حکمرانی کی جنگ اور خود فریبی کا تسلسل


پہلے زمانوں میں بادشاہ وقت ہی طاقت کا مآخذ اور اصل سرچشمہ ہوا کرتا تھا، اسی لئے وہ براہ راست اپنی افواج کا سپہ سالار ہونے کی حیثیت میں جنگوں کی قیادت بھی خود ہی کیا کرتا جس کے لئے اس کا جواں مرد، شجاع اور بہادر ہونا لازمی ہوتا۔ چنانچہ شروع سے لے کر اب تک کی تاریخ میں افراد فوج کے ذریعہ اقتدار حاصل کرتے رہے ہیں کیونکہ یہی وہ ادارہ تھا جس کے پاس ہتھیار تھے اور جو طاقت اور جبر کی علامت تھا۔ مگر یہ صورتحال کولونیل دور میں اور زیادہ شدت کے ساتھ بدلی جب اس نے اپنے اقتدار کو مستحکم اور قائم رکھنے کے لئے پیشہ ورانہ فوج تیار کی تاکہ امن و امان قائم رکھنے کی آڑ میں اپنے خلاف تمام مزاحمتی تحریکوں کو کچلا جائے۔

یہ مستعد اور نظم و ضبط کی فوج کولونیل دور کے بعد نئے آنے والے ملکوں کو بطور ورثہ ملی۔ پیشہ ورانہ مہارت، جدید ہتھیاروں سے لیس طاقت کے اس سرچشمہ نے ریاست کے دوسرے اداروں پر برتری اور تسلط حاصل کر لیا۔ اس کے علاوہ ہر نئے آزاد ہونے والے ملک نے اپنی شہرت، تحفظ اور مرتبہ کے لئے اپنی فوجی طاقت کو مزید بڑھایا، اسے جدید سے جدید اسلحہ دیا، منظم کیا اور ان میں یہ احساس پیدا کیا گیا کہ ریاست کے دوسرے ادارے ان کے مقاصد میں کم تر ہیں، یہاں تک کہ عام شہریوں کے بارے میں بھی ان میں حقارت کے جذبات پیدا کیے گئے۔ لہٰذا جب بھی ان ملکوں میں سیاسی ابتری پھیلی اور سیاسی حکومتیں صورت حال سنبھالنے میں ناکام ہوئیں تو فوج نے اپنی قومی ذمہ داری سمجھی کہ ملک کی باگ ڈور خود سنبھال لے۔

اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اس کی ابتداء 1958 سے ہوئی، اس کے بعد 1969، 1977 اور 1999 میں فوج نے اقتدار سنبھالا۔ اپنے قیام کے گزشتہ تہتر برسوں میں چار مرتبہ براہ راست فوجی اقتدار کے تجربے سے گزر چکا ہے۔ ان جرنیلی ادوار میں جنرل ایوب ( 1958 تا 1969 ) جنرل یحییٰ خان ( 1969 تا 1971 ) جنرل ضیاء الحق ( 1977 تا 1988 ) اور جنرل پرویز مشرف ( 1999 تا 2008 ) مملکت کے اقتدار پر قابض رہے۔ اجتماعی طور پر ان چار فوجی ادوار کی مدت بتیس سال سے اوپر بنتی ہے، دوسرے لفظوں میں ملک کی مجموعی تاریخ سے تقریباً نصف سے زیادہ حصے میں فوج ہی اقتدار میں رہی۔

پاکستان میں ریاست کے کردار اور سیاست کے بالادست اداروں کی نوعیت اور ان کے اثر و اہمیت کو پیش نظر رکھا جائے تو یہ نتیجہ اخذ کرنا مشکل نہیں کہ وہ ادوار جن میں فوج براہ راست اقتدار میں نہیں تھی، ان میں بھی امور مملکت، حکومتوں کے قیام اور ان کی معزولی کے پیچھے اسی کا ایک کلیدی کردار رہا ہے۔ اس لحاظ سے پاکستان کی سیاسی تاریخ، کو فوج کی بالا دستی کی تاریخ قرار دینا بے جا نہ ہو گا۔

سوال یہ ہے کہ ایک ایسا ملک جس کے قیام سے پہلے اس کے جمہوری کردار کو طے شدہ تصور کیا گیا تھا، وہ اپنے قیام کے بعد جمہوریت کے راستے پر گامزن کیوں نہیں ہو سکا اور فوجی اقتدار اس ملک میں ایک استثنا کے بجائے معمول کی حیثیت کا حامل کس طرح بن گیا۔ اپنی تمام تر طاقت، جبر اور استحصال کے باوجود ان تمام طالع آزماؤں نے اسلام اور اس سے ملتے جلتے نعروں کا بے دریغ استعمال کیا۔ اپنی بعض خارجی یا داخلی مجبوریوں کے تحت یا تو اپنے مارشل لاء ہی کو جمہوری رنگ دینے کی کوشش کی یا پھر مارشل لاء کی چھتری تلے ایک متوازی مگر مکمل طور پر ماتحت جمہوری سیاسی نظام قائم کیا۔

اس مقصد کے لئے ان فوجی حکمرانوں نے اپنی سیاسی جماعتیں بنائیں، ان جماعتوں کی کامیابی کے لئے خود ساختہ جمہوری نظام مرتب کیے۔ انتخابات منعقد کرائے، ان انتخابات میں انتہائی منصوبہ بند کامیابیاں بھی حاصل کیں اور دلچسپ بات یہ کہ ان کامیابیوں کی حقیقت سے واقف ہونے کے باوجود اپنی حکومت، اپنے قائم کردہ نظام اور اپنی کھڑی کی گئی سیاسی جماعت کو عوام کی طرف سے قانونی اور اخلاقی جواز کی سند بھی تصور کیا۔ بلاشبہ یہ خود فریبی تھی۔

پاکستان کے چار فوجی حکمرانوں میں سے تین یعنی جنرل ایوب خان، جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کے ادوار میں ہمیں عملی طور پر اس قسم کے تجربات نظر آتے ہیں۔ فوجی جرنیلوں کی پروردہ ان سیاسی جماعتوں میں بڑے بڑے نامور سیاست دان شامل ہوئے اور وہ طویل عرصے تک اقتدار کے ایوانوں میں براجمان بھی رہیں لیکن باوجود اس کے یہ جماعتیں عوام میں اپنی جڑیں بنانے میں ناکام رہیں اور اپنے بانی اور سرپرست فوجی جرنیلوں کے زوال کے بعد اپنا وجود بھی برقرار نہ رکھ پائیں۔

اکتوبر 1958 میں مارشل لاء نافد کر کے جنرل ایوب ملک کے پہلے فوجی حکمران بنے جنہوں نے نہ صرف آئندہ فوجی حکمرانوں کے لئے اقتدار پر قبضہ کا ایک مستقل اور غیر جمہوری راستہ مہیا کیا بلکہ حکومت پر قبضہ کے طریقہ کار، حکمرانی کے انداز، اداروں پر کنٹرول، عوامی رد عمل کی بیخ کنی، سیاست دانوں کی زباں بندی اور آئین کی چیرہ دستی جیسے کئی غیر قانونی اور غیر آئینی اقدامات کی مثالیں بھی قائم کیں اور فوجی حکومت کو جمہوری رنگ دینے کی انوکھی مثال بھی قائم کی۔

اپنے مارشل لاء کو انقلاب اور خود کو قوم کا نجات دہندہ سمجھنے والے حکمران کی یہ خواہش غیرمعمولی یا حیران کن نہیں تھی لہٰذا ایوب نے اپنی اس خواہش کے تحت سول حکمران کے مرتبے کے حصول کے لئے کوششوں کا آغاز اپنے دور اقتدار کے پہلے حصے میں کر دیا تھا۔ اس سلسلے کا پہلا قدم 15 فروری 1960 کو اٹھایا گیا جب انہوں نے خود کو ایک منتخب صدر کہلوانے کے لئے ریفرنڈم کے ذریعے منتخب ہونے کا فیصلہ کیا اور ظاہر ہے منتخب بھی ہو گئے۔

مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ اس ریفرنڈم میں ووٹ ڈالنے کا حق عام لوگوں کو نہیں بلکہ ایوب کے قائم کردہ بنیادی جمہوریتوں کے نظام کے ان 80 ہزار اراکین کو تھا جو اپنی ان حیثیتوں کے لئے مکمل طور پر ایوب ہی کے مرہون منت تھے لہٰذا کل 80 ہزار میں سے 75283 اراکین کے ووٹ ایوب کو باآسانی حاصل ہو گئے جو بنیادی جمہوریتوں کے اراکین کی کل تعداد کا 95 فیصد تھا۔ 1962 میں مارشل لاء اٹھا کر سیاسی سرگرمیوں پر سے پابندی ہٹا دی گئی۔

ایوب کو اپنی حمایت یافتہ ایک سیاسی پارٹی کی ضرورت تھی سو اس مقصد کے حصول کے لیے بعض دوستوں کے مشورے سے کنونشن مسلم لیگ کی بنیاد رکھی گئی۔ سیاسی نشیب و فراز کی تاریخ سے قطع نظر ایوب نے 25 مارچ 1969 کو اقتدار فوج کے نئے کمانڈر انچیف جنرل یحییٰ خان کے حوالے کر دیا اور خود مستعفی ہو کر گھر چلے گئے۔ اس طرح ان کا قائم کردہ سیاسی نظام اور 1962 کا آئین خود انہی کے ہاتھوں اپنے منطقی انجام کو پہنچ گیا۔

جنرل ضیاء نے جولائی 1977 میں اقتدار سنبھالا تو ان کے سامنے ان کے دو فوجی پیشروؤں یعنی جنرل ایوب اور جنرل یحییٰ کی مثالیں موجود تھیں۔ جنرل ضیاء الحق، ایوب اور یحییٰ کے بعض اقدامات کو ان کی غلطی اور زوال کا سبب گردانتے تھے۔ مثال کے طور پر جنرل ضیاء سمجھتے تھے کہ جنرل ایوب کا خود کسی جماعت کا سربراہ بننا اور سیاست میں آنا ایک غلط قدم تھا جس کا نقصان انہیں اٹھانا پڑا تھا۔ ضیاء کے خیال میں یہ کام وہ چند موقع پرست سیاست دانوں سے باآسانی لے سکتے تھے۔

1983 میں جب جنرل ضیاء الحق نے حتمی طور پر یہ فیصلہ کیا کہ وہ ملک میں عام انتخابات فروری 1985 میں کرائیں گے تو ان کے سامنے سب سے بڑی مشکل یہ تھی کہ وہ کس طرح بھٹو کی پیپلز پارٹی اور بعض مخالف سیاست دانوں کو ان انتخابات سے دور رکھیں لہٰذا اس مقصد کے لئے انہوں نے ایک بھرپور حکمت عملی طے کی اور مکمل طور پر اس پر عمل بھی کیا۔ اپنی طے شدہ حکمت عملی کے تحت ضیاء نے انتخابات سے قبل ہی حالات کو سو فیصد اپنے حق میں کرنے کے لئے کچھ اقدامات اٹھائے۔

فروری 1984 میں پیپلز پارٹی کی سب سے موثر آواز اور ضیاء الحق کی سب سے بڑی حریف بے نظیر بھٹو کو ملک بدر کر دیا گیا جو پہلے ہی مارشل لاء کے تحت نظر بندی کی زندگی گزار رہی تھیں۔ طلباء تنظیموں پر پابندیاں عائد کر دی گئیں۔ انتخابات میں مخالف جماعتوں کو اسمبلی میں پہنچنے سے روکنے کے لئے غیر جماعتی انتخابات کے انعقاد کا فیصلہ کیا گیا۔ انتخابات سے قبل ریفرنڈم کے ذریعے خود کو آئندہ مدت کے لئے صدر منتخب کروایا، بہت سے سیاست دانوں پر پابندیوں کو برقرار رکھا گیا۔ صدر اور وزیراعظم کے اختیارات میں توازن پیدا کرنے کے بہانے آئین میں ترامیم کر کے تقریباً اہم اختیارات صدر کی طرف منتقل کر دیے گئے، یہاں تک کہ وزیراعظم کو نامزد کرنے کا اختیار بھی جنرل ضیاء نے بحیثیت صدر پاکستان خود حاصل کر لیا۔

قصہ مختصر آٹھویں ترمیم کے مسودہ کی حتمی منظوری اور 11 نومبر 1985 کو اس کے نافد العمل ہونے کے بعد 30 دسمبر 1985 کو جنرل ضیاء نے مارشل لاء اٹھا لیا اور اس طرح مارشل لاء سے جمہوری حکومت کی طرف پہلا قدم کامیابی سے رکھ دیا گیا اور جونیجو کی سول حکومت نے اپنی ذمہ داریاں انجام دینا شروع کر دیں۔ پھر مئی 1988 میں جنرل ضیاء نے جونیجو اور ان کی اسمبلی کو برطرف کر دیا اور اس طرح اپنے ہاتھوں سے لگائے اس نظام کو ضیاء نے خود ہی اکھاڑ پھینکا۔

جنرل مشرف نے 12 اکتوبر 1999 کو میاں نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کیا اور اپنے پیشروؤں کے سابقہ تجربات کی روشنی میں اپنے اقتدار پر قبضہ کو مارشل لاء کہنے سے گریز کیا، اپنے لئے مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کے بجائے چیف ایگزیکٹو کا ایک نیا منصب تخلیق کیا۔ انہوں نے بھی طویل عرصہ تک اقتدار میں رہنے کے لئے ایک سیاسی پارٹی مسلم لیگ قائد اعظم کے نام سے تشکیل دی۔ مشرف کی سرپرستی میں اس جماعت نے 2002 کے انتخابات میں کامیابی حاصل کی اور اکثریتی پارٹی بن کر سامنے آئی۔ اس جماعت پر کنٹرول کا اندازہ صرف اس ایک مثال سے باآسانی لگایا جا سکتا ہے کہ 2002 کے الیکشن کے نتیجے میں ملنے والی پانچ برس کی آئینی مدت کے دوران محض مشرف کی مرضی پر تین وزرائے اعظم پارلیمنٹ کے اندر ہی تبدیل کر دیے گئے اور اراکین اسمبلی میں سے کسی ایک نے چوں تک نہ کی۔

اقتدار پر مشرف کی گرفت ڈھیل پڑتے ہی مسلم لیگ ق کا انجام ایوب کی کنونشن مسلم لیگ اور ضیاء کی جونیجو مسلم لیگ سے اس لحاظ سے مختلف تھا کہ دونوں سابقہ جماعتیں اپنے بانی جرنیلوں کے منظر سے ہٹنے کے بعد شکست و ریخت کا شکار ہو گئیں۔

پاکستان میں ہر مارشل لاء کے اختتام پر ایسا لگتا ہے جیسے پاکستانی سیاست دانوں، اداروں، فوج اور عوام سب ہی کو مارشل لاء کے مضمرات کا اندازہ ہو چلا ہے اور پاکستانی معاشرہ شعور کی ان منزلوں کو پہنچ چکا ہے کہ اب کسی اور فوجی جرنیل کو جمہوریت پر شب خون مارنے کی ہمت نہیں ہو گی۔ لیکن کچھ ہی عرصہ بعد ایک نئے فوجی جنرل کو تقریباً ہر طبقہ فکر سے مختصر ہی سہی لیکن ایک نئی پود اپنی حکومت کی حمایت میں حاصل ہو جاتی ہے۔

اسی طرح یہ تجربہ بھی ہماری تاریخ کا خاصہ رہا ہے کہ جس طرح پاکستان کی سیاست ابتداء ہی سے شخصیات کے گرد گھومتی رہی ہے بالکل اسی طرح فوجی جرنیلوں کی جبری حکومتوں کے خلاف چلائی جانے والی قومی تحاریک بھی اپنے جوہر میں آمریت کے خلاف نہیں بلکہ دراصل کسی فرد واحد کے خلاف چلائی جاتی رہی ہیں۔ ایوب خان کے خلاف چلائی جانے والی تحریک اگر اپنی روح میں فوجی آمریت کے خلاف ہوتی تو ایوب کے بعد ایک دوسرے فوجی حکمران کو اقتدار پر قبضہ کی جرات نہ ہوتی۔

سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ آخر فوجی حکمرانوں نے اپنے جبری اقتدار کے جواز کے لئے نت نئے انداز کیوں اختیار کیے۔ ایوب خان نے اپنے مارشل لاء کو ملک میں تیز ترین معاشی، سماجی اور زرعی ترقی کے لئے ایک انقلاب گردانا، جنرل یحییٰ نے اپنے مارشل لاء کو لوگوں کی خواہش کے مطابق ملک میں انتخابات کے انعقاد اور جمہوریت کی بحالی سے جوڑا، جنرل ضیاء نے پاکستان میں مذہب سے لوگوں کی مضبوط اور جذباتی وابستگی کو اپنے طویل اقتدار کی سیڑھی بنایا جبکہ جنرل مشرف نے نام نہاد روشن خیالی کا سہارا لیا۔

جب ان حکمرانوں نے طاقت کے ذریعے ہی اقتدار پر قبضہ کیا تھا تو پھر انہیں اپنی حکومتوں کو جاری رکھنے کے لئے مختلف حیلوں اور بہانوں کی کیا ضرورت تھی۔ پہلے بھی طاقت کا اصل سرچشمہ وہی تھے اور اب بھی، تو پھر خود فریبی کا یہ تسلسل ختم کیوں نہیں ہو پا رہا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments