کتاب خواں کہاں کھو گیا


بیان کیا جاتا ہے کہ پطرس بخاری نے ایک بار آل انڈیا ریڈیو پر ایک تقریر ریکارڈ کروائی۔ ریکارڈنگ کے بعد پتا چلا کہ ایک لفظ کا تلفظ غلط ادا ہو گیا ہے۔ پطرس نے دوبارہ ریکارڈنگ کرنے کو کہا۔ عملہ متذبذب تھا۔ کسی نے کہا سر جانے دیجیے، ہزار میں کوئی ایک ہو گا جو اس غلطی کو نوٹ کرے گا۔ پطرس نے جواب دیا مجھے اسی ایک خبیث کا ڈر ہے۔

پطرس بخاری کی تلفظ کے بارے میں اتنی حساسیت تھی کہ اگر غلطی کسی ایک فرد نے بھی پکڑ لی تو یہ رسوائی کی بات ہے۔ لیکن مجھے محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے بہت عالم فاضل حضرات بھی حقائق اور معلومات کے متعلق حساس نہیں ہیں۔ جو ان کے قلم سے نکل گیا وہ اسی کو حرف آخر سمجھ لیتے ہیں۔

کتاب چھپنے کے بعد شاید کوئی سخن فہم قاری بھی نصیب نہیں ہوتا جو غلطی پر متنبہ کر سکے تاکہ آئندہ ایڈیشنوں میں اس غلطی کا اعادہ نہ ہو۔ اگر ایسا ہوتا تو کتابوں میں نادانستہ طور پر در آنے والی واقعاتی اور معلوماتی غلطیوں کی آئندہ ایڈیشنوں میں اصلاح ہو جاتی۔ اب وہ کتابیں برسوں سے چھپ رہی ہیں ؛ کئی کئی ایڈیشن نکل چکے ہیں لیکن اغلاط جوں کی توں موجود ہیں۔ آئندہ سطور میں چند مثالیں پیش کر رہا ہوں لیکن میرا گلہ مصنف سے زیادہ مدیر اور قاری سے ہے۔

جناب شمس الرحمان فاروقی علم و مطالعہ کا بحر ذخار ہونے کے ساتھ ساتھ ایک زود قلم مصنف بھی تھے۔ جس بھی موضوع پر قلم اٹھائیں معلومات کا دریا بہا دیتے تھے لیکن اس دریا میں کبھی کچھ خزف ریزوں سے بھی واسطہ پڑ جاتا ہے۔ فرماتے ہیں :

”ادب سے لطف اندوز ہونے کے لیے کسی مخصوص عقیدے پر کاربند ہونا ضروری نہیں۔ اگر میں صوفی نہ ہوتے ہوئے بھی رومی کو، کرشن بھکتی والا ہندو نہ ہوتے ہوئے بھی جے دیو کی طویل نظم“ گیت گووند ”کو، روسی کیتھولک نہ ہوتے ہوئے بھی دستہئفسکی کو پڑھ اور پسند کر سکتا ہوں۔“

اب یہ بات ظاہر ہے کہ روسی کیتھولک نام کا کوئی مذہب یا فرقہ دنیا میں کہیں نہیں پایا جاتا۔ فاروقی صاحب کو اس بات کا علم تھا کہ دستہئفسکی رومن کیتھولک مذہب کا پیروکار نہیں تھا۔ اب اس کے روسی ہونے کے ناتے فرق ظاہر کرنے کی خاطر اسے روسی کیتھولک لکھ دیا حالانکہ روس کے لوگ آرتھوڈوکس چرچ کو ماننے والے ہیں۔

یہ بہت معمولی نوعیت کی غلطی ہے جو بے دھیانی میں کسی سے بھی سرزد ہو سکتی ہے۔ یہ بات فاروقی صاحب نے جاں نثار اختر پر شائع ہونے والے اپنے مضمون میں لکھی تھی جو سن 1976 میں ایک مجلے میں چھپا تھا۔ فاروقی صاحب کی تحریروں کو ہزاروں لوگ پڑھتے ہوں گے۔ میرا مسئلہ یہ ہے کہ کیا ان کے کسی دوست یا قاری نے انھیں اس سہو پر مطلع نہیں کیا تھا؟ کیونکہ اگر کسی نے ایسا کیا ہوتا تو فاروقی صاحب کے متعلق مجھے یقین ہے وہ بلاتامل درستی کر لیتے۔ اس بے پروائی کا نتیجہ یہ ہے کہ چونتیس برس بعد یہ مضمون ان کی کتاب ”معرفت شعر نو“ ( 2010 ) میں دوبارہ شائع ہوا تو یہ ادنی سی غلطی بعینہٖ موجود ہے۔

اسی طرح فاروقی صاحب کی ایک اور کتاب ”صورت و معنی سخن“ کے اس بیان پر حیرت کا سامنا کرنا پڑا۔ :

”چین کے مشرقی علاقے میں مسلمان حضرت عثمان کے وقت سے ہیں اور اکثریت میں ہیں۔ انھوں نے مقامی چینی زبان اور رسم الخط کو حسب سابق قائم رکھا ہے۔“ (ص 217 )

چین کے مشرقی علاقے میں مسلمان کبھی اکثریت میں نہیں رہے۔ چین میں وہ علاقہ، جہاں مسلمان اکثریت ہیں، سنکیانگ کہلاتا ہے اور چین کے شمال مغرب میں واقع ہے۔ اس کا ایک پرانا نام مشرقی ترکستان تھا۔ میرا خیال ہے کہ فاروقی صاحب کے نہاں خانہ دماغ میں یہ نام موجود تھا اور مشرقی لفظ کے تلازمے سے دھوکا کھا کر سنکیانگ کو مشرقی چین میں پہنچا دیا۔

اسی کتاب میں ایک اور بیان ملاحظہ کیجیے :

”مصر کے مغرب میں جو ممالک شمالی افریقہ کے ہیں ان میں سوڈان، لیبیا، مراقش (کذا) اور الجیریا نمایاں ہیں۔“ (ص 237 ) فاروقی صاحب غالباً ٹیونس لکھنا چاہتے تھے لیکن سہواً سوڈان لکھ گئے جو مصر کے مغرب میں نہیں بلکہ جنوب میں ہے۔

یہ کتاب آکسفرڈ یونیورسٹی پریس نے شائع کی ہے۔ ( 2011 ) کیا اس پریس والوں نے بھی ایڈیٹر کی جاب ختم کر دی ہے؟

اب میں دل پر پتھر رکھ کر فاروقی صاحب کے ایک ایسے سہو قلم کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جس کی میں کوئی توجیہہ کرنے سے قاصر ہوں۔ ان کا ایک انگریزی مضمون ہے جو کئی جگہ شائع ہو چکا ہے :

The Image of Satan in Iqbal and Milton

اس میں ان کا فرمانا ہے کہ سوائے ابلیس کے تمام فرشتوں نے آدم کو سجدہ کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ اصل انگریزی جملہ یہ ہے ”

” [T]he Quran، from which all truly Islamic traditions derive their sanction، does not raise this issue but stated plainly that all angels ’except Iblis‘ refused to pay obeisance to Adam۔“

”Iqbal: Essays and Studies“ , edited by Asloob Ahmad Ansari. Iqbal Academy Pakistan. 2004. P.259
عقل حیرت زدہ ہے کہ کسی بھی مدیر کی نظر اس جملے پر کیوں نہیں پڑی تھی۔

محمد حسن عسکری مرحوم کے عمیق علم اور وسیع معلومات پر دو آرا نہیں ہو سکتیں۔ عسکری صاحب اپنے علم سے قاری کو مرعوب ہی نہیں کرتے تھے بلکہ اس پر دہشت بھی طاری کر دیتے تھے۔ تازہ بتازہ معلومات کے اظہار کا اسلوب کچھ اس طرح کا ہوتا تھا کہ ”پروفیسر (پطرس) بخاری مرحوم کی نظر سے مشہور افسانہ نگار محمد حسن عسکری کے بعض“ تنقیدی ”مضامین گزرے۔ بے ساختہ پکار اٹھے :“ یوں معلوم ہوتا ہے جیسے عسکری صاحب ان فرانسیسی ادیبوں کے ساتھ رات بھر تاش کھیلتے رہے ہوں۔ ”(مقالات ن م راشد۔ مرتبہ شیما مجید۔ ص 296 )

عسکری صاحب کا مجموعہ مضامین ”وقت کی راگنی“ ان کی وفات کے بعد احمد مشتاق اور ڈاکٹر سہیل احمد خاں نے سن 1979 میں شائع کیا تھا۔ اس کے پیش لفظ میں انھوں نے بیان کیا کہ یہ مضامین عسکری صاحب نے اپنی زندگی میں انھیں اشاعت کے لیے دیے تھے۔ انھوں نے یہ وضاحت بھی کی تھی کہ ”عسکری صاحب نے اس کتاب کا مسودہ اشاعت کے لیے دیتے ہوئے مضامین میں بعض تبدیلیاں بھی کی تھیں۔ بعض فقرے کاٹ دیے تھے اور بعض جگہ لفظ تبدیل کیے تھے۔“

اس اہتمام کے باوجود مجھے ایک صدمے سے دوچار ہونا پڑا جب ان کے مضمون ”جدید عورت کی پرنانی“ کے اختتام پر اس سطر پر نظر پڑی: ”لیڈی میکبتھ کا کیا انجام ہوا یہ بتانے کی ضرورت نہیں۔ یہ تو بالکل ہی تازہ خبر ہے کہ بریژیت باردو نے خود کشی کر لی“ ۔ یہ مضمون 1960 میں تحریر کیا گیا تھا۔ مضمون تحریر کرنے اور رسالے میں اس کی اشاعت کے دوران میں کم از کم چند ہفتوں کا وقفہ تو ضرور حائل رہا ہو گا۔ اس عرصے میں عسکری صاحب تک یقیناً یہ خبر پہنچ گئی ہو گی کہ خود کشی کی کوشش کامیاب نہیں ہوئی اور باردو کی زندگی بچا لی گئی ہے۔ اس پر صرف یہ اضافہ کرنا چاہتا ہوں کہ وہ تاحال زندہ ہے۔ کمال یہ ہے کہ نہ عسکری صاحب نے جملہ حذف کرنے کے لیے کہا نہ رسالے کے مدیر کو اس پر کوئی اعتراض ہوا۔ اس مضمون کی تحریر و اشاعت کے بعد عسکری صاحب اٹھارہ برس تک حیات رہے لیکن انھوں نے اس جملہ پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ شاید انھیں یقین تھا کہ اگر یہ کوشش کامیاب نہیں ہوئی تو وہ دوبارہ ایسی کوشش ضرور کرے گی کیونکہ اس کا یہی انجام مقدر ہے۔

مسعود مفتی اردو زبان کے نامور ادیب اور افسانہ نگار ہیں۔ ان کا ایک بہت مشہور اور اثر انگیز افسانہ ’یا خدا‘ ہے جو اولاً سن 1960 میں مجلہ ”سویرا“ کے شمارہ نمبر 31 میں شائع ہوا تھا۔ افسانے میں سپین کے ایک غار کو تمثیلی انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ اس افسانے کا یہ جملہ بہت تعجب انگیز ہے : ”اس کے سامنے سپین کی سرزمین پھیلی ہوئی تھی۔ اپریل 1960 ء کے سورج کا سنہری طشت بحر الکاہل کے نیلے پانی میں غوطہ لگانے کو تھا“ ۔

مسئلہ یہ ہے کہ سپین کے جس سمندر میں سورج غروب ہو گا اسے اٹلانٹک کہتے ہیں۔ اردو میں اس کا نام بحر اوقیانوس ہے۔ بحر الکاہل تو سپین کے مغربی ساحل سے پانچ ہزار میل سے زیادہ فاصلے پر واقع ہے اور دونوں کے درمیان امریکہ کا براعظم حائل ہے۔

کوئی چار برس بعد مسعود مفتی کے افسانوں کا مجموعہ ”محدب شیشہ“ شائع ہوا۔ میرے پیش نظر کتاب کا دوسرا ایڈیشن ہے جو سن 1979 میں طبع ہوا۔ اس میں مذکورہ بالا جملہ کسی ترمیم و تصحیح کے بغیر موجود ہے۔ گویا نہ ”سویرا“ کے مدیر نے اس تسامح کو نوٹ کیا اور نہ کسی قاری نے مفتی صاحب کو اس پر متنبہ کرنے کی ضرورت محسوس کی۔

بیسویں صدی کی ابتدائی دہائیوں میں جس شخص نے مسلمانان ہند کے ذہنوں کو سب سے زیادہ متاثر کیا وہ مولانا ابو الکلام آزاد ہیں۔ ان کے ”الہلال“ نے دلوں میں آگ لگا دی تھی۔ ان کی نثر میں خطیبانہ سحر بیانی تھی جو دل و دماغ کو جکڑ لیتی تھی۔ ان کی نثر کو حسرت موہانی نے اس طرح داد دی تھی:

جب سے دیکھی ابوالکلام کی نثر
نظم حسرت میں کچھ مزا نہ رہا

لیکن اس جوش میں قلم کبھی کبھار ٹھوکر بھی کھا جاتا تھا۔ چنانچہ ملک زادہ منظور احمد نے اپنی کتاب ”مولانا ابو الکلام آزاد الہلال کے آئینہ میں“ میں بیان کیا ہے کہ ”الہلال میں کہیں کہیں تاریخی، علمی اور واقعاتی غلطیاں ہیں“ ( ص 160 ) اور کچھ غلطیوں کی نشان دہی بھی کی ہے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments