گل مہر آباد: ایک جائزہ


 

ادب زندگی اور سماج کی ترجمانی کرتاہے اسی لیے دنیائے ادب میں وہ تخلیق بہترین شمار ہوتی ہے جس میں معاشرتی خوبیوں کے ساتھ ساتھ خامیوں کو بھی اجاگر کیا گیا ہو۔

اس تناظر میں یاد داشت، مشاہدات و تجربات عزخ پر مبنی کتاب ”گل مہر آباد“ کے مطالعے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ مصنف نے اپنی اس تخلیق میں زندگی و سماجی ترجمانی کے فرائض نیک نیتی سے انجام دیے ہیں جس کی بدولت کتاب کی بنیاد مضبوط ہے۔

گل مہر ایک حسین درخت کا نام ہے جو نہایت خوب صورت سرخ سرخ پھولوں کے گچھوں سے لدا ہوتا ہے جس پر نگاہ پڑتے ہی یوں محسوس ہوتا ہے کہ گویا سورج کی تمازت سے سونا تپ گیا ہو یا ٹہنیوں میں انگارے دہک رہے ہوں۔ اس درخت کے نام پر اپنی کتاب کا نام رکھنا در حقیقت عامر زاہد خان کے جمالیاتی ذوق کی عکاسی ہے۔

طنز و مزاح لکھنا اور سلیقے سے لکھنا خاصا دشوار کام ہے لیکن سترہ ابواب پر مشتمل کتاب گل مہرآباد کے قلم کار نے نہایت دلکش اور ہلکے پھلکے مزاحیہ پیرائے میں نقل مکانی کے بعد نئی بستی بسانے والے افراد کے طرز سوچ و فکر، رہن سہن، طرز گفت گو، لہجوں، طور طریقوں اور دیگر معاشرتی رویوں کا مہارت سے قلمی احاطہ کیا ہے جس میں دیدہ بیدار رکھنے والے سماج سدھار انسانوں کے لیے کئی نشانیاں پوشیدہ ہیں۔

کتاب میں شامل رادھا بھابھی اور گل مہری مخ لٹو، کرائم سین ایکسپرٹ چاندنی خالہ، ہوس زدہ مغنی، ہری طبیعت بلو، نو دولتیے حاجی ادو اور گٹکا سیٹھ، نرگسیت پسند تاجر انجمنیں، نواب اعتماد الدولہ عرف اجڑے نواب، گل مہری نابغے، بینک بدر بدر الدین باقری، تعلیم دشمن مولوی اللہ رکھا جوکھاڑوی، کرپٹ ٹھیکیدار منظور، موٹی توند والا انسپکٹر اختیار واسطی، تعلیم کے علمبردار پروفیسر شمسی و دیگر کرداروں کو سمجھنے سے یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ ہر سماج میں ان گنت افراد اپنی خواہشات، نفرتیں، لالچ، ہیرا پھیری، چالاکی اور پسند ناپسند سنبھالے رہتے ہیں جس کا وہ کہیں نہ کہیں اظہار بھی کرتے رہتے ہیں مگر اس کے ساتھ ہی یہی ہجوم محبت، ایثار، رحم دلی، جرات گفتار اور ہمدردی سے لبریز بھی ہوتا ہے۔

زیر نظر کتاب میں اردو زبان کی پوری چاشنی نمایاں ملتی ہے اور قاری کئی خوب صورت متروک شدہ لفظوں، جملوں کی بندش، استعاروں اور تشبیہات کے زیر و بم سے لطف اندوز ہو کر گزرتا سطر سطر آگے بڑھتا چلا جاتا ہے۔

اس کتاب کے مطالعے سے لکھاری کی ذہین، حساس، ناسٹیلجک، علم، ادب، انسان وسماج دوست شخصیت بھی واضح ہوتی ہے جو 31 سال قبل نوجوانی کے عالم میں اس شہر کی یادیں اور اس کے لیے کچھ کر گزرنے کی شدید خواہش اپنے ساتھ لے کر روانہ ہوا اور 31 سال بعد ٹرین کے ڈبے سے جب عامر زاہد خان نے اپنے شہر میں قدم رکھا تو ان کے چہرے پر ایک فاتحانہ مسکراہٹ رقصاں تھی جو جلد ہی شہر کے باسیوں کے دیرینہ خواب ”وفاقی سرکاری جامعہ نمل“ کے ایکڑوں پر مشتمل نئے کیمپس کے قیام اور اس جگمگاتی ادبی کہکشاں کی صورت میں سامنے ہے جس کی وجہ سے گل مہریوں کے چہروں پر اطمینان صاف دیکھا جا سکتا ہے۔

میرے نزدیک کتاب گل مہر آباد نہایت دلچسپ اور معلوماتی ادبی تحریر ہے جس میں تاریخ، معاشرت، نفسیات اور انسانی فکر و عمل کے تضادات سمیت بہت کچھ عیاں ہے اور میں اس کے لیے مصنف کو مبارک باد پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے اردو مزاحیہ ادب میں ایک گراں قدر دستاویز کا اضافہ کیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments