پیپلز پارٹی کی چالیں اور مسلم لیگ ن


مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی کی نئی نسل اور نئی قیادت میں چند ماہ کی دوستی اور تعلق تڑک کر کے ٹوٹ گیا، مسلم لیگ نواز کے قائد نواز شریف کی پیپلز پارٹی بلکہ شہید بینظیر بھٹو سے دشمنی کی طویل داستان ہے، یہ دشمنی دہائیوں پر محیط ہے، مشرف کی آمریت کے دوران کچھ برف پگھلی تھی مگر بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد نواز شریف کا کینہ ایک بار پھر اس وقت سامنے آیا جب میموگیٹ میں نواز شریف پیپلز پارٹی کی حکومت کے خلاف کالا کوٹ پہن کر سپریم کورٹ پہنچ گئے تھے

جنرل ضیا کی آمریت میں آنکھ کھولنے والے نواز شریف نے جنرل ضیا الحق کے ”دشمن“ کو اپنی سیاست کو محور بنایا اور جنرل ضیا کی ہلاکت کے بعد اس کے مشن کو پورا کرنے کا عزم کیا جو آج تک جاری ہے، 1985 میں نواز شریف پنجاب کے وزیر بنے، پھر ضیا الحق کی ہلاکت کے بعد 1988 میں عام انتخابات میں پنجاب فتح کر کے وزیراعلی بن گئے، پنجابی وزیراعلی نے تاریخ میں پہلی بار وزیراعظم پاکستان کے خلاف بغاوت کا علم بلند کیا اور سیاست میں قد آور شخصیت بن گئے

بے نظیر بھٹو کی مختصر مدت وزارت عظمی کے دوران نواز شریف نے ہر وہ کام کیا جو آئین کے خلاف تھا جس میں وزیراعظم کے لاہور آنے پر ائرپورٹ پر استقبال نہ کرنا بھی شامل تھا، صدر اسحاق کی جانب سے بے نظیر حکومت ختم کرنے کے بعد 1990 کے انتخابات اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے بننے والے اسلامی جمہوری اتحاد کے پلیٹ فارم سے جیت کر وفاق میں مسلم لیگ نون نے حکومت بنائی اور نواز شریف پہلی بار وزیراعظم بن گئے، (آج وہ اسی اسٹیبلشمنٹ کو للکار رہے ہیں جن کے کندھوں پر چڑھ کر وہ یہاں تک پہنچے ہیں ) پھر بینظیر بھٹو اور ان کے شوہر آصف علی زرداری پر جھوٹے مقدمات کی بھر مار کردی جس کی وجہ سے آصف زرداری کو 11 سال جیل میں گزارنا پڑے

نواز شریف نے اپنے سابقہ دونوں ادوار میں پیپلز پارٹی کے رہنماؤں اور کارکنوں کے لئے مشکلات کے پہاڑ کھڑے کیے مگر پھر بھی جیالے ڈٹے رہے اور بے نظیر بھٹو کا ساتھ نہ چھوڑا، 1998 تک نواز شریف کی ساری سیاست بینظیر بھٹو اور بھٹو خاندان کی دشمنی پر ہی رہی، نواز شریف کا مسئلہ یہ رہا کہ ان کی کسی بھی آرمی چیف سے نہ بنی اور پھر 12 اکتوبر 1999 کو اس وقت کے آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کے حامی جرنیلوں نے جنرل پرویز مشرف کی ملک میں عدم موجودگی کے دوران نواز شریف حکومت کا تختہ الٹ دیا اور خاندان سمیت ان کو قید کر دیا، نواز شریف نے جس انداز میں آرمی چیف کو ہٹایا تھا اس پر فوج کا ردعمل یہی بنتا تھا جس کو میں جائز سمجھتا ہوں

یہ پہلا موقع تھا جب فوج نے نواز شریف کی ہٹ دھرمی پر خود ایکشن لیا اور حکومت الٹ دی اس سے پہلے اسمبلیاں ہی ٹوٹتی رہیں، بے نظیر بھٹو بھی دو بار وزیراعظم رہیں مگر فوج سے ان کا اتنا زیادہ اختلاف نہیں رہا جتنا نواز شریف کا تھا، نواز شریف کی وجہ سے ملک پر ایک بار پھر طویل آمریت مسلط کردی گئی، نواز شریف کیونکہ نازک مزاج ہیں، جیل میں ان کا دم گھٹتا ہے اس لئے آمر سے ڈیل کر کے 10 سال کے لئے خاندان سمیت جدہ چلے گئے

جدہ میں رہ کر سیاست سے توبہ نہ کی، کسی نہ کسی انداز یا بہانے سے سیاست میں حصہ لیتے رہے، افتخار چودھری کی حمایت میں وکلا تحریک میں اہم کردار ادا کیا، وہ کردار سب جانتے ہیں، آصف زرداری نے کہا تھا کہ میاں صاحبان جب مشکل میں ہوتے ہیں تو پاؤں پڑتے ہیں اور جب اقتدار میں ہوتے ہیں تو گلے پڑتے ہیں، جدہ کئی سال رہنے کے بعد برطانیہ چلے گئے، وہاں شہید بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کے رابطے ہوئے، اس وقت کیونکہ مشکل میں تھے اس لئے کہہ سکتے ہیں کہ شہید بی بی کے پاؤں پڑ گئے اور میثاق جمہوریت کر لیا

مشرف نے ایمرجنسی لگائی تو شہید بی بی فوری طور پر پاکستان پہنچ گئیں اور مشرف کا للکارا، نواز شریف للکارنا تو دور کی بات ہے، چوں بھی نہیں کر سکتے تھے کیونکہ معاہدہ کیا ہوا تھا کہ دس سال سیاست سے دور رہیں گے، شہید بی بی نے اپنے اور نواز شریف کے راستے کانٹے چنے جس سے جمہوریت کی بحالی کی امید پیدا ہو گئی، مگر ظالم لوگ کہاں برداشت کرتے ہیں کہ ملک میں خالص جمہوریت ہو اس لئے جمہوریت کی ضمانت، چاروں صوبوں کی زنجیر بینظیر بھٹو کو شہید کرا دیا گیا، اس سے قبل نواز شریف پاکستان واپس آچکے تھے

بی بی کی شہادت پر نواز شریف نے ٹسوے تو بہت بہائے مگر دل سے پیپلز پارٹی کا بعض ختم نہ ہوا، نواز شریف نے 2008 کے انتخابات کا بائیکاٹ کر دیا، آصف زرداری نے میاں صاحب کو سمجھایا کہ جمہوریت کی جنگ سسٹم میں رہ کر لڑیں، باہر رہنے سے کچھ نہیں ہوگا، (جیسے اب سمجھا رہے ہیں کہ استعفے حل نہیں، اسمبلیوں میں رہ کر جنگ لڑیں ) بی بی کی شہادت کے بعد الیکشن میں عوام نے حکومت پیپلز پارٹی کو دیدی، آصف زرداری صدر اور یوسف رضا گیلانی وزیراعظم بن گئے، آصف زرداری نے بڑے دل کا مظاہرہ کیا اور نواز شریف کو حکومت میں شامل ہونے کی دعوت دی اور قائل بھی کر لیا، پہلی کابینہ میں نواز لیگ کے کچھ وزرا شامل کیے گئے مگر بعض نہ گیا اور جلد ہی حکومت سے علیحدگی اختیار کرلی پھر بھی آصف زرداری نے مشرف کی کی ہوئی آئینی ترمیم ختم کی جس کی وجہ سے نواز شریف تیسری بار وزیراعظم بنے

جوں جوں وقت گزرتا گیا، نواز شریف کے اندر کا دشمن جاگ گیا اور وہ پیپلز پارٹی کے خلاف وہی 80 اور 90 کی دہائی والا نواز شریف بن گیا، پیپلز پارٹی کی حکومت کو غیرمستحکم کرنے کے لئے نواز شریف ہر حد تک گئے، یوسف رضا گیلانی کو ہٹانے کے لئے جو خطابات کیے اس کی ویڈیوز آج بھی سوشل میڈیا پر چل رہی ہیں، آصف زرداری کا اس ملک اور عوام پر یہ احسان ہے کہ تمام تر سازشوں کے باوجود پانچ سالہ آئینی مدت پوری کی جس سے جمہوریت کی گاڑی پٹڑی پر چڑھ گئی اور اب جمہوریت دوڑ رہی ہے

2013 آنے تک نواز شریف اپنا ماضی بھلا کر وہی پیپلز پارٹی مخالف کے طور پر ابھرے اور اسٹیبلشمنٹ سے ڈیل کر کے حکومت حاصل کرلی جس کا اعلان رات 9 بجے ہی کر دیا جو آج تک سوالیہ نشان ہے، حکومت میں آنے کے بعد نواز شریف سے زیادہ ان کے بھائی شہباز شریف پیپلز پارٹی کے خلاف اچھل اچھل کر بولتے رہے، پھر مکافات عمل ہے، نواز شریف سے ٹکر لینے والا عمران خان آ گیا، جو کچھ 126 دن کے دھرنے میں ہوا وہ بھی سب کو یاد ہے، ایک وقت پر نواز شریف اسمبلیاں ختم کرنے پر غور کرنے لگے تو پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما اور اس وقت کے اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے اسمبلی میں کھڑے ہو کر کہا کہ میاں صاحب اپنے پیروں پر کھڑے رہو ہم آپ کی حکومت ختم نہیں ہونے دیں گے جس سے نواز شریف کو سکون ملا، بعد میں پاناما لیکس کیس میں سپریم کورٹ کی جانب سے نا اہل قرار دے دیے گئے۔ پھر انہوں نے کیوں نکالا کا راگ الاپنا شروع کر دیا مگر جیل سے نہ بچ سکے

2018 کے انتخابات میں جب نواز شریف اسٹیبلشمنٹ کے ”بے بی“ نہ بن سکے تو الیکشن ہارنا ان سے برداشت نہ ہوسکا، حسب روایت جیل سے نکلنے کے لئے کئی دل کے دورے پڑے، حالت اتنی بگڑی کہ آج یا کل ہونے لگا، پھر حکومت نے ڈیل (ترس اس لئے نہیں لکھا کیونکہ سب کچھ عمران خان کی رضامندی سے ہوا) کر کے لندن علاج کے بہانے جانے کی اجازت عدلیہ پر ڈال کر دیدی اور نواز شریف باہر چلے، اب بھی مصیبت پڑی تو ایک بار پھر پیپلز پارٹی کے پاؤں پکڑ لئے مگر اس بار شہید بی بی نہیں ان کا بیٹا بلاول بھٹو زرداری ہے

بلاول اور مریم نواز کی سیاسی انڈر سٹینڈنگ کے چرچے خوب ہوئے، مریم نواز اپنے والد کی بدترین دشمن بے نظیر بھٹو کے مزار پر فاتحہ خوانی کے لئے بھی پہنچ گئیں شاید وہ سمجھ رہی تھیں کہ بلاول اب مریم نواز کو اپنا سیاسی گرو سمجھ رہا ہے مگر بلاول بھی شہید بے نظیر بھٹو کا بیٹا اور شہید ذوالفقار علی بھٹو کا نواسہ ہے، اسے کسی گرو کی کیا ضرورت ہے جب کہ ایک زرداری سب سے بھاری جیسا سایہ اس کے سر پر قائم ہے

سینٹ الیکشن میں پیپلز پارٹی نے چال تو بہت بڑی چلی کہ عمران خان سمیت ساری حکومت گھوم کر رہ گئی جس کی وجہ سے عمران خان نے بغیر کسی مطالبے کے پریشانی کی حالت میں اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لے لیا جس میں اپوزیشن شامل ہی نہیں تھی، پیپلز پارٹی نے پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے اپنے سینئر رہنما یوسف رضا گیلانی کو سینٹر بنوا کر حکومت کو شکست دیدی، چیئرمین کے الیکشن میں یوسف گیلانی کو ہروا دیا گیا، چیئرمین کا الیکشن ہارنے پر پیپلز پارٹی نے سینٹ میں اپوزیشن لیڈر یوسف گیلانی کو بنانے کا مطالبہ کر دیا مگر نون لیگ نہ مانی کہ پہلے طے ہوا تھا کہ چیئرمین پی پی اور اپوزیشن لیڈر نون لیگ کا ہوگا

اس معاملے میں بھی نون لیگ پیپلز پارٹی کے خلاف اپنا بعض ختم نہ کر سکی اور سینٹ میں اپوزیشن کی سب سے بڑی پارٹی کو جھنڈی کرانے کی کوشش کی، یہ ان حالات میں نون لیگ کر رہی ہے جب تحریک انصاف کے وزیراعظم نون لیگ کی قیادت کو ”کیفرکردار“ تک پہنچانے کا کئی بار عزم دہرا چکے ہیں، مگر نون لیگ تحریک انصاف کی حکومت کو چھوڑ کر پیپلز پارٹی کو پھر چت کرنے کے لئے نکل پڑی ہے

حالات کا تقاضا تو یہی ہے کہ قومی اسمبلی میں نون لیگ اور سینٹ میں پیپلز پارٹی اپوزیشن لیڈر ہوگی مگر یہاں وہی حب علی اور بعض معاویہ والا معاملہ چل رہا ہے، نون لیگ عمران خان کو مکمل نظر انداز کر رہی ہے جس سے اسے شدید نقصان ہوگا، پیپلز پارٹی کی پالیسی کی وجہ سے حکومت کو سینٹ میں شکست کا سامنا کرنا پڑا اس کے بعد پیپلز پارٹی کا دوسرا ہدف پنجاب حکومت کے خلاف عدم اعتماد لانا تھا مگر نون لیگ تحریک انصاف کے ہاتھوں رسوا اور تباہ ہونے کو تیار ہے مگر پیپلز پارٹی سے اپنی دشمنی ختم کرنے کو تیار نہیں حالانکہ اگر اس وقت جب تمام ماحول بن چکا تھا، عوام مہنگائی سے تنگ آچکے ہیں، تحریک انصاف سے پنجاب چھننا مشکل کام نہیں، مگر نون لیگ کو کون سمجھائے جن کا بیر ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا، اس وقت اگر پنجاب تحریک انصاف سے نہ چھینا گیا تو آئندہ الیکشن میں نون لیگ کی حالت وہ ہوگی جو اس وقت پنجاب میں پیپلز پارٹی کی ہے، ممکن ہے اگلی بار عمران خان خود ہی چودھری پرویز الٰہی کو وزیراعلی پنجاب نامزد کردیں پھر نون لیگ کھل کر پیپلز پارٹی سے دشمنی کرتی رہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments