سینیٹ الیکشن، پی ڈی ایم اور مستقبل کے خدوخال


عمران خان کی موجودہ حکومت نے جیسے تیسے اپنا آدھا عرصہ مکمل کر لیا ہے۔ اس عرصے میں عمران خان اور حکومت پر کیا گزری، نواز شریف اور مولانا کس حال میں ہیں، زرداری نے کس وقت کون سا کھیل کھیلا اور مقتدر قوتوں نے کب کیا کہا اور کیا کیا، یہ سب اب نوشتہ دیوار ہے.

چند جملوں میں خلاصہ کچھ یوں ہے کہ عمران خان کے تمام تر دعوے ریت کی دیوار ثابت ہوئے، اب یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ عوام و خواص نے جو توقعات ان سے وابستہ کر کے مسند اقتدار پر بٹھایاتھا، وہ بیس فیصد بھی پوری نہیں ہوئی۔ اور اب عوام وخواص دونوں متبادل ڈھونڈنے کے لئے کوشاں ہیں۔ نواز شریف اور مولانا فضل الرحمن صاحبان وقتی مفادات اور پارٹی سیاست سے بالاتر ہو کر جم کر کھیل رہے ہیں۔ اگرچہ اس جم کر کھیلنے میں ان کے لیڈر شپ کوالٹی کے ساتھ ساتھ ان کا جذباتی اور انتقامی سیاست بھی کارفرما ہے۔

اور گزشتہ دو سال کے دوران ان کی ایک ایک غلطی نے ان کو مشکلات سے دوچار کر دیا ہے۔ نواز شریف کی پہلی بڑی غلطی آرمی چیف ایکسٹینشن کے لئے بلا چون و چرا (خواہ اس کے پس پردہ وجوہات کچھ بھی ہو) ووٹ دینا تھا۔ جبکہ مولانا کی غلطی بعض مبہم یقین دہانیوں کے سہارے مناسب وقت سے پہلے لانگ مارچ تھا۔ عوام کی طاقت مشکلات اور مہنگائی کو کیش کرنے کی بجائے زرداری پر انحصار اور اعتماد دونوں کی مشترکہ غلطی تھی۔ جس کا خمیازہ ان کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ اگر یہ لوگ پیپلز پارٹی کے بغیر اپنے مضبوط بیانئے کے ساتھ آگے بڑھتے، تو بے شک وہ حکومت گرانے میں کامیاب نہ بھی ہوتے لیکن اس کا فائدہ دوسروں کی بجائے انہیں براہ راست ملتا۔

جہاں تک عارضی سیاسی مفادات کا تعلق ہے اس لحاظ سے زرداری نے سب سے بہتر کھیلا ہے۔ بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ پی ڈی ایم تحریک کا سب سے بڑا فائدہ وقتی طور پرپیپلز پارٹی نے اٹھایا ہے تو بے جا نہ ہوگا۔ سندھ حکومت کو بچاکے رکھا، مقدمات میں نرمی اور جیلوں سے رہائی پائی، گیلانی کو سینیٹ تک پہنچاکے اپوزیشن لیڈر بنایا اور اب عمران خان کی ناکامی اور اپوزیشن کے سخت بیانئے کا فائدہ اٹھاکر بلاول کو مستقبل کے متبادل سیٹ اپ کے لئے پیش کر دیا ہے۔

جہاں تک اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے سیاست میں مداخلت اور عدم مداخلت کا تعلق ہے تو بقول شاعر۔ صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں۔ باعث ترک ملاقات بتاتے بھی نہیں۔ فوجی ترجمان کی جانب سے سیاست میں نہ گھسیٹنے کے تمام تر دعووں کے باوجود جس انداز سے پرویز رشید جیسے مقتدرہ مخالف مگر پر امن اور مہذب سیاستدان کو سینیٹ سے باہر رکھا گیا۔ جس انداز سے چیئرمین سینیٹ کے انتخابات میں پولنگ بوتھ میں کیمرے نصب پائے گئے۔

اور جس طرح تین مارچ کو مطلوبہ تعداد نہ ہونے کے باوجود گیلانی جیت گئے مگر گیارہ مارچ کو مطلوبہ تعداد ہونے کے باوجود گیلانی ہار گئے۔ اور اس سب سے بڑھ کر گزشتہ روز جب حکمران جماعت کی حلیف پارٹی (باپ) کے سینیٹ ارکان نے اپوزیشن بنکر گیلانی کو اپوزیشن لیڈر بنایا تو بے اختیار کہنا پڑتا ہے کہ۔ جو بھی کرے ترا حسن کرشمہ ساز کرے۔

حکومت کا آدھا عرصہ گزرنے کے بعد مستقبل کی صف بندیاں شروع ہو رہی ہے۔ شنید ہے کہ سینیٹ انتخابات میں کھل کر حکومت کا ساتھ نہ دینے کے بعد شوگر رپورٹ کو دوبارہ زندہ کر کے جہانگیر ترین اور حمزہ شہباز کو چھیڑنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور ہو سکتا ہے کہ آئندہ حکومت میں اپنے لئے جگہ بنانے کی خاطر جہانگیر ترین بھی پیپلز پارٹی کا حصہ بن جائے۔ پیپلز پارٹی میں جہانگیرترین کی شمولیت دو ہزار گیارہ میں پی ٹی آئی کی اڑان کی طرح شروعات ہوگی۔

باقی ہیوی ویٹ بالفاظ دیگر ایلیکٹ ایبلز پکے ہوئے پھل کی طرح پیپلز پارٹی کی جھولی میں گرتے جائیں گے۔ اور انتخابات آنے تک یہ سلسلہ سینکڑوں تک پہنچ سکتا ہے۔ اگرچہ اس سے مقتدرہ کی منصوبہ بندی اور مستقبل کے خد و خال تو واضح ہو جایں گے مگر ضروری نہیں کہ ہر وقت سب کچھ اسی منصوبے کے مطابق ہو کیونکہ جس طرح کہتے ہیں نا کہ انسان اور اللہ کا ارادہ ایک نہیں ہوتا ہے۔ اس پورے گیم کے ناکام ہونے کے امکانات بھی کم نہیں ہے۔

کیونکہ ایک تو عوام کے سیاسی شعور میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے وہ مقتدرہ سمیت سیاسی پارٹیوں اور سیاسی لوٹوں کے گیم کو سمجھنے لگے ہیں بلکہ اس سے نفرت کرتے ہیں اور ان سیاسی کھیلوں سے نفرت اس لئے کرتے ہیں کہ وہ بجا طور پر سمجھتے ہیں کہ یہی کھیل عوام کو ان کے سیاسی اور قانونی حقوق سے محروم رکھنے کا باعث ہیں۔ ووٹ کو عزت دو کا نعرہ اپنے دو سالہ سفر میں تمام اونچ نیچ اور مشکلات کے باوجود پورے ملک میں عموماً اور پنجاب میں خصوصاً سب سے معروف نعرہ رہا ہے۔

اور اس کی حقانیت میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اضافہ ہو رہا ہے۔ نواز شریف اور مولانا حالیہ ناکامیوں کے باوجود اب بھی پانسہ پلٹنے کی صلاحیت رکھتے ہیں شرط صرف یہ ہے کہ وہ اپنی تمام تر صلاحیتیں موجودہ حکومت کو گرانے کی بجائے آئندہ انتخابات کو منصفانہ اور آزادانہ منعقد کرانے پر صرف کرے۔ اس مقصد کے لئے انہیں حکومت کے ساتھ بیٹھ کر جامع انتخابی اصلاحات کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے ایسی اصلاحات جو نہ صرف پولنگ کے دن فوج کی عدم مداخلت کی ضمانت فراہم کرے بلکہ انتخابات کے دن سے پہلے کے دھاندلی کی روک تھام بھی کر سکے۔

انتخابی اصلاحات کے علاوہ دوسری اہم بات نیب قوانین کو منصفانہ اور متوازن بنانا ہے۔ لیکن اس کا مقصد ہر گز نیب کو بے دست وپا بنانا نہ ہو۔ کیونکہ نیب نے اپوزیشن کے ساتھ جو کچھ کرنا تھا وہ کرچکا۔ اب حکمران جماعت کی باری ہے مگر یہ باری بھی سیاسی اور انتقامی کی بجائے منصفانہ اور بے لاگ احتساب کا ہونا چاہیے۔ اگر موجودہ حکمرانوں نے غیر قانونی اور غلط کام کیے ہیں جو یقیناً انھوں نے کیے ہیں تو پھر انہیں بچنا نہیں چاہیے، لیکن انہیں اس انداز سے بلانا گرفتار کرنا ذلیل کرنا اور میڈیا ٹرائل کرنا جس طرح اب تک نیب اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ خصوصاً مسلم لیگ نون کے ساتھ کر رہا ہے نہیں ہونا چاہیے۔ کیونکہ سیاسی انتقام اور اداروں کو اپنے کام کی بجائے سیاسی انجینئرنگ کے لئے استعمال کرنے کا سلسلہ جتنا جلدی ممکن ہو۔ رکنا ضروری ہے۔

جہاں تک آئندہ انتخابات میں اپوزیشن کی کامیابی کا دار و مدار ہے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں پیپلز پارٹی کے بغیر ایک مشترکہ اور دوٹوک (ووٹ کو عزت دو) کے موقف کے ساتھ آگے بڑھے۔ اس تحریک کو ابھی سے سیاسی اور انتخابی اتحاد میں تبدیل کرے۔ صرف پنجاب پر فوکس کرنے کی بجائے چھوٹے صوبوں کی محرومیوں اور مشکلات کو بھی اپنے ایجنڈے میں شامل کرے۔ خاص کر انتخابات میں عوام کے پاس جانے کے لئے نظام کے بدلنے کا حقیقی نعرہ ہو خواہ اس کے لئے نیا عمرانی معاہدہ ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔ تاکہ بھرپور عوامی تائید کے ساتھ اداروں کے مابین طاقت کے توازن کا ازسر نو تعین کیا جاسکے۔ کیونکہ طاقت کے اسی توازن کے ساتھ اس ملک کا مستقبل وابستہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments