انگریزوں نے قلعہ لاہور سے کتنی دولت لوٹی؟


نوآبادیاتی راج کے سیاسی اور اقتصادی عزائم کی جڑیں اتنی گہری ہیں کہ تقسیم ہند کی سات دہائیوں بعد بھی متعدد حقائق تک پہنچنا جوئے شیریں لانے کے مترادف ہے، دراصل یہاں پر رائج نظریہ علم ان حقائق کو کریدنے میں رکاوٹ ہے. اس نظریہ علم کی ترویج کے لیے نوآبادیاتی عہد کی طاقتیں آج بھی سرمایہ کاری کرتی ہیں تاکہ اپنی علمی بالادستی کے ذریعے سے خاص سانچے میں ذہنی آبیاری برقرار رہے۔

آج سے 172 برس قبل پنجاب میں نوآبادیاتی راج نافذ کرنے کے لیے انگریزوں نے 29 مارچ 1849ء میں لاہور دربار میں مہاراجہ دلیپ سنگھ کے ساتھ یہ پانچ نکاتی معاہدہ کیا؛

اول:

عزت ماٰب مہاراجہ دلیپ سنگھ اپنے وارثوں، جانشینوں، حقوق، خطابات، پنجاب کی خود مختاری سے یا کسی بھی خودمختار طاقت کے سامنے دست بردار ہو جائیں گے۔

دوم:

ریاست کی تمام جائیداد، جہاں کہی بھی ملتی ہے، وہ ایسٹ انڈیا کمپنی ضبط کر لے گی، برطانوی حکومت کو ریاست لاہور کے ذریعہ قرض اور جنگی تاوان کی ادائیگی کی جائے گی۔

سوم:

ہیرا، جو کوہ نور کہلاتا ہے، جسے مہاراجہ رنجیت سنگھ نے شاہ شجاع الملک سے حاصل کیا تھا، مہاراجہ لاہور (دلیپ سنگھ) اسے ملکہ برطانیہ کے حوالے کرنے کا پاپند ہو گا

چہارم:

عزت مآب مہاراجہ دلیپ سنگھ ذاتی، رشتے داروں، ریاستی نوکروں کی معاونت کے لئے کم از کم چار لاکھ اور زیادہ سے زیادہ پانچ لاکھ نانک شاہی اعزازیہ وصول کریں گے۔

پنجم:

مہاراجہ دلیپ سنگھ کے ساتھ عظمت اور عزت کا سلوک رکھا جائے گا، وہ مہاراجہ دلیپ سنگھ بہادر کا لقب برقرار رکھیں گے، اور وہ اپنی زندگی کے دوران مذکورہ بالا اعزازیہ کا حصہ وصول کرتے رہیں گے، جو خود ذاتی طور پر مختص کیا جائے گا، بشرطیکہ وہ برطانوی حکومت کے فرماں بردار رہیں اور گورنر جنرل انڈیا کی منتخب کردہ جگہ پر رہائش پذیر ہوں گے۔

انگریزوں کے ساتھ ہونے والے اس معاہدے پر سکھ دربار کے اہم وزیر فقیر سید نور الدین نے دستخط کیے، بعد ازاں یہی فقیر سید نور الدین برطانوی وفادار ہو گیا، اس وفاداری کے عوض ان خاندان کو سرکاری جاگیریں انعام دی گئیں اور اس خاندان سے وابستہ سید مراتب علی کو برطانوی افواج کی خدمت کے کنٹریکٹ دیے گئے اور سید مراتب علی کو ریزرور بینک آف انڈیا کا 1935ء میں فاؤنڈنگ ڈائریکٹر تعینات کیا گیا۔

درج بالا معاہدے کی پہلی اور تیسری شق قابل غور ہے جس کے تحت پنجاب کے تمام خزانوں پر انگریزوں نے قبضہ کیا، ان خزانوں کا مرکز لاہور دربار (شاہی قلعہ) تھا، ڈاکٹر جان لاگ کو قلعہ کا گورنر مقرر کیا گیا۔ جان لاگ کو ہدف دیا گیا کہ قلعہ میں موجود تمام شاہی خزانوں کی فہرست مرتب کی جائے اور پھر ان خزانوں کی مالیت کا تخمینہ لگایا جائے، جان لاگ قلعہ میں موجود بے شمار قیمتی خزانوں اور مہارانیوں سے متعلق فکر مند تھا کیونکہ قلعہ میں موجود خزانوں میں برطانوی دلچسپی غیر معمولی تھی۔

شاہی قلعہ کے گورنر جان لاگ نے اپنی بیوی کو دس اپریل 1849ء کو چٹھی میں یوں کہا:

”میں قلعہ کے خزانوں کی فہرست مرتب کرنے میں بے حد مصروف ہوں، لیکن مجھے اندیشہ ہے کہ یہ کام مکمل کرنے کے لئے مجھے کئی ہفتے یا مہینے درکار ہوں گے۔ مجھے سکھ حکومت سے تعلق رکھنے والے تمام زیورات اور قیمتی سامان کی گورنر جنرل کے لئے انگریزی میں ایک فہرست بنانی ہے جو اب ہمارے قبضے میں ہے، ان میں کوہ نور ہیرا بھی شامل ہے، مجھ پر دباؤ ہے کہ مہاراجہ رنجیت سنگھ کی قائم کردہ اسٹیبلشمنٹ کا خاتمہ کرنا ہے، اس کے علاوہ مجھے کم عمر مہاراجہ کی نگہداشت بھی کرنا ہے، سر ہنری لارنس کی خواہش ہے کہ مہاراجہ کو برطانیہ سے تعلیم دلوائی جائے تاکہ مہاراجہ کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھالا جا سکے، مجھے اب یہاں قلعہ کا مالک پکارا جاتا ہے۔ میں ابھی آرٹلری کے کچھ سارجنٹوں کو اپنے آرڈر کے تحت انچارج بنا رہا ہوں تاکہ قلعہ میں موجود تمام ہتھیاروں کی فہرستیں مرتب کرا سکوں“ ۔

جان لاگ اس چٹھی میں مزید لکھتا ہے:

”میں نے بذات خود توشہ خانہ میں موجودہ جواہرات کا تخمینہ لگانے کی ذمہ داری لی ہے، یہاں پر موجود غیر معمولی اور انتہائی قیمتی جواہرات دیکھ کر آپ حیران ہو جائیں گی، گزشتہ روز خزانچی اور اس کے آدمیوں کے ہمراہ کچھ عمدہ ہیرے کی انگوٹھیوں پر نگاہ ڈالی جو ایک بستے میں رکھے ہوئے تھے، ان قیمتی انگوٹھیوں اور ہیروں میں سے ملکہ برطانیہ کے لئے تجویز کیے جا سکتے ہیں، میں ابھی تک زیورات کی کل مالیت کا تخمینہ نہیں لگا سکتا البتہ ان کی مالیت دس لاکھ نانک شاہی سے کم نہیں ہو سکتی، اس کے علاوہ دیگر قیمتی املاک بھی موجود ہے، اس میں کوہ نور ہیرا کی مالیت شامل نہیں ہے، میرے فرائض یقیناً متعدد ہیں، مجھے پہلے قلعے کا گورنر، اور مہاراجہ کا انچارج مقرر کیا گیا تھا، پھر تمام ریاستی پنشنرز کا پنشن پے ماسٹر مقرر کیا گیا، مجھے ریاستی جواہرات کے ساتھ باضابطہ طور پر کیپر آف اسٹیٹ توشہ خانہ یا ٹریژری بنایا گیا، اور کوہ نور میرے ہاتھ میں رکھا گیا۔ پورے شہر میں توپ خانے کی تمام ورکشاپس اور شہر کے دروازوں پر محافظ میرے حوالے کر دیے گئے تھے، قلعہ کے خوبصورت مناظر دیکھ کر کہا جا سکتا ہے کہ یقینی طور پر ہندوستانی زندگی رومانس سے بھری ہوئی ہے، میں نے کبھی خواب میں نہیں دیکھا تھا“ ۔

جان لاگ نے قلعہ میں موجود خزانوں اور جواہرات کی ایک فہرست گورنر جنرل کو بھجوا دی تھی اور اس فہرست میں توشہ خانہ میں موجود خزانے کی مالیت کا تخمینہ ساڑھے سولہ لاکھ نانک شاہی تھا، بورڈ آف ایڈمنسٹریشن میں شامل ہنری اور جان لارنس نے گورنر جان لاگ کو قلعہ کے تمام خزانوں پر مکمل اختیار سونپ رکھا تھا۔ قلعہ کی دولت سے انگریزوں نے کمپنی کی فوج کے اخراجات اٹھانا شروع کیے جبکہ اہم ترین نوادرات، جواہرات برطانیہ منتقل کر دیے گئے، ان میں کوہ نور ہیرا بھی شامل ہے جسے پہلی مرتبہ 1861ء میں لندن میں نمائش کے لیے رکھا گیا اور بعد ازاں کوہ نور کو ملکہ برطانیہ کے تاج میں جڑ دیا گیا۔

نامور ماہر ارضیات سوزی مینکس اپنی برطانوی شاہی جواہرات پر لکھی گئی کتاب میں کہتی ہیں کہ ہندستان کے مہاراجوں، خاص طور پر لاہور قلعہ میں پائے جانے والے بڑے پیمانے پر، تحائف، جنگی مال غنیمت اور دیگر خزانوں کو ایک کتاب میں درج کیا گیا ہے، شاہی خاندان کے ذاتی جیولرز میسرز گیرڈس اینڈ کمپنی کے پاس اس خزانے کی تفصیلات دستیاب ہے اور وہ اس فہرست کو دکھانے کے لیے راضی نہیں ہیں، ملکہ برطانیہ کے انتقال کے سو برس بعد بھی اس فہرست کو خفیہ رکھا گیا ہے، اسے خفیہ رکھنے کی کیا وجہ ہے؟

یہ یقین کرنے کی زبردست وجوہات ہیں کہ کسی فاتح کے قبضے میں آنے والا تاریخ میں اب تک کا سب سے بڑا خزانہ تھا، اور یہ خزانہ ایسٹ انڈیا کمپنی کی واحد ملکیت میں آ گیا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ جس خزانے پر قبضہ ہوا اس کا تعلق لاہور سے ہے اور لاہور کے باشندے اس سے متعلق معلومات نہیں رکھتے، اس خزانے کی مالیت کا اندازہ لگانے کے لیے چاندی کے ایک روپیہ کی قیمت خرید کو ذرا تھوڑی دیر کے لیے ذہن نشین کر لیں۔

مہاراجہ رنجیت سنگھ کے عہد میں چاندی کے دس سکوں کے عوض سات گرام خالص سونا خریدا جا سکتا تھا، رنجیت سنگھ کی موت کے چند سال بعد ، مشہور مؤرخ کارل اسٹین بیک نے اندازہ لگایا کہ ’آٹھ کروڑ سے زیادہ چاندی کی نقد رقم تھی جو ایسٹ انڈیا کمپنی کے ذریعہ لاہور قلعہ کے اندر سرکاری خزانہ میں رکھی گئی تھی‘ ۔ اس کے بعد لاہور جیولری کلیکشن ہے جو غالباً تاریخ کا اہم خزانہ ہے۔ 48,700 سے زائد خالص اونی کشمیری شالوں کا ذخیرہ قلعہ میں رکھا گیا تھا جو کئی کمروں میں موجود تھا۔ آج اس کوالٹی کی ایک شال کی قیمت ایک لاکھ روپے سے زائد ہو گی، اس کے بعد دیگر خزانوں کا تخمینہ کئی کروڑ روپے زیادہ تھا۔ اسٹین بیک اپنی کتاب میں کہتے ہیں کہ یورپ کے کسی بھی شاہی خاندان کے پاس اتنے زیورات موجود نہیں تھے جتنا ذخیرہ لاہور دربار میں تھا۔

رنجیت سنگھ کا سونے سے جڑا تخت آج وکٹوریہ اور البرٹ میوزیم لندن میں ہے، دیوان عام میں لاہور دربار کے ضبط شدہ خزانوں کی میسرز لائٹی برادرز نے سات نیلامیاں کیں، قلعہ لاہور کے دیوان عام میں 2 دسمبر 1850 ء میں شروع ہونے والی یہ نیلامی پانچ روز تک جاری رہی۔ لاہور دربار کے خزانے کی اصل مالیت کتنی تھی؟ یہ ایک معقول تخمینہ ہے کہ جواہرات کو نکال کر خزانے کی مالیت 10 کھرب روپے سے زائد تھی۔ لاہور دربار کے اتنے بڑے خزانہ کا معما کب تک باقی رہے گا، انگریزوں نے لاہور دربار سے ایک سال میں جتنا خزانہ لوٹا، شاید راج کی دو سو سالہ تاریخ میں ایک سال کے عرصے میں اتنی بڑی لوٹ کھسوٹ ہوئی ہو۔

پنجاب کو کتنے ہی بڑے سانحہ سے گزرنا پڑتا ہے کہ یہاں کے حکمران ماضی کے حقائق اپنی قوم کے سامنے رکھنے کی بجائے برطانوی سفارت خانے میں ملکہ برطانیہ کی یوم پیدائش کی تقریبات مناتے ہیں، سفارت خانے میں حاضر ہو کر ملکہ کے جنم دن کا کیک کاٹتے ہیں، ماضی میں بھی یہاں کے خانوادے ملکہ برطانیہ کی گولڈن جوبلی کی تقریبات مناتے رہے ہیں، وہ ملکہ جس نے ایمپریس آف انڈیا کا عہدہ تو رکھا لیکن کبھی اس دھرتی پر اپنے قدم نہیں رکھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments