک خاص سوچ ہمارے ذہنوں میں بٹھائی گئی ہے کہ اس محکمے میں سب لوگ برے ہیں جو کہ ایک بہت غلط سوچ ہے، ایسا ممکن نہیں۔ اس محکمے میں بھی بہت قابل، لائق اور ایمان دار افسران اور جوان ہیں جن کی محنت اس منفی پراپیگنڈے کا شکار ہو جاتی ہیں۔

پولیس کا کام جرائم کی روک تھام تو ہے ہی مگر یہ فورس دہشت گردی کے خلاف جنگ میں نہایت کم وسائل کے باوجود بھی جانفشانی سے مقابلہ کرتی رہی مگر ان کی قربانیوں کا ذکر کم کم ہوتا ہے۔ مجھے یاد ہے لاہور موٹر وے ٹول پلازہ پر چند سال پہلے دہشت گردوں کو روکنے کی کوشش میں پولیس کے چند جوان شہید ہو گئے، پنجاب کے آئی جی وہاں تشریف لائے اور انہوں نے فرمایا کہ میں اور میری تمام سروس ان جوانوں کے جذبہ شہادت کے پاؤں کی خاک بھی نہیں۔ اس لمحے ہمیں احساس ہوا کہ یہ بڑے قیمتی لوگ ہیں لیکن ہم ان کو وہ عزت نہیں دے سکے جو ان کا حق ہے۔

اسی طرح کچھ عرصہ قبل جب ملک میں دہشت گردی اپنے عروج پر تھی، لاہور میں رات کے وقت ڈرائیو کرتے ہوئے مجھے ایک مدقوق سے پولیس والے نے روک لیا۔ اس نے ایک ٹوٹی ہوئی چارپائی کی مدد سے سڑک کو بلاک کر کے ناکہ لگایا ہوا تھا۔ ہاتھ میں اس کے ایک ٹارچ تھی جو اس کے پاس واحد ہتھیار تھا۔ اس سے تفصیلی بات ہوئی تو معلوم ہوا کہ اس ٹارچ کے سیل کے پیسے بھی وہ جیب سے ادا کرتا ہے، محکمہ اس کثیر بجٹ کا متحمل نہیں ہو سکتا۔

ہمارے عجیب و غریب رویے کی اور کیا مثال ہو سکتی ہے کہ ہم کسی سانحے میں شہید ہونے والے پولیس والوں کو ٹی وی پر شہید لکھنے سے اجتناب کرتے ہیں اور جان بحق کہہ کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔ ہمارا عمومی رویہ جو برسوں میں تشکیل پایا ہے اس میں بنیادی طور پر ان شہدا کی قربانیوں کی تضحیک محسوس ہوتی ہے جو کہ ان کی جانفشانی اور بہادری سے صریحاً نا انصافی ہے۔

اس محکمے کے مسائل بھی ہیں اور چند جاں لیوا دشواریاں بھی۔ بجٹ نہیں ملتا، مناسب ٹریننگ نہیں دی جاتی، میڈیا ان پر بہتان طرازی کرنے سے نہیں ہچکچاتا، عوام کے دل میں ان کے لیے احترام نہیں۔ ان کی قربانیوں کی اطلاع کسی کو نہیں ہوتی، کسی خرابی کا مبالغہ آمیز اشتہار ضرور لگا دیا جاتا ہے۔ ان کے حوالے سے بوسیدگی کا تصور ہمارے ذہنوں میں قائم ہے۔ ’ڈرائنگ روم کی سیر‘ وغیرہ ہی پولیس کی واحد کارروائی نہیں، یہ محکمہ اس کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے۔ اپنے فرائض کی ادائیگی کے دوران پولیس کو کسی دوسرے محکمے کی نسبت بیماریوں، حادثوں اور زخمی ہونے کا سب سے زیادہ خطرہ رہتا ہے۔ ہر ایسے مقام پر جہاں سے سب بھاگ جاتے ہیں، وہاں پولیس کی ڈیوٹی لگی ہوتی ہے۔

اسلام آباد کو سیف سٹی بنانے کا خیال پیپلز پارٹی کے دور میں آیا تھا۔ اسی خیال کے تحت پولیس کو جدید تکنیک سے آگاہ کرنے کے لیے ماڈرن ایکوپمنٹ اور ماڈرن ٹریننگ کی ضرورت پر زور دیا جاتا رہا ہے۔ اسلام آباد کی پولیس اسی لیے دوسرے علاقوں کی پولیس کی نسبت بہتر، مہذب اور مثبت رہی ہے۔

سیف سٹی پراجیکٹ کے تحت اسلام آباد میں قریباً دو ہزار کیمرے لگائے گئے، جن کی بدولت ایک آپریشن اینڈ مینٹننس ہال سے پورے شہر پر نظر رکھی جا سکتی ہے، گاڑیوں کی نمبر پلیٹ ٹریس کی جا سکتی ہے۔ جرائم کی شرح میں اس سے کمی آئی ہے اور پولیس کو اپنی کارکردگی بہتر بنانے کا موقع ملا ہے۔ کیمروں کی تعداد ابھی بہت کم ہے۔ ان کیمروں کی تعداد کو چار ہزار پانچ سو تک بڑھانے کی سفارشات پیش کی گئی ہیں، جس سے شہر محفوظ اور شہری محفوظ تر ہو سکیں گے۔ اس کوشش سے اسلام آباد سیف سٹی سے سمارٹ سٹی کی منزل پا سکتا ہے، جہاں جرائم پر الیکٹرانک طور پر نظر رکھی جا سکتی ہے اور برق رفتاری سے ان کا قلع قمع بھی ہو سکتا ہے۔

اگر کبھی آپ کو یہ آپریشن اینڈ مینٹننس ہال دیکھنے کا اتفاق ہو تو آپ کو احساس ہو گا کہ پولیس اب بہت ماڈرن ہو گئی ہے، بوسیدگی کا جو تصور ہمارے ذہنوں میں جاگزیں رہا ہے، وہ لمحوں میں ہوا ہو جاتا ہے۔ اس ہال کو دیکھ کر یہ احساس بھی ہوتا ہے کہ پولیس آج کے دور کی پولیس ہے اور جدید طریقہ تحقیق و تفتیش سے نہ صرف آگاہ ہے بلکہ جرائم کی روک تھام جدید خطوط پر کرنے کے لیے بھی کوشاں ہے۔

اس سیف سٹی پراجیکٹ کی وجہ سے جرائم میں نمایاں کمی آئی ہے۔ اب اس سیف سٹی پراجیکٹ کے کیمرے پولیس کی حوالات میں بھی لگے ہوئے ہیں کہ پولیس تشدد کی شکایات رفع کی جا سکیں اور ایسی صورت میں فوری کارروائی عمل میں آ سکے۔

اسلام آباد پولیس کے آئی جی قاضی جمیل الرحمان ان عوامی شکایات سے بہت اچھی طرح واقف ہیں جو صارفین کو پولیس ساتھ بات کرتے پیش آ سکتی ہیں۔ اسی لیے پولیس کے رویے کو بہتر بنانے کے لیے جدید ٹریننگ پولیس کے ہر جوان اور افسر کے لیے لازمی قرار دی گئی ہے۔ پولیس کی عمومی ٹریننگ کے سوا اب ان کو اپنے رویے کو بہتر بنانے کی ٹریننگ بھی دی جاتی ہے۔ اس سے سائل اور پولیس کے درمیان برسوں کی مخاصمت میں کمی آئے گی اور عوامی رویہ بھی پولیس کی جانب بہتر ہو گا۔

یہ درست ہے کہ اسلام آباد سیف سٹی کا پراجیکٹ سمارٹ سٹی کی طرف ایک خوش آئند قدم ہے لیکن پولیس کا اصل امتحان جرائم کی روک تھام ہے۔ ان جرائم میں واضح کمی ہی عوام کا اعتماد جیت سکتی ہے، پولیس کے بارے میں ان کے عمومی رویے کو تبدیل کر سکتی ہے۔ دوسری بات یہ ضروری ہے کہ چاہے کیمروں کی تعداد کم ہو یا زیادہ لیکن ان کیمروں کی کارکردگی پر سوال ضرور اٹھے گا جہاں صحافی اغوا ہوں گے، جہاں لکھنے والوں سے مار پیٹ ہو گی۔ اگر وہ کیمرے ہر بار بوجوہ خراب ہوں گے تو اعتماد قائم نہیں ہو گا۔

اسلام آباد پولیس اپنی بساط، بجٹ اور استطاعت سے بڑھ کر کام کر رہی ہے۔ اس پر صرف الزام لگانا مناسب نہیں، ان کا احترام بھی ضروری ہے۔

عمار مسعود

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عمار مسعود

عمار مسعود ۔ میڈیا کنسلٹنٹ ۔الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا کے ہر شعبے سےتعلق ۔ پہلے افسانہ لکھا اور پھر کالم کی طرف ا گئے۔ مزاح ایسا سرشت میں ہے کہ اپنی تحریر کو خود ہی سنجیدگی سے نہیں لیتے۔ مختلف ٹی وی چینلز پر میزبانی بھی کر چکے ہیں۔ کبھی کبھار ملنے پر دلچسپ آدمی ہیں۔

ammar has 265 posts and counting.See all posts by ammar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments