عورت مارچ پر دشنام طرازی کرنے والوں کا گربیان



گزشتہ برس کی طرح اس بار بھی عورت مارچ سے قبل ہی انتہائی دائیں بازو کی شدت پسند تنظیموں اور سیاسی جماعتوں کی طرف سے منفی پروپیگنڈا اور نفرت انگیز مہم شروع کر دی گئی جو کہ ابھی تک جاری ہے اور عورت مارچ کے منتظمین کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال دیا گیا ہے۔

گزشتہ برس اسلام آباد میں عورت آزادی مارچ پر پتھراؤ کیا گیا تھا، اب کی بار ایسا کرنا ممکن نہ ہو پایا اس لیے ویمن ڈیموکریٹک فرنٹ کے جھنڈے کو فرانس کا جھنڈا کہہ کر عورت مارچ کو متنازع بنانے کی کوشش کی گئی اور اس بنیاد پر توہین مذہب کے جھوٹے الزامات لگائے گئے اور شدت پسند عناصر کی جانب سے ریلیاں نکالی گئیں۔ اسی طرح لاہور میں ہونے والے مارچ میں بچوں کے جنسی استحصال کے حوالے سے ایک پوسٹر کو بنیاد بنا کر توہین مذہب کا الزام لگایا گیا اور کراچی کے عورت مارچ میں لگنے والے نعروں کی ایک ویڈیو میں ترمیم کر کے لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کی گئی کہ مذہبی شخصیات کے خلاف نعرے لگائے جا رہے ہیں۔

عورت آزادی مارچ خواتین کے حقوق کی تحریک ہے جو پدرشاہی و سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے، معاشرے میں خواتین کے برابر سیاسی سماجی حقوق کی بات کرتی ہے، جنس کی بنیاد پر امتیازی سلوک اور عورتوں کے خلاف منظم جرائم جیسے غیرت کے نام پر قتل، ریپ، چھوٹی عمر میں شادیاں، عوامی مقامات پر ہراساں کیے جانے اور گھریلو تشدد کے خاتمے کی بات کرتی ہے لیکن شروع دن سے ہی اس مارچ کی مخالفت کبھی مذہب اور کبھی فرسودہ معاشرتی اقدار کو بنیاد بنا کر کی جا رہی ہے، کہا جاتا ہے کہ عورت مارچ سے بے حیائی کو فروغ دیا جا رہا ہے یہ غیر ملکی سازش ہے خاندانی نظام کو تباہ کرنے کے لیے۔

جس نام نہاد خاندانی نظام کی بات کی جاتی ہے، اس میں عورتوں کا جنسی استحصال خاندان کے افراد ہی کرتے ہیں۔ بہت سے ایسے واقعات سامنے آتے ہیں جب بھائی اور باپ کی جانب سے خواتین کا جنسی استحصال کیا جاتا ہے، دو روز قبل خیرپور میں ایک کیس سامنے آیا جس میں اپنی بہن سے ملنے کے لیے جانے پر ایک لڑکی کو اس کے بہنوئی کی جانب سے جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا اور اس کی ویڈیو بنا کر اپنے باپ کے ساتھ مل کر پانچ ماہ تک لڑکی کو بلیک میل کرتا رہا۔

6 مارچ کو پنوں عاقل میں نماز عشا کے لیے مسجد میں آنے والے ساتویں کلاس کے ایک بچے کو چار نمازیوں نے مسجد کی چھت پر اجتماعی جنسی زیادتی کا نشانہ بنا کر قتل کر دیا ، تین ہفتے ہونے کو ہیں اس کے قاتل اور ریپسٹ گرفتار نہیں ہوئے۔ پولیس نے مقدمہ میں ریپ کی صورت میں لگنے والی دفعات شامل ہی نہیں کیں۔

16 مارچ کو کراچی میں ایک خاتون کو شادی سے انکار پر چار گولیاں مار دی گئیں۔ لاڑکانہ میں ٹانگ کے آپریشن کے لیے نجی ہسپتال میں آنے والی خاتون کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔

ایک روز قبل کوہاٹ میں تین سال کی بچی کو ریپ کا نشانہ بنا کر قتل کر کے پھینک دیا گیا، پاکپتن میں دو بہنوں کو کار سے اغواء کر کے جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا، لودھراں میں سننے بولنے کی صلاحیت سے محروم لڑکی کو چار افراد نے جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا۔

سیہون شریف میں مولوی نے بارہ سالہ لڑکے کو نشہ آور چیز کھلا کر جنسی زیادتی کی اس کے ہوش میں آنے پر مسجد کی چھت سے نیچے پھینک کر قتل کر دیا، یہ وہ واقعات ہیں جو عورت مارچ کے بعد اب تک رپورٹ ہوئے ہیں اور ان سب جرائم میں مرد اور مولوی ملوث ہیں لیکن دین کے ٹھیکیدار اور اخلاقی داروغہ گیری کرنے والے ان معاملات پر لب نہیں کھولتے، ان کو عورت مارچ کے خلاف پروپیگنڈا کرنے سے فرصت ہی نہیں، جو ان جرائم میں ملوث تھے ، یقیناً ان کی رائے میں بھی عورت آزادی مارچ ہی سب سے بڑی بے حیائی اور مغربی سازش ہو گی اور ان کو میرا جسم میری مرضی کا نعرہ بہت ناگوار لگتا ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments