مذہب اور سوشل میڈیا کے ایرے غیرے


دنیا بھر کے تمام مذاہب اپنے پیروکاروں سے تقاضا کرتے ہیں کہ پیروکار اپنے مذہب کو ویسا ہی پیش کریں جیسا کہ وہ مذہب ہے۔ رد و بدل یا من مرضی کی تبدیلیوں اپنے مطلب کے معانی نکالنے اور کمی یا پیشی کے ساتھ مذہب کو پیش کرنے کی اجازت کوئی بھی مذہب اپنے پیروکاروں کو نہیں دیتا۔ کیونکہ اگر مذہب رد و بدل یا پیروکاروں کی مرضی و منشاء کے مطابق تبدیلیوں کی اجازت دے تو مذہب اپنی حیثیت ہی برقرار نہ رکھ سکے گا۔

تاریخ عالم شاید ہے کہ جب جب کسی بھی مذہب نے اپنے قواعد و ضوابط پر سمجھوتا کیا، تو پہلے اس مذہب کی گرفت کمزور ہوئی، پھر رفتہ رفتہ وہ مذہب اس دنیا سے مٹ گیا۔ لہٰذا مذہبی گفتگو، تقریر یا تحریر اس بات کی متقاضی ہے کہ مذہب کو سمجھنے کے لئے سوالات کا حق تو ہر کسی کے پاس ہو، مگر مذہبی احکامات، مذہبی معاملات پر اپنی الگ سے رائے گھڑ لینے یا اپنی من مرضی کے قاعدوں اور ضابطوں پر مذہب کا لیبل لگا کر پیش کرنے کی اجازت کسی کو بھی نہ ہو۔

ہم چونکہ مسلمان ہیں۔ ہمارا مذہب (اسلام) مذاہب عالم میں سب سے اعلیٰ اور سب سے سچا مذہب ہے۔ لہٰذا ہم پر اس بات کی پابندی لازم ہے کہ اپنی علمی بساط کے مطابق مذہب پر بات کریں یا مذہب کی نمائندگی کرتے ہوئے اپنی علمی و فکری بساط کے مطابق کسی کے قول و فعل پر مذہب کا پیمانہ لگائیں۔ جتنا ہمارا علم ہے، جتنی ہمارے پاس معلومات ہیں ہم اسی علم یا انہی معلومات کی روشنی میں انتہائی احتیاط کے ساتھ گفتگو کریں۔

ہمارا مذہب (دین) اسلام چونکہ دین فطرت ہے، اس لیے ہمیں کرۂ ارض کی ہر شے کے بارے میں معلومات فراہم کرتا ہے۔ انسانی زندگی سے متعلق تمام پہلووں کا احاطہ کرتا ہے۔ خواہ انفرادی معاملات ہوں یا اجتماعی، حکومت، سیاست، معاشرت، معیشت، اخلاقیات، نظام عدل سے متعلق کامل اور حکمت بھرے، لاثانی اصول و قوانین سکھاتا ہے۔ اس بات کا اندازہ خوب کیا جا سکتا ہے کہ مذہب (دین) اسلام کا آغاز ہی لفظ ”اقرا“ یعنی پڑھنے (علم کے حصول کی ترغیب دینے ) سے ہوتا ہے۔

گویا پڑھنا، سیکھنا اور سمجھنا قبل از سکھانے، پڑھانے، بتانے کے ہم پر ہمارے مذہب (دین) اسلام نے لازم کر دیا ہے۔ لہٰذا گنجائش نہیں کہ ہم بغیر پڑھے، سیکھے، سمجھے مذہبی معاملات میں اپنی قیاس آرائیوں سے کام لیں اور اپنی قیاس آرائیوں پر مبنی من گھڑت نظریات پر مذہب کا لیبل لگا کر دوسروں پر مسلط کرنے کے لئے نکل کھڑے ہوں۔

سیاست مذہب (دین) اسلام سے باہر کسی دوسرے نظام کا نام نہیں بلکہ سیاست، مذہب (دین) کا ہی ایک جزء ہے جس کے بغیر بنی نوع انسان کی فلاح کا تصور ادھورا ہے لہٰذا سیاسی گفتگو بھی احتیاط کے ساتھ ساتھ درست معلومات کا تقاضا کرتی ہے۔ بلکہ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ دوسروں کی خامیوں کو تلاش کر کے نشر کرنا اور خوبیوں کو خامیوں کے بوجھ تلے دبوچ کر دوسروں کو پیچھے دھکیلنا، ہر ہر بات میں دوسروں کی برائی کا پہلو رکھ کر اپنے آپ کو فرشتہ صفت بیان کرنا فحش، فضول گفتگو تو ہو سکتی ہے، لیکن ایسے خیالات اور ایسی گفتگو کو سیاسی گفتگو کسی صورت نہیں کہا جا سکتا۔

صحافت ہر دور کی اہم ضرورت تھی، ہے اور رہے گی۔ ایک ایماندار صحافی خوبیوں اور خامیوں کی نشاندہی کر کے معاشرے کو درست سمت پر  لے چلنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ صحافت کا بھی ہر پہلو سے مذہب (دین) اسلام احاطہ کیے ہوئے ہے۔ اسلامی (مذہبی، دینی ) اصولوں پر کاربند صحافت معاشرے کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ لہٰذا طے شدہ اصولوں سے نابلد، کم علم، کم ظرف اور منفی ذہنیت کے، نظریاتی غلاموں کو صحافت کے ساتھ نتھی کرنا یا برائے شوق، بغیر پڑھے، سیکھے، سمجھے صحافتی لبادہ اوڑھ کر لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرنا کبیرہ گناہ اور بہت بڑا اخلاقی و قانونی، اصولی جرم ہے۔

لیکن آج کل سوشل میڈیا کی بڑھتی مقبولیت نے جہاں مذہبی (دینی) تبلیغ، مثبت و شعوری سیاسی کمپین اور صحافت کو آسان اور جدید بنایا ہے۔ وہیں سوشل میڈیا نے ہر ایرے غیرے کو مذہب، سیاست پر اپنی مرضی کا تبصرہ کرنے اور خود کو ان پڑھ اور جاہل ہونے کے باوجود صحافی بنا کر پیش کرنے کا موقع بھی فراہم کر دیا ہے۔

بدقسمتی سے وطن عزیز میں باقاعدگی کے ساتھ مذہبی، مسلکی، سیاسی اور صحافتی سوشل میڈیا ونگز سوشل میڈیا کا استعمال کر کے مذہب، مسلک، سیاست اور صحافت کو کہیں شہرت و دولت تو کہیں دوسروں کو نیچا دکھانے کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔ بلاشبہ سوشل میڈیا ایک بہترین پلیٹ فارم ہے مگر اس کے منفی استعمال کو نہ روکنا ایسا ہی ہے جیسے بندر کے ہاتھ میں استرا دے دیا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments