مریم نواز الزام تراشی کی بجائے ذمہ داری قبول کریں


سینیٹ میں یوسف رضا گیلانی کے اپوزیشن لیڈر بننے پر مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے سخت رد عمل ظاہر کیا ہے۔ انہوں نے پیپلز پارٹی کو مفاد پرست اور اسٹبلشمنٹ کا ہرکارہ ثابت کرنے کے علاوہ اسے معمولی سیاسی مفاد کے لئے سودے بازی کا مرتکب بھی قرار دیا۔ اس دوران مسلم لیگ (ن) کے جنرل سیکرٹری احسن اقبال نے ایک طرف پیپلز پارٹی کے تعاون کے بغیر اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کا آپشن ختم ہونے کی بات کی ہے تو دوسری طرف واضح کیا ہے کہ اب پی ڈی ایم میں پیپلز پارٹی کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔

پاکستان جمہوری تحریک دس سیاسی جماعتوں کا اتحاد ہے۔ اصولی طور پر جیسے اس اتحاد میں تمام فیصلے اتفاق یا کثرت رائے سے ہونے چاہئیں، اسی طرح اختلاف کی صورت میں بھی پی ڈی ایم ہی کو کوئی فیصلہ کرنے اور اس پر متفقہ رائے دینے کا حق حاصل ہونا چاہئے۔ اس اصول کے تناظر میں مریم نواز کی لاہور میں میڈیا سے گفتگو اور احسن اقبال کا ایک روزنامہ کو دیا گیا انٹرویو ، دونوں بے وقت ، غلط اور سیاسی انتشار میں اضافہ کا سبب بننےکا امکان رکھتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو زرداری نے مریم نواز کے بیان پر براہ راست جوابی تنقید کرنے سے گریز کیا ہے اور خبروں کے مطابق پارٹی عہدیداروں سے بھی کہا ہے کہ اس معاملہ پر جوابی بیان بازی نہ کی جائے۔ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ پی ڈی ایم کو نقصان پہنچانے کا ارادہ نہیں رکھتے تھے لیکن جب سینیٹ میں پیپلز پارٹی اپوزیشن کی سب سے بڑی پارٹی ہے اور اس کے پاس اپوزیشن لیڈر نامزد کرنے کے لئے نمبر بھی پورے تھے تو وہ اپنے سینیٹرز کو کیوں کر مسلم لیگ (ن) کے امیدوار کو ’منتخب‘ کرنے کا مشورہ دے سکتے تھے۔

بلاول بھٹو زرداری کےاس مؤقف سے بحث کی جاسکتی ہے کہ متفقہ فیصلوں سے گریز کو کس حد تک سیاسی یا پارلیمانی اصول یا روایت قرار دیا جاسکتا ہے۔ پی ڈی ایم کے صدر مولانا فضل الرحمان بھی اس بات کی تصدیق کرچکے ہیں کہ سینیٹ میں یوسف رضا گیلانی کو چئیرمین کے عہدے کے لئے نامزد کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے یہ طے ہؤا تھا کہ اپوزیشن لیڈر مسلم لیگ (ن) سے ہوگا۔ یہ فیصلہ یوسف رضا گیلانی کی چئیرمین کے طور پر ہار یا جیت سے مشروط نہیں تھا۔ تاہم پیپلز پارٹی اب ایسے کسی فیصلے میں شامل ہونے سے انکار کرتی ہے۔ یوسف رضا گیلانی کو اپوزیشن لیڈر بنوانے کی ایک جزوی وجہ مسلم لیگ (ن) کی طرف سے اعظم نذیر تارڑ کو امیدوار کے طور پر سامنے لانا بھی رہی ہے۔ تارڑ بے نظیر بھٹو کیس میں ملوث بعض پولیس افسروں کے وکیل رہے ہیں جس پر پیپلز پارٹی کو شدید اختلاف ہے۔ اس معاملہ کو باہمی بات چیت کے ذریعے طے کرنے کی بجائے اس پر میڈیا میں بیان بازی سے صرف اپوزیشن اتحاد کو ہی نقصان نہیں پہنچا بلکہ ملک کا عام شہری یہ سوچنے پر بھی مجبور ہوگیا ہے کہ کیا اسی جمہوری رویہ کے لئے انہیں احتجاج کرنے اور حکومت کے سامنے ڈٹ جانے پر آمادہ کیا جارہا ہے؟

ملک میں اپوزیشن پارٹیوں کے اتحاد بنتے ٹوٹتے رہے ہیں۔ یہ بھی کوئی نئی بات نہیں ہے کہ ہر پارٹی کسی ایسے اتحاد میں اپنا مؤقف تسلیم کروانے یا اپنی حیثیت تسلیم منوانے کی کوشش کرتی ہے۔ پاکستان جمہوری تحریک کو بھی سیاسی جد و جہد کے حوالے سے اس سے زیادہ اہمیت نہیں دی جاسکتی۔ اس اتحاد میں شامل دو بڑی پارٹیوں کی چپقلش کی وجہ سے نہ صرف یہ اتحاد ٹوٹنے کے قریب ہے بلکہ یہ اصولی مباحثہ بھی نظر انداز ہورہا ہے کہ ملک میں کس حد تک اسٹبلشمنٹ کو سیاسی معاملات میں مداخلت ، حکومتیں بنوانے اور توڑنے میں کردار ادا کرنے اور سیاسی لیڈروں کی کردار کشی کا حق دیا جاسکتا ہے۔ مزید برآں مریم نواز نے آج کی گفتگو میں جو جارحانہ اور جذباتی رویہ اختیار کیا ہے، اس کی وجہ سے ایک طرف اپوزیشن کی سیاسی تحریک کمزور ہوگی اور دوسری طرف معاملات پر اسٹبلشمنٹ کی گرفت پہلے سے زیادہ مضبوط ہوجائے گی۔ مریم نواز کو عملی سیاست کا زیادہ تجربہ نہیں ہے لیکن اس کے باوجود مختصر مدت میں اپنی صاف بیانی اور دوٹوک مؤقف کی وجہ سے انہوں نے قومی سیاست میں نمایاں پوزیشن حاصل کی ہے۔ انہیں بخوبی اس بات کا اندازہ ہونا چاہئے کہ ان کی غیر ذمہ دارانہ الزام تراشی سے پیپلز پارٹی کا نقصان کم ہوگا لیکن اسٹبلشمنٹ کی طاقت میں اضافہ ہوگا ۔ انہوں نے آج متعدد مواقع پر اصرار کیا کہ ان کی اور نواز شریف کی جد و جہد اصولوں کے لئے ہے اور وہ عوامی حاکمیت کے ایک نکاتی ایجنڈے کے لئے کوشش کررہی ہیں۔ لیکن اپنی باتوں اور باہمی تنازعہ سے وہ اسی اصول کو نظر انداز کرنے کا سبب بن رہی ہیں۔

’ووٹ کو عزت دو ‘کے اصول کی جد و جہد میں سیاسی عہدوں کا حصول واقعی کوئی بڑی کامیابی نہیں ہے بلکہ عوام کو جمہوری روایت کے مقصد سے تیار کرنا ہی اصل کام ہے۔ تو مریم نواز کیوں اس بات پر چیں بچیں ہیں کہ سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر کا عہدہ یوسف رضا گیلانی کو مل گیا۔ وہ اس پوزیشن کو معمولی قرار دے کر پیپلز پارٹی کی ’مفاد پرستی‘ پر ماتم کناں ہیں لیکن اگر یہ عہدہ واقعی ان کی سیاسی جد و جہد کے تناظر میں اتنا حقیر ہے تو انہیں اس ایک نکتہ پر مشترکہ مقصد کے لئے قائم ہونے والے پلیٹ فارم کو تباہ کرنے والا رویہ اختیار کرنے کی ضرورت کیوں پیش آرہی ہے؟ اگر ان کا مطمح نظر ’جمہوریت‘ اور پیپلز پارٹی کا مقصد ’اقتدار و مراعات‘ ہیں تو اسے سیاسی سلوگن بنانے کی بجائے انہیں مسلم لیگ (ن) کو طویل اور مشکل عوامی جد و جہد کے لئے تیار کرنا چاہئے۔

الزام تراشی میں اپنی صلاحیت اور وقت برباد کرنے کی بجائے ، کیا یہ بہتر نہیں ہوگا کہ وہ اپنی پارٹی میں اتفاق رائے پیدا کریں ۔ خبروں کے مطابق شہباز شریف اور حمزہ شہباز نے مریم بلاول تنازعہ میں فریق نہ بننے کا فیصلہ کیا ہے۔ مریم نواز کے لئے یہ خبر یوسف رضا گیلانی کے سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر بننے سے زیادہ تشویش کا سبب ہونی چاہئے۔ نواز شریف اور مریم نواز خود کو جس نو دریافت شدہ ’نظریاتی ‘ جد و جہد کا بانی تصور کرتے ہیں، اس میں اپنی ہی پارٹی کی دھڑا بندی، پی ڈی ایم کے اختلافات اور پیپلز پارٹی کی مختلف حکمت عملی سے زیادہ پریشان کن ہے۔ نواز شریف چونکہ ملک میں نہیں ہیں ، اس لئے ان کے نمائیندے کے طور پر مریم پر ایک طرف ایک اصولی سیاسی مؤقف کے لئے کام جاری رکھنا اہم ہوگا تو دوسری طرف اس مقصد کے لئے پارٹی کو متحد رکھنا بھی ضروری ہوگا۔ بلاول بھٹو زرداری اور پیپلز پارٹی کے خلاف محاذ آرائی سے مریم نواز سیاسی کیرئر کے آغاز میں ہی اپنی مشکلات میں اضافہ کا سبب بن رہی ہیں۔

اس صورت حال میں یہ نکتہ بھی اہم ہے کہ پاکستان جمہوری تحریک ملکی سیاست میں اسٹبلشمنٹ کی مداخلت سے پاک کرنے کے موقف سے قائم ہوئی تھی لیکن اب صرف پیپلز پارٹی ہی نہیں خود مریم نواز، مسلم لیگی لیڈر اور مولانا فضل الرحمان کا مخاطب عمران خان کی حکومت ہوتی ہے۔ حالانکہ نواز شریف اور مریم نواز یہ دعویٰ کرتے رہے ہیں کہ تحریک انصاف کی حکومت ان کا ہدف نہیں ہے ۔ وہ ووٹ کو عزت دلوانے اور پارلیمنٹ کو بااختیار بنوانے کے ایجنڈے پر گامزن ہیں۔ مریم کو غور کرنا چاہئے کہ ان کے تازہ ترین بیانات اور کوششوں کا نشانہ اب عمران خان کی حکومت کیوں ہے۔ بلاول بھٹو زرداری اور پیپلز پارٹی بھی اسی حکمت عملی پر عمل پیرا ہیں۔ اس صورت حال میں پی ڈی ایم درحقیقت اپنی معنویت کھوچکی ہے۔

موجودہ حکومت اپنی نصف مدت پوری کرچکی ہے۔ اس کی ناکامیاں اس کے پاؤں کی زنجیر بن رہی ہیں۔ معاشی پالیسی کی ناکامی نے عوام کی مشکلات میں اضافہ کیا ہے۔ آئیندہ انتخابات میں عمران خان اور ان کے ساتھیوں کے پاس عوامی مسائل حل نہ کرنے کا کوئی قابل قبول بہانہ نہیں ہوگا۔ تاہم اگر اپوزیشن بدستور ’حکومت گراؤ‘ تحریک چلائے گی اور کسی بھی قیمت پر عمران خان کو وزارت عظمی سے علیحدہ کرنے کے مشن پر گامزن رہے گی تو اپوزیشن کی یہی تندہی دراصل آئیندہ انتخابات میں عمران خان کی طاقت بنے گی۔ وہ اپنی ناکامیوں کی ذمہ داری اپوزیشن کی جارحیت کو قرار دیں گے اور کہیں گے کہ ان بدعنوان لیڈروں نے قوم کی لوٹی ہوئی دولت چھپانے کے لئے ان کی حکومت کو ناکام کرنے کی ہرممکن کوشش کی اور تحریک انصاف کو اپنے منشور پر عمل کرنے کا موقع نہیں دیا۔ پاکستان کے عوام جذباتی، ہیرو پرست اور نعروں پر یقین کرنے والے ہیں۔ عمران نے ثابت کیاہے کہ وہ مسلم لیگ (ن) اور کسی حد تک پیپلز پارٹی سے بہتر نعرے باز ہیں۔ کیا اپوزیشن پارٹیاں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش میں ، اس سیاسی پہلو پر بھی غور کریں گی کہ ان کا جارحانہ طرز عمل ، حکومت گرانے کی تحریک اور کسی بھی قیمت پر ’نامزد حکومت‘ کو کام نہ کرنے دینےکے اعلانات، کہیں حکومت کی سیاسی قوت میں اضافہ کا سبب تو نہیں بن رہے؟

مسلم لیگ (ن) نے فوری طور سے اگر اپنی حکمت عملی اور اہداف واضح نہ کئے اور آئندہ انتخابات کے نقطہ نظر سے ہوم ورک کا آغاز نہ کیا تو یہ بھی ممکن ہے کہ اسٹبلشمنٹ مخالف بیانیہ کی وجہ سے اس وقت نواز شریف کو جو عوامی حمایت حاصل ہورہی ہے ، وہ حکمران جماعت کی بہتر انتخابی حکمت عملی میں دب کر رہ جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2767 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments