ہمارے معصوم مطالبات


جدید سائنسی دور کا تقاضا ریاستوں کو اپنے عوام کو علمی و سائنسی ہنر سے لیس کرنے کا مقابلہ ہے۔ کیونکہ دنیا کا ماننا ہے کہ جتنے زیادہ ان کے افرادی قوت علم و ہنر سے لیس ہوں گے اتنے ہی باقی دنیا کے مدمقابل کرنے کی صلاحیت ان میں پیدا ہوں گی اور اپنے ذاتی زندگی کو خوشحالی کے ساتھ ساتھ نجی و حکومتی اداروں کے لئے بھی سود مند ثابت ہوں گے ۔ کیونکہ مہذب قوموں نے علم و سائنس کو قریب دیکھنے کے ساتھ اس کا فائدہ بھی خوب اٹھایا اور آج دنیا میں زیادہ شرخ اخواندگی رکھنے والے ملک راج کر رہے ہیں۔

دنیا کی مثال کو سامنے رکھ کر یا دے کر یہ مثال ہم اپنے اوپر لاگو کرنے کی یہ بیوقوفی تو ہرگز نہیں کریں کیونکہ یہاں ذرا برابر بھی فٹ نہیں ہوتا۔ کیونکہ جہاں آج ہم کھڑے ہیں دنیا ہم سے کہیں میلوں دور اپنا سفر طے کرچکا ہے۔ اور اپنے لیے نئی منزل و منصوبہ بندی کا پلان بنا چکا ہے اور ہم یہاں ایک ہاتھ میں پانی کا کٹورہ اور دوسرے میں نوالے کا پیالہ لے کر دست بستہ اپیلیں کر رہے ہیں۔ سننا اور تسلی دینا اپنی جگہ ان معصوم مطالبات پر سزائے بھگ رہے ہیں۔

اس کے برعکس جنتے ہم بے بس ہیں ہمارے مطالبات بھی کیسے مذائقہ، خیز، عجیت اور معصومانہ ہیں۔ شاید دنیا یہ سن کر ہم پر ہنس پڑے لیکن مجبوری اور غربت نے اتنے زخم ہمارے معاشرے کے لوگوں کو دیے ہیں۔ کہ وہ یہ پرواہ کیے بغیر پانی، بجلی، روڈ، ہسپتال، زندگی کے باقی آسراتی اور معیاری مطالبہ نہیں بنیادی ضروریات کے لئے تڑپ رہے ہیں۔ لیکن ان مطالبات کو کوئی سننے کو تیار نہیں اگر کوئی شور شرابے سے حکمرانوں کو اپنے زندہ رہنے کے لئے زندگی کے یہ مطالبات پیش کریں اور کسی نہ کسی طریقے انہیں سنائیں وہ سنتے ہی ان سنی کرد دیتے ہیں لیکن ہم کوہستانی اور اور ریگستانیوں کے یہ مطالبات ایوان کے درباروں اور اعلٰی و مقدس اداروں تک پہنچ بھی نہیں پائیں گے اور کھنڈرات سڑکوں سے ہوتے ہوئے کسی شہر پر پہنچنے سے پہلے تھکاوٹ سے پگھل جاتے ہیں۔

یہ بنیادی ضروریات کے مطالبے بھی پاکستان جیسی ریاست میں بڑے بڑے شہروں میں کیے جاتے ہیں یا ان کے ہوسکتے ہیں لیکن بلوچستان کے غربت زدہ خانہ بدوش لوگوں کو دیوار سے اتنا لگایا ہے کہ وہ نفس بھر دم بھی اچھی طرح نہیں لے سکتے اور ان کو خاموش کرنے کے لئے ان پر خوف کا سایا بچا دیا گیا ہے تاکہ اب عوام یہ کہہ کر خود کو تسلی دینے کی کوشش کریں کہ ہم نہ صاف و شفاف پانی کی طلب کرتے ہیں نہ بجلی و ہسپتال کی مانگ کرتے ہیں اور نہ ہی کشادہ روڈ کے طلبگار ہیں اور نہ سرکاری نوکری کی مانگ کرتے ہیں۔

ہمیں خود انحصاری پر بھروسا کرنے کے لئے اپنے سرحدی حدود پر چھوٹے کاروبار یعنی تیل، خورد نوش اور دیگرا ضروریات زندگی کے اشیاء کی ترسیل کا اجازت دی جائے یہی ہمارے لئے غنمیت ہوگی۔

لیکن ریاست پاکستان کی سرکار ہے کہ مانتا نہیں عوام کی مجبوری سمجھتے نہیں، طویل سرحدی حدود زامران کو باڑ لگاکر ایران سے متصل علاقوں سے اس طرح سیل کردی گئی ہے جیسے یہاں سے دہشتگرد سرحد پار وادی زامران میں انڈیا کے فوج کشمیر کی وادی میں گھس کر دہشتگردی پھیلا رہے ہیں حالانکہ صدیوں سے آباد بلوچ اس نام نہاد گولڈ سمتھ نامی لکیر سے انکاری ہیں کیونکہ آپسی رشتہ داریوں اور ایک ہی ملک و میراث کے باہمی والی وارث خون و خاک کے شراکت دار اتنی جلدی کیوں کر اپنوں کو عاق کرنے کو تیار ہوں گے گوکہ ایران و پاکستان نے اپنے حدود و قیود کے لکیر کھینچ کر دونوں اطراف کے بلوچ آبادیوں کو ایک دوسرے سے جدا کر کے یہ تاثر دیا کہ اب یہاں سے ایک تو آنا جانا بند اگر کوئی اپنے گھر کے عقب میں موجود لکیر کے اس پار اپنے باغ میں زمین داری کے لئے باغات میں جائے تو پہلے اجازت لینے کے لئے دو منٹ پیدل جانے کے بجائے کئی کلو میٹر دور قائم چیک پوسٹ سے ہو کر اجازت طلب کریں۔ پھر آ کر گھر کے ساتھ لکیر کے پار باڑ کو عبور کرنے میں مخصوص گیٹ سے ہو کر پہنچ پائیں۔ اگر یہ عصبیت نہیں ایک ہی قوم کو جدا کرنے کا منصوبہ نہیں تو اور کیا ہو سکتا ؟

کیونکہ اس نام نہاد سرحد کے بجائے انڈیا پاکستان کا بھی سرحدی حدود ملتا ہے وہاں کیا کیا نہیں ہوتا۔ شروع دن سے عوام کے آنکھوں میں دھول جھونکے کے لئے ایک دوسرے کے گردن دبوجنے کی ڈرمائی تاثر قائم کر رہے ہیں۔ لیکن وہاں باب دوستی، تجارتی مراکز، لاہور دہلی دوستی بس و ٹریں سروس، گرو نانک کا گردوارہ وغیرہ وغیرہ۔

بڑی شان و شوکت سے جاری و ساری ہیں اپنے مذہبی فرق و ترک کو پست ڈال کر قومی و لسانی بندھن میں تجارتی سرگرمیاں کر رہے ہیں لیکن یہاں اس کے برعکس آمد و رفت شجر ممنوع قرار دے کر دو مسلم ممالک کے ہوتے ہوئے اپنی دوستی کی مثال بڑی ٹھٹائی سے دیتے ہیں کہ کسی کو دوسرے پر کوئی خطرہ نہیں پھر یہ آہنی باڑ غریب دیہاڑی دار بلوچوں گلے کیوں کر ڈالا ان کو آپس میں تقسیم رشتہ اور کاروبار میں قدغن لگانے ہی کی رکاوٹ ہے۔

اب یہاں کے غریب دیہاڑی دار طبقہ کے لوگوں کی امیدیں اتنی ہی ماند پڑ گئی ہیں کہ ان کے مطالبات بھی کسی ریاست سے ریاست کی طرف دی جانے والی مراعات و سہولیات کی نہیں بلکہ خود انحصاری کے کاروبار کو کھولنے کے معصومانہ مطالبات ہیں چونکہ یہاں باڈر ٹریڈ پر کئی سالوں سے مشکل حالات سے زندگی گزارنے والوں نے کٹھن حالات میں بھی اپنے بچوں کو دو وقت کی روٹی مہیا کرنے کے لئے خود مشکلات و مصائب برداشت کیے لیکن اپنے بچوں کو آرام دہ اور سکون کے نیند سلا دیے اب کی سرکار ان کے اس معصوم پریاد کو سننے کے بجائے ان چھوٹے کاروباری حضرات کے لئے روزی روٹی کے ذرئع کو مکمل بند کرچکی ہے۔

روز روز کئی مشکلات پیدا کر رہے ہیں۔ تاکہ یہ دیہاڑی دار لوگ اپنے معصوم مطالبات کے بجائے سخت رویہ اپنائے تو شاید کوئی بات نکل جائے۔ کیونکہ یہ پہلا موقع نہیں ریاست کی طرف سے ایسے ماحول ہموار کرنے کی کوشش کی جاری ہے۔ کہ لوگوں کے آزادانہ نقل و حمل، کاروبار حتٰی طالب علموں کے لئے بھی یہی جا رہا نہ رویہ اپنا جس کے عیوض کئی سرکش بن کر بندوق اٹھانے پر مجبور ہو گئے۔ ریاست ہے جو عوام کو عزت و احترام کی زندگی بسر کرنے کا سیلقہ توکجا اب یہ حال ہے کہ بلیدہ زامران کے اس چھوٹے سے علاقے میں کئی فوجی کیمپس کے ساتھ چیک پوسٹوں کی اتنی بھرمار ہے۔

گاؤں سے گاؤں تک لوگوں کو آنے جانے سے روک روک شناخت دریافت کی جاتی ہے۔ ایک بندہ خدا خدانخواستہ کسی مرض یا کام کے سلسلے میں ساتھ والے گاؤں میں دس دفعہ چکر کاٹے تو ہر دفعہ رٹ رٹائی سوالات و جوابات سے گزر کر آنا جانا ہوتا ہے۔ لوگوں کی عزت نفس کو اچھال کر تذلیل و بداخلاقی کا ایک ایسا رواج قائم کیا گیا ہے۔ کہ ایک عزت دار اور ترس خدا بندہ گالی گلوچ سنے کے خوف سے انہیں زمینی خدا مان کر خاموشی سے چلنے کو اپنے لئے عافیت جانتا ہے۔

اگر یہاں جو بیان کرو بلاشبہ کمی ہو سکتی ہے لیکن آنکھوں سے دیکھے حال کا اپنا ایک غضب ناک منظر ہوتا ہے اس ان سے بھی درد ناک ہے چونکہ میڈیا سے دوری اور لوگوں کی محصوری نے باقی مانندہ ملک کے عوام و میڈیا سے بوجھل کر دیا ہے بلیدہ زامران کو اس لئے یہ چار سطور میلوں دور ”ہم سب کے لئے“ شاید کسی کی نظر کرم ان پر لگے۔

خدارا لوگوں کے معاشی مسائل کے ذرائع باڈر کو باڑ اور گیٹ میں بند کرنے لوگوں کی تذلیل و تقدس کو پامال کرنے کی اس گھٹیا رواج کا خاتمہ کرنے کے لئے آنکھیں بند کرنے کے بجائے عملی مظاہرے کی اشد ضرورت ہے۔ تاکہ باڈر کے کنارے آباد لوگ حکومتی آسرے کے بجائے خود انحصاری سے اپنے زندگی کے ایام آگے بڑھا سکیں۔ (ختم شد)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments