قیدی: دہشت گردی پر لکھی کہانیاں


حمزہ حسن شیخ کا افسانوی مجموعہ ”قیدی“ ابھی ختم ہوا ہے اور مجھے تیرہویں عالمی اردو کانفرنس میں مقررین کے پڑھے جانے والے مقالے یاد آ رہے ہیں۔ وہاں موضوع تھا ”دہشت گردی اور اردو افسانہ“ ۔ معلوم نہیں ایسا کیوں ہوتا ہے کہ ہمارے ناقدین جب بھی اردو افسانے پر بات کرتے ہیں تو ان کی بات چند معروف ناموں کے گرد ہی گھومتی رہتی ہے؟

کبھی کبھار مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جدید اردو افسانے کا ناقد نیا افسانہ پڑھ ہی نہیں رہا، اگر وہ نیا افسانہ پڑھ رہے ہوتے تو دہشت گردی کے موضوع پر ہونے والی نشست میں کسی نہ کسی کو تو حمزہ حسن شیخ کا علم ہوتا۔ گزشتہ دس برسوں میں دہشت گردی پر جتنی کہانیاں حمزہ حسن نے لکھی ہیں، شاید ہی اردو افسانے میں کسی نے اس موضوع پر لکھی ہوں۔

”قیدی“ حمزہ حسن کے افسانوں کا مجموعہ ہے، اس میں شامل بیشتر کہانیاں سہ ماہی ’فنون‘ میں شائع ہو چکی ہیں، 2014 میں جب احمد ندیم قاسمی صاحب کے فنون کو ان کی بیٹی اور نواسے نے پھر سے شائع کرنے کا اہتمام کیا اور شمارہ نمبر ایک سو چھتیس نکالا تو اس میں افسانوں کے حصے میں بہت سے معروف ناموں کے ساتھ کچھ ایسے نام بھی تھے جن سے میں اس وقت لاعلم تھا، انہی میں ایک نام حمزہ حسن شیخ کا تھا۔

اس شمارے میں ان کا افسانہ ”خودکشی“ شائع ہوا تھا جو اس مجموعے کا پہلا افسانہ ہے۔ یہ اس قدر دکھی افسانہ ہے کہ ذہن کے ساتھ چپک کر رہ جاتا ہے ، چند کیڑے ہیں جو آپس میں گفتگو کر رہے ہیں کہ اب نئے انسانوں کے گوشت کا ذائقہ بدل کیوں چکا ہے، اس میں لوہے اور بارود کی بو ہوتی ہے، کیا نئے انسان لوہا کھا رہے ہیں؟

دو ہزارآٹھ اورنو کے پریشان کن دنوں کے بارے سوچتا ہوں تو ہر طرف اداسی پھیل جاتی ہے، وہ کس قدر ڈراؤنے دن تھے کہ ہر روز کسی نہ کسی گاؤں، دیہات، شہرمیں دھماکے کی خبر آ جاتی تھی۔ بازار محفوظ تھے نہ کھیل کے میدان۔ مسجدیں محفوظ تھیں نہ گرجے۔ آدمی گھر سے کسی کام کو نکلتا تھا اور واپس اسے کندھوں پر اٹھائے لوگ آتے تھے۔ زندگی تو یوں بھی ایک ناپائیدار اور ناقابل بھروسا شے ہے لیکن ان تاریک دنوں میں تو لوگوں کو صبح سے شام ہونے کی امید بھی نہیں تھی۔

حمزہ حسن شیخ کا تعلق ڈیرہ اسماعیل خان سے ہے، یہ وہ علاقہ ہے جو دہشت گردی سے بہت زیادہ متاثر ہوا۔ ”قیدی“ میں شامل افسانے، سنی سنائی باتیں نہیں ہیں، یوں محسوس ہوتا ہے مصنف نے اپنے علاقے میں ہونے والے ان حادثات کو نہ صرف دیکھا ہے بلکہ بہت گہرائی میں محسوس کیا ہے۔

”نوٹ بک“ ایک ایسا افسانہ ہے جو دو ہزار چودہ کے آرمی پبلک سکول میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعے پر لکھا گیا ہے۔ آہ! وہ کس قدر دکھی دن تھا، معصوم بچوں کو دہشت گردوں نے شہید کر دیا۔ اب بھی وہ تصاویر نظروں کے سامنے آ جائیں تو دکھ کی ایک شدید لہر سینے میں اٹھتی ہے۔

میں اس کتاب میں موجود کہانیوں کو پڑھتا ہوں، کہانی ختم ہوتی ہے تو بے چین ہو کر کمرے میں ٹہلنے لگتا ہوں۔

”باغی“ ایک ایسی لڑکی کی کہانی ہے جس نے کانے مولوی سے شادی کرنے سے انکار کر دیا تھا اور وہ جس معاشرے کا حصہ تھی وہاں یہ ناقابل قبول جرم تھا سو اس باغی کو پتھروں کی سزا دے دی جاتی ہے۔

”قیدی“ افسانہ جو اس کتاب کا نام بھی ہے، اس کہانی کو اس کی منفرد تکنیک کے حساب سے بھی ضرور دیکھا جانا چاہیے، جہاں ایک قیدی کہانی کا کچھ حصہ ڈائری میں بیان کرتا ہے اور پھر ڈائری کے باہر بھی ایک کہانی آپ کی منتظر ہوتی ہے، وہ اپنے تمام خدشات کو ڈائری کے سپرد کرتا رہتا ہے اور سمجھتا ہے کہ اب آگے سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ مگر ایسا نہیں ہوتا۔ ڈائری سے باہر بھی ایک کہانی اس کا انتظار کر رہی ہوتی ہے۔

”کٹے پھٹے دھڑ کا مکالمہ“ بھی دہشت گردی کے موضوع پر لکھی ایک کہانی ہے جو خودکش دھماکے میں ہلاک ہونے والا ایک جسم بیان کر رہا ہے جو ٹکڑے ٹکڑے ہو کر بکھر گیا ہے۔ آخری جملہ ہے کہ:

”اس کے چھلنی بدن کے کئی حصے غائب تھے اور ایک مکمل تخلیق اپنے تخلیق کار کی جانب تباہ کن اور ناقابل شناخت حالت میں واپس چلی گئی“

اکیسویں صدی میں جو ممالک دہشت گردی سے بہت زیادہ متاثر ہوئے ان میں پاکستان اور افغانستان سرفہرست ہیں، یہاں گزشتہ دہائیوں میں سب کچھ بدل گیا ہے ۔

”انارگلے“ وزیرستان کی لوکیل کو سامنے رکھ کر لکھی گئی کہانی ہے، ایک لڑکی جس کے بچپن میں اس کا باپ افغانستان جہاد کرنے چلا جاتا ہے ، غربت میں وہ بڑی ہوتی ہے تو اس کا بیاہ ایک ازبک نوجوان سے کر دیا جاتا ہے جو آگے چل کر دہشت گردوں کے گروہ میں شامل ہو جاتا ہے ۔ نسلوں کی نسلیں اس دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ گئی ہیں۔

ایک ایسے آدمی کا تصور کیجیے جس کے پاس صرف ایک ریڑھی ہو اور وہی اس کی کل جائیداد ہو، وہ بھی نہ رہے تو وہ شخص کیسا محسوس کرے گا۔ ”رحیمو کی ریڑھی“ ایسی ہی ایک کہانی ہے، رحیمو جو ایک ایسے پارک میں قلفیاں بیچتا ہے جہاں بڑے لوگ اپنے کتوں کو سیر کرانے آتے ہیں، ایک دن ایک امیر بیگم صاحبہ کا کتا اس کے بیٹے پر حملہ کرتا ہے، رحیمو اپنے بیٹے کو بچانے کی خاطر ریڑھی کو دھکا دے کر کتے پر پھینک دیتا ہے جس کی زد میں آ کر کتا ہلاک ہو جاتا ہے، مقدمہ چلتا ہے اور رحیمو کو تین سال قید ہوتی ہے۔ اور کتے کی قیمت ادا نہ کرنے کی صورت میں مزید دو سال قید کی سزا بھی سنائی جاتی ہے کیوں کہ وہ قیمت ادا کرنے سے قاصر تھا دراصل بیگم صاحبہ کا کتا بیس لاکھ کا تھا اور رحیمو کی ریڑھی محض پانچ ہزار کی۔ مگر وہ ریڑھی اس کی کل جائیداد تھی۔

”بیری کا درخت“ افسانہ ایک ایسے وقت میں پڑھ رہا ہوں جب یہ خبریں گردش کر رہی ہیں کہ ملتان میں آم کے ہزاروں درختوں کو کاٹ کر ہاؤسنگ سوسائٹی بنائی جا رہی ہے، لوگ سوشل میڈیا پر احتجاج کر رہے ہیں مگر تیسری دنیا میں عوام کی آواز کون سنتاہے، پہلے بھی جنگل کاٹ کر کنکریٹ کے محل بنائے گئے، آگے بھی بنائے جائیں گے، کیپٹلزم میں فیصلہ اسی کا مانا جاتا ہے جس کے پاس رقم زیادہ ہوتی ہے۔

عاقبت نااندیش قومیں اسی طرح اپنا مستقبل اپنے ہاتھوں سے تاریک کرتی ہیں، پہلے شہروں میں درخت کم ہوتے جا رہے تھے اور اب تو گاؤں دیہات میں بھی کٹائی کا عمل تیزی سے جاری ہے۔ حمزہ حسن کا یہ افسانہ پڑھ کر مجھے احمد ندیم قاسمی صاحب کا افسانہ ”آسیب“ یاد آ گیا جس میں ایک بوڑھے آدمی کو درخت سے بے حد محبت تھی لیکن اس کے بیٹے اور بہو کو گھر میں درخت کا وجود گوارا نہیں تھا۔ حمزہ حسن کے افسانے کا کردار بوڑھا نمازی بھی چاہتا ہے کہ بیری کا درخت موجود رہے مگر نئے لوگ ایسا کب چاہتے ہیں؟

”درد کی ٹہنیوں میں بلبل“ افسانے کا اختتام ایک عجیب سوگواری میں مبتلا کردیتا ہے، شاید ہر محبت کی ایسی کہانی جس میں کردار باقی نہ رہیں آدمی کو اداس کر جاتی ہے۔

اس مجموعے کو ”فکشن ہاؤں“ نے لاہور سے شائع کیا ہے، افسانے کے قارئین کو اور ناقدین کو یہ کتاب ضرور پڑھنی چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments